حضرت طلحہ بن عبیداللہ التَیمی رضی اللہ عنہ :پہلی قسط
تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔آپؓ کاتعلق مکہ شہر میں قبیلۂ قریش کے خاندان ’’بنوتَیم‘‘سے تھا،آپؓ کی ولادت، رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت کے تقریباًپچیس سال بعد مکہ شہرمیں ہوئی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ ،آپ ؓ کے نکاح میں تھی،اس اعتبار سے آپؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے داماد اور نبی کریم ﷺ کے ہم زلف بھی تھے۔
آپؓ بھی بھلائی میں سب لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا،یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ، اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقون الأولون‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہ کاذریعۂ معاش بھی تجارت تھا،چنانچہ تجارتی قافلوں کے ہمراہ مکہ سے ملکِ شام کی جانب آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔ایسے ہی ایک تجارتی سفرکے دوران جب آپ ؓ ملکِ شام کے شہربُصریٰ کے ایک پُررونق بازارمیں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موجودتھے، اُس وقت بازارمیں تجارت خوب زوروں پرتھی،خریدوفروخت کاسلسلہ عروج پرتھا،ان کے ساتھی بڑی دلچسپی کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کربولیاں لگارہے تھے،بے پناہ رش اورتاجروں کے اس شورکی وجہ سے کان پڑی آوازسنائی نہیں دے رہی تھی،اسی دوران اچانک آپؓ کی سماعت سے ایک ایسی آوازٹکرائی جس میں محض ان کیلئے ہی نہیں،بلکہ تمام دنیائے انسانیت کیلئے بڑی خوشگوارتبدیلی کاپیغام تھا۔
ہوایہ کہ ملکِ شام کے اُس بازارمیں خریدوفروخت کے اس سلسلے کے دوران انہوں نے دیکھاکہ ایک ضعیف ونحیف اورعمررسیدہ راہب (پادری) ہرآنے جانے والے کوروک روک کراس سے یہ پوچھ رہاہے کہ ’’ارے کوئی مجھے بتائے کہ تاجروں کی اس بھیڑمیں کیاکوئی ایساتاجربھی ہے جس کاتعلق مکہ کی سرزمین سے ہو؟‘‘بوڑھے راہب کی زبانی یہ سوال سن کرآپؓ چونک اٹھے،اوراس کے قریب جا کر کہاکہ’’جی ہاں میں مکہ کاباشندہ ہوں‘‘اس بوڑھے راہب نے ان سے دریافت کیا’’کیاتمہارے شہرمکہ میں ’’احمد‘‘ کا ظہور ہو چکا ہے؟‘‘انہوں نے پوچھا’’کون احمد؟‘‘راہب نے کہا’’عبداللہ بن عبدالمطلب کابیٹا‘‘۔ یہ وہی زمانہ چل رہاہے جس میں ان کا ظہور طے ہے،وہ آخری نبی ہیں، ان کاظہورتمہارے شہرمیں ہوگا،اورپھروہ ایک ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کرجائیں گے جہاں بکثرت کھجوروں کے باغ ہوں گے‘‘۔
اس بوڑھے راہب کی یہ بات آپؓ کے دل میں پیوست ہوگئی،اوروہ اپنے ساتھیوں کی واپسی کاانتظارکئے بغیر اکیلے ملکِ شام سے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے،اوریہ طویل ترین مسافت تنہاطے کرتے ہوئے مکہ آپہنچے۔اوراپنے گھروالوں سے دریافت کیا ’’کیامیری غیر موجودگی میں یہاں مکہ شہرمیں کوئی خاص واقعہ رونماہواہے؟‘‘گھروالوں نے جواب دیاکہ’’ہاں!آپ کی غیرموجودگی میں محمدبن عبداللہ نے نبوت کا دعویٰ کیاہے،اوراس معاملے میں ابوبکران کے ہمنوابن گئے ہیں‘‘۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ محمدبن عبداللہ انتہائی راست باز اوردیانت دارانسان ہیں،لہٰذاوہ سوچنے لگے کہ جس شخص آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولاوہ اب کس طرح جھوٹ بول سکتاہے؟
