تحریر:اسماءاہلیہ فاروق
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ 45( سورۃا لنمل )
اور ہم نے قوم ثمود کے پاس ان کے بھائی صالح کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو (٢١) تو اچانک وہ دوگروہ بن گئے جو آپس میں جھگڑنے لگے۔
حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کے نبی تھے ۔ قوم ثمود ” عرب العادبہ” یعنی دور قدیم کی خلاص عربی النسل قوم تھی ۔حضرت صالح ؑ ایک عربی نبی تھے جن کا زمانہ حضرت ہود ؑ کے بعدکا ہے ۔امام ثعلبی ؒ کے نزدیک آپ ؑکا نسب نامہ یوں ہے :
” ثمود بن عاد بن عوص بن ادم بن سام بن نوح ؑ “
(تفسیر ابن کثیر جلد 9 ص 142)
قوم ثمود:۔
آپ ؑ کی قوم یعنی قوم ثمود کی آبادیاں حجر میں تھیں حجاز اورشام کے درمیان وادی قریٰ میں آباد تھی ۔ حجر کا یہ مقام جو حجر ثمود کہلاتا ہے ۔ یہ قوم ثمودکا مرکزی شہر تھا ۔ اب وہ ” میدان صالح ” کے نام سے مشہور ہے ،یہ شہر مدینہ منورہ سے شمال مغرب میں 380 کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے ۔ قرآن کریم کی سورۃ حجر آیت 38 میں آتاہے ۔
وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ 80
اور حجر کے باشندوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا تھا۔
جس طرح عاد کو عاد ارم کہا گیا ۔اسی طرح ان کی ہلاکت کے بعد ان کو ثمود ارم یا عاد ثانیہ کہا جاتا ہے ۔ یہ اپنے زمانے کی بڑی متمدن اورترقی یافتہ قوم تھی ۔
یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ۔ صنعت وکاریگری قوم عاد سے وراژت میں پائی تھی ۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ فجر میں فرمایا :
وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ (9)
اور ثمود کی اس قوم کے ساتھ کیا کیا جس نے و ادی میں پتھر کی چٹانوں کو تراش رکھا تھا؟
ان کے مکانات ان کی تباہی سے لے کر اب تک موجود ہیں ۔ شام کے راستےمیں تبوک تک قوم ثمود کےآثار پائے جاتے ہیں ۔
وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَكُمْ فِي الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُيُوْتًا ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاءَ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ 74
اور وہ وقت یا دکرو جب اللہ نے تمہیں قوم عاد کے بعد جانشین بنایا، اور تمہیں زمین پر اس طرح بسایا کہ تم اس کے ہموار علاقوں میں محل بناتے ہو، اور پہاڑوں کو تراش کر گھروں کی شکل دے دیتے ہو۔ لہذا للہ کی نعمتوں پر دھیان دو، اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔
یہ آیت ان کی طاقت ، جسمانی صلاحیت اور ماہر فن ہونے کی دلیل ہے ۔ جس طرح اللہ نے عاد کو اپنی نعمتوں سے نوازا اسی طرح ثمود کو ان سے بڑھ کر نعمتیں عطا کیں ۔
اہل ثمودکا مذہب :۔ قوم عاد کی تباہی کے بعد دن گزرتے رہے اور لوگ ایک بار پھر ابلیس کے وسوسے میں آکر کفر میں مبتلا ہوگئے اس طرح ایک بار پھر کفر پھیل گیا۔ ثمود بت پرست تھے ۔ وہ خدائے واحد کے علاوہ بہت سے معبود وں کی پرستش کرتے ۔ حضرت صالح ؑ انہیں سمجھاتے اوردین کی دعوت دیتے ۔لیکن انھوں نے ہر طرح سے عاد کی پیروی کی ۔
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ 79 ( سورۃ الاعراف )
اس موقع پر صالح ان سے منہ موڑ کر چل دیے، اور کہنے لگے : اے میری قوم ! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور تمہاری خیر خواہی کی، مگر (افسوس کہ) تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے تھے۔
حجرت صالح ؑ نے انھیں اللہ کی نعمتیں یاددلائیں جن سے صبح وشام وہ محفوظ ہوتے رہتے تھے اور ان پرواضح کردیا کہ کائنات کی ہر شے اللہ کی وحدانیت کی گواہ ہے ۔
سورۃا لشعراء میں ہے :
اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا هٰهُنَآ اٰمِنِيْنَ ١٤٦ۙ
کیا تمہیں اطمینان کے ساتھ ان ساری نعمتوں میں ہمیشہ رہنے دیا جائے گا جو یہاں موجود ہیں؟
فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ ١٤٧ۙ
ان باغوں اور چشموں میں؟
وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيْمٌ ١٤٨ۚ
اور ان کھیتوں اور ان نخلستانوں میں جن کے خوشے ایک دوسرے میں پیوست ہیں؟
وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ١٤٩ۚ
اور کیا پہاڑوں کو بڑے ناز کے ساتھ تراش کر تم (ہمیشہ) گھر بناتے رہو گے؟
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٥٠ۚ
اب اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ ١٥١
اور ان حد سے گزرے ہوئے لوگوں کا کہنا مت مانو
الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ ١٥٢
جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اور اصلاح کا کام نہیں کرتے۔
حضرت صالح ؑ نے کہا کہ وہی اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں آباد کیا اور تمہیں مال ودولت اور کھیتی دی تمہیں بے شمار رزق عطا کیا تم اسی کی عبادت کرو اور توبہ کرو۔
وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ۘ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ ۭ اِنَّ رَبِّيْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ 61
اور قوم ثمود کے پسا ہم نے ان کے بھائی صالح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ (٣٥) انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اسی نے تم کو زمین سے پیدا کیا، اور اس میں تمہیں آباد کیا۔ لہذا اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، پھر اس کی طرف رجوع کرو۔ یقین رکھو کہ میرا رب ( تم سے) قریب بھی ہے، دعائیں قبول کرنے والا بھی۔
حضرت صالح ؑ نے جب قوم کو یہ عمدہ نصیحت فرمائی تو قوم نے جواب دیا :
قَالُوْا يٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْهٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِيْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ مُرِيْبٍ 62 ( سورۃ ہود )
وہ کہنے لگے : اے صالح ! اس سے پہلے تو تم ہمارے درمیان اس طرح رہے ہو کہ تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیَ جن (بتوں) کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں کیا تم ہمیں ان کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہو؟ جس بات کی تم دعوت دے رہے ہو، اس کے بارے میں تو ہمیں ایسا شک ہے جس نے ہمیں اضطراب میں ڈال دیا ہے
آپ علیہ السلام نبوت سے پہلے بھی عقل مند اور مہذب تھے باعزت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اپنے معمولات میں لوگ ان سے مشورے لیتے تھے لہذا انہیں ایک خاص مقام حاصل تھا لیکن جب آپ ؑ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کا ساتھ چھوڑدیا ۔
حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم سے بہترین نرم ولطف اندوز خطاب کیا اور انہیں خیر کی طرف بلایا ۔
قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَاٰتٰىنِيْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَّنْصُرُنِيْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَيْتُهٗ ۣ فَمَا تَزِيْدُوْنَنِيْ غَيْرَ تَخْسِيْرٍ 63 ( سورہ ہود )
صالح نے کہا : اے میری قوم ! ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے آئی ہوئی ایک روشن ہدایت پر قائم ہوں، اور اس نے مجھے خاص اپنے پاس سے ایک رحمت (یعنی نبوت) عطا فرمائی ہے، پھر بھی اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو کون ہے جو مجھے اللہ ( کیپکڑ) سے بچا لے ؟ لہذا تم (میرے فرائض سے روک رک) بربادی میں مبتلا کرنے کے سوا مجھے اور کیا دے رہے ہو؟
قوم نے آپ ؑ کو سحر زدہ قرار دیا اور کہاکہ اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی پیش کرو
مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ښ فَاْتِ بِاٰيَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ١٥٤ ( سورۃ الشعراء )
تمہاری حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ تم ہم جیسے ہی ایک انسان ہو۔ لہذا اگر سچے ہو تو کوئی نشانی لے کر آؤ۔
اور معجزے کا مطالبہ کردالا اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک معجزاتی اونٹ عطا فرمائی ۔ جس کے بارے میں حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم کو خبردار کیا:
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ١٥٥ۚ
صالح نے کہا : (لو) یہ اونٹنی ہے۔ پانی پینے کے لیے ایک باری اس کی ہوگی، اور ایک معین دن میں ایک باری تمہاری۔
وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ١٥٦
اور اس کو بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا، ورنہ ایک زبردست دن کا عذاب تمہیں آپکڑے گا۔
فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَ ١٥٧ۙ
پھر ہوا یہ کہ انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں، اور آخر کار پشیمان ہوئے۔
پھر جب عظیم الشان جسم وخلقت والی اونٹنی طاہر ہوئی تو حضرت صالح ؑ نے قوم سے کہا : یہ اللہ کی اونٹنی ہے اونٹنی کو اللہ کی طرف منسوب کرنا اس کی شرافت وعظمت اور اس کی نشانی کو بتانے کے لیے تھا ۔ حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا :
وَيٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَــةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ 64(سورۃ ہود)
اور اے میری قوم ! یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی بن کر آئی ہے۔ لہذا اس کو آزاد چھوڑ دو کہ یہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے، اور اس کو برے ارادے سے چھونا بھی نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں عنقریب آنے والا عذاب آپکڑے۔
کہاگیا کہ ا س اونٹنی کو زمین پر کھلا چھوڑدو زمین پر چرے اور پانی کے لیے ایک دن کے بعدآئے کیونکہ یہ جب پانی پینے آتی ہے تو اس دن سارے کنوئیں کا پانی پی جاتی ہے ۔اور لوگ اپنی حاجت دوسرے دن پوری کرتے ۔
حقیقت میں یہ قوم کی سرکشی اور منہ مانگے معجزے کی بناء پر ان کے لیے آزمائش تھی ۔
اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَةِ فِتْنَةً لَّهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ 27
ہم ان کے پاس ان کی آزمائش کے طور پر اونٹنی بھیج رہے ہیں، اس لیے تم انہیں دیکھتے رہو، اور صبر سے کام لو۔
وَنَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَاۗءَ قِسْمَةٌۢ بَيْنَهُمْ ۚ كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ 28 ( سورۃ القمر
اور ان کو بتا دو کہ (کنویں کا) پانی ان کے درمیان تقسیم کردیا گیا ہے۔ ہر پانی کا حق دار اپنی باری میں حاضر ہوگا
یہ اونٹنی ان کے لیے امتحان تھی کہ اب بھی ایمان لاتے ہیں یا نہیں؟َ
اللہ ان کے ہر فعل کا علم رکھتا ہے ۔ آپ پیغمبر انتظار کریں کہ اب کا کیا رد عمل ہوتاہے اور وہ جو آپ کو تکلیفیں پہنچائیں آپ ان پر صبر کریں ، جب یہ حالت ان پر طویل ہوگئی توقوم کے طالم سرداروں نے اونٹنی کو ذبح کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک رات ظالم سردار قیدار نے اونٹنی کو ذبح کرڈالا
سورۃ القمر میں ہے :
فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ 29
پھر انہوں نے اپنے آدمی کو بلایا، چنانچہ اس نے ہاتھ بڑھایا، اور (اونٹنی کو) قتل کر ڈالا۔
جب صالح ؑ کو پتا چلا تو انہوں نے اپنی قوم کو تین دن کی مہلت دی اور فرمایا تین دن خوب کھا پی لو۔ مگر ظالم لوگوں نے ہٹ دھرمی کرتے ہوئے حضرت صالح ع کو قتل کرنے کی ٹھان لی اور کہنے لگے
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ 49 ( سورۃُ النمل )
انہوں نے ( آپس میں ایک دوسرے سے) کہا : سب ملکر اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں پر رات کے وقت حملہ کریں گے، پھر اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم ان گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہ تھے۔ اور یقین جانو ہم بالکل سچے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 50 ( سورۃ النمل)
انہوں نے یہ چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال اس طرح چلی کہ ان کو پتہ بھی نہ لگ سکا۔
انہوں نے ایک چال چلی پھراللہ تعالیٰ نے خفیہ تدبیر کی جس کی انہیں خبر تک نہ ہوئی اور ان کا کیا انجام ہوا ۔
قوم ثمود پہ عذاب:
سید آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں فرامتے ہیں کہ ثمود پر عذاب آنے کی علامات اگلی صبح ہی سے شروع ہوگئی یعنی پہلے روز سب کے چہرے زرد پڑگئے جیسے خوف ، دوسرے روز سرخ اورتیسرے روزسیاہ ہوگئے جیسے تاریکی چھاجائے ۔ ( روح المعانی جلد 8 ص 145 ، 146 )
ان تین دنونں کے بعد رات کے وقت ایک ہیبت ناک آواز نے ہر شخص کو ہلاک کر ڈالا جس حالت میں وہ تھے اور ان کی بستیوں کو ایسا کرڈالا جیسے وی کبھی وہاں سے بسے ہی نہ ہوں ۔ان کے غرور کا انجام آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان ہے ۔
وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ 67 ( سورہ ہود )
اور جن لوگوں نے ظلم کا راستہ اپنایا تھا، ان کو ایک چنگھاڑ نے آپکڑا، (٣٨) جس کے نتیجے میں وہ اپنے گھروں میں اس طرح اوندھے پڑے رہ گئے۔
قوم ثمود پر یہ عذاب نازل ہوا اوردوسری طرف حضرت صالحؑ اورایمان لانے والے محفوظ رہے ۔حضرت صالح ؑ نے ہلاک شدگان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ 79 ( سورۃ الاعراف )
اس موقع پر صالح ان سے منہ موڑ کر چل دیے، اور کہنے لگے : اے میری قوم ! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور تمہاری خیر خواہی کی، مگر (افسوس کہ) تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے تھے۔
قوم کی ہلاکت کے بعد صالح ؑ کا قیام
قوم کی ہلاکت کے بعد وہ فلسطین میں آکر آباد ہوئے جو حجر کے قریب ہے ۔
مزارمبارک جزیرہ نمائے سینا کے مشرق کنارے پر وادی سیر میں نبی صالح کے نام سے آج بھی زیارت گاہ خلائق ہے ۔