حضرت سعیدبن زید رضی اللہ عنہ:دوسری قسط
تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
ایک راہب کی زبانی نبی کریم ﷺ سے متعلق پیشن گوئی
اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا،اس دوران رسول اللہﷺسے بھی ان کاتعارف اورمیل جول کاسلسلہ جاری رہا،تاہم اس وقت تک رسول اللہﷺکونبوت ورسالت سے سرفرازنہیں کیاگیاتھا۔ایک بارجب اسی سلسلے میں جستجواورتلاش کی غرض سے وہ ملکِ شام گئے ہوئے تھے ،تب وہاں اسی بارے میں کسی راہب کے ساتھ کچھ تبالۂ خیال کی نوبت آئی ،راہب نے ان کی گفتگوسننے اوران کے خیالات جاننے کے بعدکہا:’’اے مکہ والےتمہاری باتیں سننے کے بعدمیں اس نتیجے پرپہنچاہوں کہ جس دین کی تمہیں تلاش ہے ،وہ ’’دینِ ابراہیم‘‘ہے ۔تم اس کی تلاش میں سرگرداں ہو، لیکن اس دین کااب اس دنیامیں کوئی وجودباقی نہیں رہا‘‘ اورپھراس راہب نے مزیدکہا:’’ہاں البتہ تمہارے ہی شہرمکہ میں عنقریب ایک ایسی شخصیت کاظہورہونے والاہے جواللہ کے حکم سے اس ’’دینِ ابراہیم‘‘کی تجدیدکرے گا،لہٰذامیری نصیحت یہ ہے کہ تم جلدازجلدواپس مکہ روانہ ہوجاؤ‘‘۔
راہب کی زبانی یہ بات سننے کے بعد حضرت زیدکویوں محسوس ہواگویامتاعِ گمشدہ مل گئی ہو، اور گوہرِمقصودہاتھ آگیاہو،چنانچہ انہوں نے فوراًہی واپسی کی تیاری کی ،اورملکِ شام سے شہرمکہ کی جانب رواں دواں ہوگئے!اس سفرکے دوران راستے میں کسی ویران مقام پررہزنوں کے ایک گروہ نے ان کے قافلے پرحملہ کردیا،جس کے نتیجے میں ان کے ساتھیوں میں سے کوئی ماراگیا اورکوئی زخمی ہوا،حضرت زیدبھی بری طرح زخمی ہوئے ،اوران پرنزع کی کیفیت طاری ہونے لگی ،ایسے میں جب آخری سانسیں چل رہی تھیں ،حضرت زیدنے نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی، اپنے دونوں لرزرتے ہوئے ہاتھ فضاء میں بلندکئے،اورپھرکپکپاتے ہونٹوں سے یہ دعاء کی : اللّھُمّ اِن کُنتَ حَرَمْتَنِي مِن ھٰذَا الخَیر فَلَاتَحْرِم مِنہ ابنِي سَعِیداً ’’اے اللہ!میں تواس خیرسے محروم ہی رہ گیا،لیکن میرے بیٹے سعیدکواس خیرسے محروم نہ رکھنا‘‘ اوراس کے ساتھ ہی حضرت زیدنے آخری ہچکی لی اوردنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔
والد ماجد کی دعا کا اثر
حضرت زیدکے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعاء اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوئی، چنانچہ اس کے بعدمحض چندروزہی گذرے تھے کہ مکہ میں دینِ اسلام کاسورج طلوع ہوا،رسول اللہﷺنے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جب دنیاوالوں کواللہ کاپیغام پہنچانے اوردینِ برحق کی طرف دعوت دینے کامبارک سلسلہ شروع فرمایا،تب حضرت زیدکے بیٹے سعیداُن خوش نصیب ترین افرادمیں شامل تھے،جنہوں نے بہت جلداس دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کرلیاتھا۔
