اسماء اہلیہ فاروق
اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو قوم بنی اسرائیل اور پیغمبروں میں برگزیدہ کیاتھا ۔آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے معززاور جمیل القدر پیغمبر ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت زکریا ؑ حضرت داؤد ؑ کی اولاد میں سے تھے اوردوسری روایت میں ہے کہ ارمیا کی اولاد میں سے تھے ۔
د ن گزرتے گئے ابراہیم ؑ اور یعقوب ؑ کی نسل سے کچھ نیک لوگ پیدا ہوئے ا ن کو آل عمران کے نام سے یاد کیاجاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا
إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٣٣﴾ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٣٤﴾
ترجمہ: خدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا
ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے اور خدا سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔
جس عمران کا ذکرقرآن نے کیاہے یہ داؤد کی اولاد سے ہیں ،زکریاؑ کی بیوی ، یحییٰ ؑ کی والدہ اور مریم ؑ کی والدہ حنہ دونوں حقیقی بہنیں تھیں اور زکریاؑ رشتے میں مریم ؑ کے خالو تھے ۔
عمران کی بیوی نے منت مانی تھی کہ جو بچہ پیدا ہوگا اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردیں گے ۔ حضرت مریم ؑ کی پیدائش کے بعد جب انھیں بیت المقدس میں لایا گیا تو ان کی کفالت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریاؑ پر ڈالی ۔ آپ ؑ بنی اسرائیل میں معزز ” کاہن” مانے جاتے تھے ۔ حضرت زکریاؑ کی کفالت میں مریم ؑنے بہت اچھی پرورش پائی وہ نیک اور عبادت گزار اور بہت زیادہ سچ بولنے والی تھیں ۔
سورۃ آل عمران
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿٣٧
تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔
بخاری ومسلم، ترمذی اور نسائی کی حدیث ہے آپ ﷺ نے فرمایا
” وہ اپنے زمانہ میں مریم ؑسب سے افضل عورت تھیں اوراس امت میں خدیجہ رضی اللہ عنہ سب سے افضل عورت ہیں ۔”
اولاد کی خواہش :
جب زکریا ؑ حضرت مریم ؑ کے کمرے میں جاتے ان کے پاس بے موسم کے پھل رکھے نظر آئے ۔ وہ پوچھتے اے مریم تیرے پاس یہ روزی کہاں سے آئی وہ جواب دیتیں یہ اللہ کے پاس سے آئے ۔
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿٣٧
تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔
زکریا ؑ نےا ن کی فضیلت دیکھی توان کے دل میں بھی اولاد کی خواہش پیدا ہوئی وہ اس وقت تک بے اولاد تھے عمر 100 سال سےزائد تھی بیوی 90سال کی تھیں ۔ا ولاد کی شدید تمنا کے باعث انھوں نے اللہ سے دعا مانگی ۔
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا
(یہ) تمہارے پروردگار کی مہربانی کا بیان (ہے جو اس نے) اپنے بندے زکریا پر (کی تھی)
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ﴿٦﴾
جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو۔ اور (اے) میرے پروردگار اس کو خوش اطوار بناؤ۔
زکریا ؑ اپنے دور میں اکیلے ہی نبی تھے ان کے دور میں اصحاب ورشتہ داروں میں کوئی قابل آدمی نہ تھا۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ ﴿٩٠﴾
تو ہم نے ان کی پکار سن لی۔ اور ان کو یحییٰ بخشے اور ان کی بیوی کو اُن کے (حسن معاشرت کے) قابل بنادیا۔ یہ لوگ لپک لپک کر نیکیاں کرتے اور ہمیں امید سے پکارتے اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے۔
دعا کی قبولیت :۔ اور یحیٰٰؑ کی خوشخبری سنائی ۔ زکریا ؑ یہ سن کر خوش ہوئے اور حیران بھی کہنےلگے ۔
قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا ﴿٨﴾
انہوں نے کہا پروردگار میرے ہاں کس طرح لڑکا ہوگا۔ جس حال میں میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں( مریم 8)
اللہ تعالیٰ نے جواب دیا
قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا ﴿٩﴾
حکم ہوا کہ اسی طرح (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے یہ آسان ہے اور میں پہلے تم کو بھی تو پیدا کرچکا ہوں اور تم کچھ چیز نہ تھے۔
زکریاؑ نےعرض کیا ۔
قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ﴿١٠﴾
کہا کہ پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما۔ فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم صحیح وسالم ہو کر تین (رات دن) لوگوں سے بات نہ کرسکو گے
اللہ تعالیٰ نے نشانی ظاہر کردی ۔
قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ﴿١٠﴾
کہا کہ پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما۔ فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم صحیح وسالم ہو کر تین (رات دن) لوگوں سے بات نہ کرسکو گے ( سورۃ مریم
چنانچہ جب وہ وقت آیا کہ آپؑ بول سکتے تھے مگر بول نہ پائے اور صبح شام اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے۔ یہ نشانی تھی کہ ان کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا ہے
فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا ﴿١١
پھر وہ (عبادت کے) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام (خدا کو) یاد کرتے رہو۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران
فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿٣٩
وہ ابھی عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ (زکریا) خدا تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے فیض یعنی (عیسیٰ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے اور (خدا کے) پیغمبر (یعنی) نیکو کاروں میں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں یحٰییٰ کے روپ میں نہایت فرمانبردار ، نیک، صالح ، پرہیزگار اور عبادت گزار بیٹا عطا کیا۔ زکریاؑ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے اورقوم بنی اسرائیل کو وعظ ونصیحت کرتے رہے ۔
بنی اسرائیل کی خباثت :۔
جب بنی اسرائیل نے حضرت اسرائیل ؑ نے حضرت زکریاؑ کو مارنے کا قصد کیا تو آپ ؑ نے ظالموں سے بچنے کے لیے ایک درخت کے کھوکھلےتنے میں جاتے دیکھا جب وہاں پہنچے توآپ ؑ کو کہیں نہ پایا۔ اتنے میں لوگوں کے پاس شیطان آیا اور بتایا کہ جس کو آپ تلاش کررہے ہیں ۔ وہ یہاں ہے اس کے بعد آپ کو شہید کردیاگیا
نصیحت
انسان کتنے ہی بلند وبالا مقام پر پہنچ جائے اور اللہ کےساتھ اسے زیادہ قرب حاصل ہوجائے تب بھی وہ اللہ کا بندہ ہی رہتا ہے اور کسی بھی بلندی پر پہنچ کر وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں ہوسکتا نہ اس کا شریک ہوسکتا ہے اللہ جل شانہ کی ذات پاک وحدہ لاشریک ہے اور باپ بیٹے کی نسبتوں سے پاک ہے ۔ لہذا ہمیں اپنےآپ کو لمحے لمحے گمراہی سے بچانا چاہیے ۔ تاکہ اللہ کی پکڑ سے بچیں رہیں ۔
اس کے لیے ایمان کی مضبوطی حد درجہ لازم ہے۔ایمان کے لیے لازم ہے کہ اس کے ساتھ اسلام بھی پایا جائے اسی طرح حقیقی اسلام کے لیے شرط ہے کہ اس کے ساتھ ایمان بھی ہو۔ایمان دین کی ہر اس بات کو دل سے سچا ماننے اور زبان سے ان کااقرار کرنے ،ا پنے عمل سے اس کو ظاہر کرنے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مقرر کردیں ۔جبکہ اسلام اطاعت ،فرمانبرداری اور عمل کرنے کا نام ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں پرہیزگاری عطافرمائے اور دین اسلام کی تعلیمات پر پورے طور پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین