حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ :پہلی قسط
تحریر :حضرت مولونا خلیق احمد مفتی صاحب
رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی حضرت سعدبن ابی وقاصؓ بھی ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔آپ ؓ کاتعلق شہرمکہ میں قبیلۂ قریش کے مشہورخاندان ’’بنوزہرہ‘‘سے تھا،اسی خاندان سے رسول اللہﷺکی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب کابھی تعلق تھا، ان دونوں شخصیات (یعنی رسول اللہ ﷺ کی والدہ اورسعدبن ابی وقاص)میں قرابت داری کاتعلق بھی تھا۔
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ بھی بھلائی میں سب لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا،یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ،اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقون الأولون ‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔
شہرمکہ میں جب ’’نورِنبوت‘‘چمکااُن دنوں حضرت سعدمحض سولہ برس کے نوجوان تھے، اگرچہ ان کی زندگی کاوہ نوجوانی کادورتھا ،کہ جب مزاج میں عموماًبے فکری اورلااُبالی پن کاغلبہ ہواکرتاہے،غوروفکرکی طرف زیادہ رجحان نہیں ہوتا،لیکن اس کے باوجود حضرت سعداکثرغوروفکرمیں ڈوبے رہتے،مجموعی طورپروہ اپنی قوم کی عادات ،ان کے عقائد ونظریات ، نیزان کی اخلاقی ومعاشرتی کیفیات سے قطعاًمطمئن نہیں تھے۔
اسی دوران جب وہاں شہرمکہ میں کفروشرک اورمعصیت وضلالت کی تاریکیوں کے درمیان ’’نورِنبوت‘‘جمگانے لگا،تب بہت جلدہی اس نورکی کرنیں اس نوجوان کے دل کوبھی منورکرنے لگیں۔
ایک روز حضرت سعدنے خواب میں خودکواس کیفیت میں دیکھاکہ چہارسوبہت گہر ااندھیرا چھایا ہو ا ہے،اوراس اندھیرے میں وہ نہایت پریشانی کے عالَم میں بھٹکتے پھررہے ہیں، پھراچانک ایک روشنی نظرآئی،جسے دیکھ کریہ خوش ہونے لگے،جب یہ اُس روشنی کی طرف بڑھے توانہیں اس میں تین انسانی سائے دکھائی دئیے،مزیدقریب جاکرجب دیکھاتوانہوں نے انہیں پہچان لیا،وہ زیدبن حارثہ ، علی بن ابی طالب ، اورابوبکرصدیقؓ م اجمعین تھے۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ساتھ ان کے کافی خوشگوارمراسم تھے،چنانچہ اگلے ہی روزجب ان سے ملاقات ہوئی توانہوں نے اپناوہ خواب ان کے سامنے بیان کیا،جس پرحضرت ابوبکرصدیقؓ نے انہیں دینِ اسلام اورپیغمبرِاسلام کے بارے میں بہت کچھ بتایا،رسول اللہﷺکی بعثت کے بارے میں انہیں مطلع کیا،اوراس حقیقت سے بھی انہیں آگاہ کیاکہ ہم تین افرادجنہیں تم نے خواب میں اندھیرے کی بجائے روشنی میں دیکھاہے،ہم تینوں کفروشرک کے اندھیروں سے نکل کراب ’’ایمان‘‘کی روشنی میں آچکے ہیں۔
یہ رسول اللہﷺکی بعثت کا محض ساتواں دن تھا،حضرت ابوبکرصدیقؓ نے انہیں بھی قبولِ اسلام کی دعوت دی،تب انہیں اپناوہ خواب مزیدشدت کے ساتھ یادآنے لگا،اورپھرکسی ترددکے بغیریہ اپنے دوست ابوبکرصدیقؓ کی معیت میں رسول اللہ ﷺ کی طرف روانہ ہوگئے۔
اُس وقت رسول اللہﷺمکہ شہرکے مشہورمحلہ’’اجیاد‘‘میں ایک پہاڑی گھاٹی میں تشریف فرماتھے،یہ دونوں حضرات جب وہاں پہنچے توانہوں نے دیکھاکہ اُس وقت دونوجوان ،یعنی زیدبن حارثہؓ ،اورعلی بن ابی طالبؓ بھی وہیں آپﷺ کی خدمت میں موجود تھے۔چنانچہ حضرت سعدبن ابی وقاص نے اپنی آمدکامقصدبیان کیا،رسول اللہﷺکے سامنے کلمۂ حق پڑھتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا ۔
رسول اللہﷺنے اس نوجوان سعدبن ابی وقاص کے قبولِ اسلام پرانتہائی مسرت کااظہارفرمایا،آپ ﷺکواس نوجوان کی شخصیت میں شرافت ونجابت کے آثاربہت نمایاں نظرآرہے تھے،آپﷺکی دوررس نگاہیں حضرت سعدکے سراپامیں مستقبل کی ایک بہت ہی عظیم اورتاریخ سازشخصیت کامشاہدہ کررہی تھیں،آپﷺکومکمل یقین ہوچلا تھاکہ پہلی رات کایہ چھوٹاساچاند،بہت جلدچودہویں کے چاندکی مانندپوری آب وتاب کے ساتھ اُفق پرجگمگائے گا۔
اورآپﷺکواس بات کاعلم تھاکہ اس نوجوان کاآپﷺکی پیاری والدہ کے ساتھ کچھ رشتے داری کاتعلق بھی تھا،یوں گویا حضرت سعدآپﷺکیلئے ایک طرح ’’ماموں‘‘ کی حیثیت بھی رکھتے تھے،عمرمیں تواگرچہ یقینا حضرت سعدآپ ﷺسے کافی چھوٹے ہی تھے،لیکن بہرحال رشتے میں ’’ماموں‘‘تھے،اور’’ماموں‘‘توسب ہی کوبہت اچھے لگاکرتے ہیں،خصوصاًجبکہ ’’ماں‘‘کاانتقال بھی ہوچکاہو۔لہٰذارسول اللہﷺکوبھی اپنے ماموں’’حضرت سعد‘‘ بہت ہی اچھے لگتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ایک بار آپﷺ اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ کسی جگہ تشریف فرماتھے کہ دورسے حضرت سعدآتے ہوئے دکھائی دئیے،آپﷺ نے اپنے ان ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے بیساختہ یہ الفاظ کہے : ھٰذَا خَالِي فَلیُرِنِي امرُؤٌ خَالَہ،”یہ میرے ماموں چلے آرہے ہیں،ہے کوئی جواِن جیسااچھاماموں مجھے دکھاسکے‘‘مقصدیہ کہ میرے ماموں کی توبس شان ہی نرالی ہے،ہے کوئی جسے ایسااچھاماموں نصیب ہو؟؟
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کوبھی دین اسلام قبول کرنے پر بہت سی مشکلات کا سامناکرناپڑا،تاہم ان ’’بیرونی مشکلات‘‘اورقدم قدم پرمختلف انواع واقسام کی آزمائشوں کے علاوہ ان کیلئے مزیدایک بہت بڑی آزمائش خودان کے گھرکے اندرسامنے آکھڑی ہوئی۔وہ مشکل ترین اوراعصاب شکن قسم کی آزمائش یہ تھی کہ حضرت سعداپنے ماں باپ کے انتہائی لاڈلے اورچہیتے تھے،خصوصاً اپنی ماں کے ساتھ انہیں بہت زیادہ محبت تھی،لمحہ بھرکیلئے بھی انہیں ماں کی جدائی گوارانہیں تھی۔حضرت سعدکی ماں کوجب اپنے لاڈلے نورِنظرکے قبولِ اسلام کی خبرملی تووہ بہت زیادہ خفاہوگئی۔اپنے بیٹے کوبہت سمجھایاکہ ’’دیکھو!اپنے باپ داداکے دین سے منہ نہ موڑو،‘‘لیکن حضرت سعدپرکوئی اثرنہ ہوا،آخر ان کی والدہ نے کھاناپیناچھوڑدیا،روزبروزنقاہت بڑھتی گئی، اور صحت بگڑتی چلی گئی،حضرت سعدسے یہ منظردیکھانہیں جاتاتھا۔آخرایک روز ان کی والدہ نے انہیں اپنے قریب بٹھایا،پیارسے سرپرہاتھ پھیرا،اورپھرڈبڈباتی آنکھوں اورحسرت بھری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی: یَا بُنَيَّ ! لَتَدَعَنَّ دِینَکَ الجَدِیدَ ، أو لَا آکُل وَ لَا أشرَب حَتّیٰ أمُوت، فَیَتَفَطَّر فُؤادُکَ حُزناً عَليَّ ، وَیَأکُلُکَ النَدَمُ عَلَیٰ فِعلَتِکَ الّتِي فَعَلْتَ ، وَتُعَیِّرُکَ النَّاسُ بَھَا أبَدَ الدَّھرِ’’اے میرے بیٹے! تم اپنایہ نیادین چھوڑدو،ورنہ یادرکھناکہ میں ہرگزہرگزنہ کچھ کھاؤں گی نہ کچھ پیوں گی ،یہاں تک کہ اسی طرح میں موت کے منہ میں چلی جاؤں گی…تب میری اس طرح موت کے غم میں تمہارادل چھلنی ہوجائے گا،غم تمہیں کھاجا ئے گا،رہتی دنیاتک ہمیشہ ہمیشہ لوگ تمہیں طعنہ دیاکریں گے۔‘‘
یعنی لوگ تمہیں ہمیشہ اس بات کاطعنہ دیاکریں گے کہ تمہاری وجہ سے تمہاری ماں کااس قدرافسوسناک انجام ہوا،ان طعنوں سے تم کبھی اپنی جان نہیں چھڑاسکوگے،اس غم کی وجہ سے تمہارادل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا،اورتم زندگی بھرکیلئے ضمیرکے قیدی بن کررہ جاؤگے۔!
ظاہرہے کہ حضرت سعدکیلئے یہ بہت تکلیف دہ صورتِ حال تھی،ماں کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی،کئی دن گذرگئے،حضرت سعدباربارماں کی خوشامدکرتے،منت سماجت کرتےکہ ’’ماں کچھ کھالو،کچھ پی لو،‘‘مگرماں بھی اپنے فیصلے پرقائم رہی،اوریوں شب وروزگذرتے چلے گئے۔
آخرایک روزحضرت سعدنے اپنی ماں کومخاطب کرتے ہوئے پُرعزم اورفیصلہ کن اندازمیں یوں کہا: یَا أُمّاہ اِنِّي عَلَیٰ شَدِیدِ حُبِّي لَکِ لَأشَدُّ حُبّاً لِلّہِ وَرَسُولِہٖ ’’اے امی جان،بیشک مجھے آپ سے بہت شدیدمحبت ہے،مگراس سے بھی بڑھ کرمیرے دل میں اللہ اوررسول کیلئے محبت ہے۔‘‘
سعدکی ماں نے جب اپنے بیٹے کی زبانی یہ الفاظ سنے،اس کایہ عزم دیکھا،اوردوٹوک فیصلہ جان لیا،تب وہ سمجھ گئی کہ اس کالاڈلابیٹادینِ اسلام سے اب کبھی برگشتہ ہونے والانہیں،لہٰذااس نے اپنی ضدچھوڑدی اورمعمول کے مطابق کھاناپیناشروع کردیا۔بیشترمفسرین کے بقول اسی واقعے کی وجہ سے ہی قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں:
{وَوَصَّینَا الاِنسَانَ بَِوَالِدَیہِ حَمَلَتہُ أُمُّہ، وَھناً عَلَیٰ وَھنِ وَّفِصَالُہ، فِي عَامَینِ أنِ اشکُرلِي وَلِوَالِدَیکَ اِلَيَّ المَصِیرُ وَاِن جَاھَدَاکَ عَلَیٰ أَن تُشرِکَ بِيْ مَا لَیسَ لَکَ بِہٖ عِلمٌ فَلَاتُطِعھُمَا وَصَاحِبھُمَا فِي الدُّنیَا مَعرُوفاً وَاتّبِع سَبِیلَ مَن أَنَابَ اِلَيَّ ثُمَّ اِلَيَّ مَرجِعُکُم فَأُنَبِّؤُکِم بِمَا کُنتُم تَعْمَلُونَ} (لقمان :14۔15)
ترجمہ:(ہم نے انسان کواس کے ماں باپ کے متعلق یہ تاکیدکی ہے…[کیونکہ]اس کی ماں نے کمزوری پرکمزوری برداشت کرکے اسے پیٹ میں رکھا،اوردوسال میں اس کادودھ چھوٹتاہے…کہ تم میراشکراداکرواوراپنے ماں باپ کا،تم سب کو آخرمیری ہی طرف لوٹ کرآناہے۔اوراگروہ تم پریہ دباؤڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی کوشریک قراردوجس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں،توان کی بات نہ مانو،اوردنیامیں ان کے ساتھ بھلائی سے رہو،اورایسے شخص کاراستہ اپناؤجس نے میرے ساتھ لَولگارکھی ہو،پھرتم سب کومیرے ہی پاس لوٹ کرآناہے،اُس وقت میں تمہیں بتاؤں گاکہ تم کیاکرتے رہے ہو)۔
مقصدیہ کہ ان آیات میں اللہ سبحانہ، وتعالیٰ کی طرف سے انسان کواپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اوراطاعت وفرمانبرداری کی تاکیدکی گئی ہے،ہاں البتہ اگروہ اپنی اولاد کواللہ کے ساتھ شرک پرمجبورکریں (جیساکہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کے ساتھ صورتِ حال پیش آئی تھی) تب اس بارے میں ان کی اطاعت نہ کی جائے،مگراس کے باوجوددنیاوی زندگی میں ان کے ساتھ خوش اخلاقی اورخوش اسلوبی کامعاملہ ہی رکھا جائے، ان کی دل آزاری اوران کی شان میں گستاخی وبدسلوکی سے مکمل اجتناب کیاجائے(اگرچہ وہ مشرک ہوں،بلکہ اس سے بڑھ کریہ کہ اولادکوبھی اللہ کے ساتھ شرک پرمجبوربھی کرتے ہوں)۔
چنانچہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے اپنی ماں کی طرف سے دینِ اسلام سے دستبرداری وبیزاری کایہ مطالبہ توتسلیم نہیں کیا،البتہ وہاں مکی زندگی میں وہ مسلسل اپنے والدین کے ساتھ ہی رہے اورہرطرح ان کی خدمت اورخبرگیری کے فرائض بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔
حضرت سعدکاایک چھوٹابھائی جس کانام ’’عُمیر‘‘تھا، حضرت سعدکی کوششوں کے نتیجے میں وہ بھی مسلمان ہوگیاتھا،اوریہ بات حضرت سعدکیلئے بہت ہی مسرت اورحوصلہ افزائی کاسبب بنی تھی۔
دینِ اسلام کے ابتدائی دورمیں وہاں مکہ شہرمیں اسی طرح شب وروزکایہ سفرجاری رہا ، آزمائشوں کے سلسلے بھی چلتے رہے،آخراسی کیفیت میں نبوت کے تیرہویں سال جب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہواتب حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے ایک روز اپنا آبائی وطن چھوڑا،اپنے آبائی شہرمکہ کوخیربادکہا،اپنے عزیزواحباب اورسب سے بڑھ کریہ کہ انتہائی محبت کرنے والے وہ ماں باپ کو بھی اللہ کی خاطر چھوڑدیا،اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی محبت کے مقابلے میں ان تمام محبتوں کوقربان کردیا، اورمحض اپنے کم سن چھوٹے بھائی عُمیرکاہاتھ تھامے ہوئے مکہ شہرسے روانہ ہوگئے،مسلسل سفر کرتے ہوئے یہ دونوں بھائی مدینہ منورہ جاپہنچے،جہاںایک نئی صبح کاسورج طلوع ہوا اوریوں ایک نئی زندگی کاآغازہوا۔
ہجرتِ مدینہ کے بعددوسرے سال ہی مشرکینِ مکہ مسلمانوں کونیست ونابودکردینے کی حسرت دل میں لئے ہوئے جب مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے،یہ اطلاع ملنے پرمسلمان بھی مدینہ سے روانہ ہوئے ’’بدر‘‘کے مقام پرمسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین اولین معرکہ پیش آیا،اس موقع پردیگرتمام اہلِ ایمان کی طرح حضرت سعدبن ابی وقاصؓ بھی اپنے چھوٹے بھائی عمیرکا ہاتھ تھامے ہوئے مدینہ سے بدرپہنچے،اُس روزدونوں ہی کاجذبہ قابلِ دیدتھا،لیکن جنگ کے آغازسے قبل ان سربکف مجاہدین کی صفیں مرتب کرتے وقت رسول اللہﷺکی نظرجب عمیرپرپڑی توآپﷺ نے اس کی کم سنی کے باعث اسے واپس لوٹ جانے کوکہا،تب حضرت عمیرنے روناشروع کردیا،یہ کیفیت دیکھ کرآخرآپﷺ نے اسے واپس بلالیااوراس کی کم سنی کے باوجوداس تاریخی غزوے میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمادی ۔
معمولی جھڑپوں کے بعدآخرجب عام یلغارہوئی ، توجذبۂ سرفروشی سے سرشاریہ دونوں بھائی بڑی ہی بے جگری سے لڑے،اورخوب ثابت قدمی وبہادری کامظاہرہ کیا۔ اورپھرجنگ کے اختتام پرجب بدرکے میدان سے مدینہ کی طرف واپسی کامرحلہ آیاتواب اس مرحلے پرسعداکیلے تھے، کم سن عمیرکواس اولین غزوے میں اللہ کے حبیبﷺکے جھنڈے تلے لڑتے ہوئے شہادت کاعظیم رُتبہ نصیب ہواتھا۔چھوٹے بھائی کوبدرکے میدان میں ہی سپردِخاک کرتے ہوئے ،اللہ ارحم الراحمین کے حوالے کیا،اورپھراس کی یادوں کاطوفان دل میں چھپائے ہوئے ،جدائی کادردآنکھوں میں سجائے ہوئے ، بوجھل قدموں کے ساتھ وہاں سے چل دئیے،اورپھراسی کیفیت میں سعدواپس مدینہ پہنچے،جبکہ چھوٹابھائی عمیرہمیشہ کیلئے بس وہیں ’’بدر‘‘میں ہی رہ گیا۔