دراصل حضرت سعیدبن زیدکی تو آنکھ ہی اس گھرانے میں کھلی تھی جہاں مشرکینِ مکہ کے اس ماحول سے مکمل بیزاری وبے رغبتی پائی جاتی تھی،ان کی تربیت ایسے باپ کی زیرِنگرانی ہوئی تھی جوزندگی بھرتلاشِ حق میں سرگرداں رہاتھا،اورپھراسی حق کی جستجومیں ہی دورانِ سفراس نے اپنی جان دے دی تھی…
رسول اللہﷺکی دعوتِ حق پردل وجان سے لبیک کہتے ہوئے حضرت سعیدمحض تنہاہی مسلمان نہیں ہوئے تھے ،بلکہ ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ فاطمہ بنت خطاب بھی مسلمان ہوگئی تھیں،جوکہ حضرت عمربن خطاب ؓ کی بہن تھیں۔قبولِ اسلام کے بعدمشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کے سلسلے زوروشورکے ساتھ شروع ہوگئے،مشرکین ومخالفین نے سرتوڑکوشش کی کہ حضرت سعیدکسی طرح دینِ اسلام سے منحرف ہوجائیں،اوردوبارہ اپنے پرانے دین کواپنالیں،اس مقصدکیلئے ترغیب وترہیب سمیت تمام حربے آزمائے گئے،لیکن مشرکینِ مکہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے،بلکہ الٹایہ صورت ہوئی کہ ان دونوں میاں بیوی نے مشرکینِ مکہ سے ان کی ایک انتہائی اہم اوربااثرترین شخصیت کوچھین لیا،یعنی حضرت عمربن خطابؓ۔
ہوایوں کہ حضرت عمربن خطاب ؓ دینِ اسلام کے ابتدائی دورمیں جب مسلمانوں کے شدیددشمن تھے ،انہی دنوں جب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان کی اپنی بہن (فاطمہ بنت خطاب) اوربہنوئی (سعیدبن زید)مسلمان ہوچکے ہیں،تب وہ انتہائی غیظ وغضب کی کیفیت میں بہن کے گھرپہنچے،جہاں اس وقت حضرت خباب بن الأرت ؓ ان دونوں کوقرآن پڑھارہے تھے،حضرت عمربن خطابؓ کوآتادیکھ کر حضرت خبابؓ تو چھپ گئے ،البتہ حضرت عمربن خطابؓ نے اس موقع پربہن اور بہنوئی کے ساتھ بہت سختی ودرشتی کامعاملہ کیا،لیکن بالآخرجب انہوں نے وہاں قرآن کریم کی سورہ طہ کی آیات پڑھیں تو دیکھتے ہی دیکھتے حضرت عمربن خطابؓ کے دل کی دنیابدل گئی،اورپھراگلے ہی لمحے وہ دینِ اسلام قبول کرنے اورکلمۂ توحیدپڑھنے کی خاطررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے کوہِ صفاسے متصل ’’دارالأرقم‘‘کی جانب راونہ ہوگئے تھے۔
اورپھرصورتِ حال یہ ہوئی تھی کہ مشکلات سے بھرپور اس ابتدائی دورمیں حضرت عمربن خطاب ؓ کاقبولِ اسلام مسلمانوں کیلئے بڑی تقویت کاباعث بناتھا،جبکہ کفارومشرکین کے حوصلے پست ہوگئے تھے…اوربے اختیاروہ یوں کہنے لگے تھے کہ ’’آج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا‘‘۔
حضرت سعیدبن زیدؓ جب مسلمان ہوئے تب ان کی عمرمحض بیس برس تھی ، قبولِ اسلام کے بعدسے وہ ہمیشہ دینِ اسلام اورپیغمبرِاسلام کی خدمت،نیزدینِ برحق کی رفعت و سربلندی کیلئے ہرممکن کوشش کرتے رہے، اوراس راستے میں پیش آنے والے تمام ترمصائب وآلام کاخندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)