طلحہ بن عبیداللہ رسول اللہﷺکی امانت ودیانت اورراست بازی کے علاوہ ابوبکرؓ کے حسنِ اخلاق اورشریفانہ طورطریقوں سے بھی خوب واقف اوربہت متأثرتھے ، لہٰذااپنے گھروالوں کی زبانی جب یہ بات سنی کہ حضرت ابوبکرنے محمدبن عبداللہ کادین اپنا لیا ہے تومزیدمتأثرہوئے ،اوردل ہی دل میں سوچنے لگے کہ تمام شہرمکہ کے یہ دونوں انتہائی سچے اورشریف ترین انسان بیک وقت کسی غلط بات پرمتفق ہوجائیں،یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔
انہی خیالات میں گم حضرت طلحہ بن عبیداللہ اولین فرصت میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پاس پہنچے،اُن سے پیغمبرِاسلام اوردینِ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں،تب ابوبکر صدیقؓ نے رسول اللہﷺکی بعثت کے بارے میں انہیں مطلع کیا، حضرت ابوبکرصدیقؓ کی زبانی آپ ﷺ کی بعثت کے بارے میں جاننے کے بعد حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کووہ تمام باتیں بتائیں جواسی بارے میں انہوں نے ملکِ شام میں بوڑھے راہب سے سنی تھیں،حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ خوشگوارحیرت میں مبتلاہوگئے۔
پھرفوراًہی حضرت ابوبکرصدیقؓ اپنے دوست طلحہ بن عبیداللہ کوہمراہ لئے ہوئے رسول اللہﷺکی خدمت میں پہنچے،جہاں آپ ﷺنے حضرت طلحہ کے سامنے اللہ کے کلام کی چندآیات پڑھ کرسنائیں،اورپھردین ودنیامیں خیروخوبی کی بشارت دیتے ہوئے انہیں دینِ برحق قبول کرنے کی دعوت دی،آپﷺ کی یہ مبارک گفتگوسن کرحضرت طلحہ کادل ایمان کے نورسے جگمگانے لگا،اور انہوں نے آپﷺ کے سامنے اپنے قبولِ اسلام کا اقرار و اظہار کرتے ہوئے یہ کلمات کہے’’ اشہدأن لاالٰہ الااللہ، واشہدأنک عبداللہ ورسولہ‘‘’’میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ، اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپﷺ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں‘‘۔
دینِ اسلام کا یہ بالکل ابتدائی دورتھاکہ جب دینِ اسلام قبول کرناموت کودعوت دینے کے مترادف تھا،مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں اوربدسلوکیوں کے وہ لامتناہی سلسلے ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کوبھی ان تمام ترجان لیوا،صبرآزما،انتہائی مشکل ترین اورتکلیف دہ مراحل سے گذرناپڑا،مگران کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی ، راہِ حق میں تمام آزمائشوں اورہرقسم کی تکلیفوں کاخندہ پیشانی کے ساتھ سامناکرتے رہے ،حتیٰ کہ اسی کیفیت میں تیرہ سالہ مکی دورگذرگیا،ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہونے پردیگرمسلمانوں کی طرح حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے بھی اللہ اوراس کے رسول ﷺکے حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے اپنے آبائی شہرمکہ کوخیربادکہا،اورسب کچھ چھوڑچھاڑکرخالی ہاتھ مدینہ جاپہنچے،جہاں مہاجرین وانصارکوباہم ’’رشتۂ مؤاخاۃ‘‘میں پروتے وقت رسول اللہﷺنے انہیں انصارِمدینہ میں سے حضرت کعب بن مالکؓ کابھائی بنایا۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)