مشرکینِ مکہ کوبدرکے میدان میں مسلمانوں کے ہاتھوں جس بدترین شکست وپسپائی اورذلت ورسوائی کاسامناکرناپڑاتھا،اس پرمسلمانوں سے اپنی اس شکست کاانتقام لینے کی غرض سے اگلے ہی سال (سن تین ہجری میں) وہ دوبارہ چلے آئے،چنانچہ مدینہ شہرسے متصل مشہورومعروف’’اُحد‘‘نامی پہاڑکے دامن میں مسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین یہ دوسری جنگ لڑی گئی۔
ابتداء میں مسلمان یہ جنگ تقریباًجیت ہی چکے تھے،لیکن پھراپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے ان کی یہ فتح شکست میں تبدیل ہوگئی،تب مسلمان اپنی صفوں میں نظم وضبط برقرارنہ رکھ سکے،باہم رابطہ بھی منقطع ہوگیا،لشکرمیں ہرطرف بدنظمی اورافراتفری پھیل گئی،اوریوں مسلمانوں کوبڑی ہی پریشان کن صورتِ حال سے دوچارہوناپڑا۔اس افراتفری کے ماحول میں کہ جب سب ہی بکھرچکے تھے، انتشارکی کیفیت طاری تھی،ایسے میں مٹھی بھرچندافرادجوبدستوررسول اللہﷺ کے گردگھیراڈالے ہوئے بڑی ہی بے جگری کے ساتھ دشمنوں کامقابلہ کررہے تھے،ان میں حضرت سعدبن ابی وقاصؓ بھی شامل تھے۔
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کویہ یادگاراورعظیم ترین شرف بھی حاصل ہے کہ دینِ اسلام کے ظہورکے بعداللہ کی راہ میں تیرچلانے والے یہ پہلے انسان تھے،تیراندازی میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی، ان کانشانہ کبھی چوکتانہیں تھا، اُس روزرسول اللہ ﷺکی حفاظت ودفاع کامقدس فریضہ سرانجام دیتے ہوئے حضرت سعدؓنے بہت زیادہ تیرچلائے، مسلسل تیراندازی کی وجہ سے اُس روزکتنی ہی کمانیں ان کے ہاتھوں میں ٹوٹیں،ان کاچلایاہوا ہرتیرنشانے پرلگتا، اورہرتیرکے ساتھ ہی کوئی نہ کوئی مشرک ڈھیرہوجاتا،اُس روزایک موقع پررسول اللہﷺنےحضرت سعدکومخاطب کرتے ہوئے یہ یادگارالفاظ ارشادفرمائے تھے: اِرمِ یَا سَعْدفِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي ’’اے سعد!یونہی تیرچلاتے رہو،میرے ماں باپ تم پرقربان۔‘‘
رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ سعدبن ابی قاصؓ کی یادداشت میں ہمیشہ کیلئے پیوست ہوکررہ گئے،آخری سانس تک یہ الفاظ سعدکے کانوں میں گونجتے رہے، اوران الفاظ کویادکرکے حضرت سعدفرطِ مسرت سے ہمیشہ جھوم جھوم اٹھتے تھے۔
اسی بارے میں حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں: مَا جَمَعَ رَسُولُ اللّہِﷺ أبَاہُ وَ أُمَّہ، اِلّا لِسَعْد ، قَالَ لَہ، یَومَ أُحُد : ((اِرمِ فِدَاکَ أبِي وَأُمِّي))۔’’رسول اللہﷺنے کبھی کسی کویہ الفاظ نہیں کہے کہ ’’میرے ماں باپ تم پرقربان‘‘سوائے سعدکے ، آپﷺ نے انہیں اُحدکے موقع پریہ الفاظ کہے‘‘۔(مشکوۃ )
اسی موقع پررسول اللہﷺنے حضرت سعدؓ کےلئے یہ دعاء بھی فرمائی تھی کہ : اَللّھُمّ سَدِّدْ رَمیَتَہ، وَ أَجِبْ دَعْوَتَہ، (مشکوۃ )’’اے اللہ!توسعدکے تیرکونشانے پرلگا، اوراس کی دعاء کوقبول فرما‘‘ ۔چنانچہ آپؐ کی اسی دعاء کایہ اثرتھاکہ سعدؓ انتہائی ماہرنشانے بازہونے کے علاوہ ’’مستجاب الدعوات‘‘بھی تھے۔
’’غزوۂ بدر‘‘اور’’غزوۂ اُحد‘‘کے بعد بھی حضرت سعدبن ابی وقاصؓ ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پررسول اللہﷺکی زیرِقیادت شریک رہے اورشجاعت وبہادری کے بے مثال جوہرخوب خوب دکھاتے رہے۔اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا، حتیٰ کہ ہجرت کے دسویں سال’’حجۃ الوداع‘‘کے تاریخی موقع پرجب حضرت سعدبن ابی وقاصؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ موجودتھے،تب وہاں مناسکِ حج سے فراغت کے بعدمدینہ کی جانب واپسی سے قبل ہی بیمارپڑگئے، رفتہ رفتہ ان کی بیماری کافی شدت اختیارکرگئی،یہاں تک کہ انہیں اس بات کااندیشہ ہونے لگاکہ کہیں مکہ میں ہی میری موت واقع نہ ہوجائے،چونکہ تمام اہلِ ایمان کیلئے یہ حکم تھاکہ وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرجائیں،اوریہ حکم ظاہرہے کہ فتحِ مکہ سے قبل کے زمانے میں تھاکہ جب مکہ دارالحرب تھا،جبکہ سن آٹھ ہجری میں فتحِ مکہ کا یادگارواوقعہ پیش آنے کے بعدیہ حکم باقی نہیں رہاتھا،لیکن حضرت سعدؓ کوبہرحال یہ فکرلاحق ہوئی کہ کہیں مدینہ کیلئے واپسی سے قبل ہی یہیں مکہ میں ہی میری موت واقع نہ ہوجائے،گویاان کے نزدیک یہ ناپسندیدہ چیزتھی۔چنانچہ انہی دنوں ان کے شدتِ مرض کے زمانے میں وہاں مکہ میں ہی رسول اللہﷺایک روزجب خودان کی عیادت کیلئے تشریف لائے ،تب درجِ ذیل صورتِ حال پیش آئی جوسعدؓ نے خوداپنی زبانی بیان کی ہے:
جَائَ نِي رَسُولُ اللّہِﷺ یَعُودُنِي عَامَ حَجَّۃِ الوَدَاعِ مِن وَجَعٍ اِشتَدَّ بِي، فَقُلتُ: یَا رَسُولَ اللّہ! اِنِّي قَد بَلَغَ بِي مِنَ الوجَعِ مَا تَرَیٰ ، وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلَایَرِثُنِي اِلّاابنَۃٌ لِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَي مَالِي؟ قَالَ: لَا ۔ قُلتُ : فَالشّطرُ یَا رَسُولَ اللّہ؟ فَقَالَ: لَا ۔ قُلتُ : فَالثُلُثُ یَا رَسُولَ اللّہ؟ قَالَ: الثُلُثُ کَثِیر ، اِنَّکَ اِن تَذَر وَرَثَتَکَ أَغْنِیَائَ خَیرٌ مِن أَن تَذَرَھُم عَالَۃً یَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ ، وَاِنَّکَ لَن تُنفِق نَفَقَۃً تَبتَغِي بَھَا وَجہَ اللّہِ اِلّا أُجِرتَ عَلَیھَا ، حَتّیٰ مَا تَجعَلُ فِي فِيِّ امرَأَتِکَ ، قَال: فَقُلتُ : یَا رَسُولَ اللّہ! أُخَلّفُ بَعدَ أصْحَابِي؟ قَال: اِنَّکَ لَن تُخَلَّف فَتَعمَلَ عَمَلاً تَبتَغِي بِہٖ وَجہَ اللّہِ اِلّاازدَدتَ بِہٖ دَرَجَۃً وَرِفعَۃً ، وَلَعَلّکَ أن تُخَلَّف ، حَتّیٰ یَنتَفِعَ بِکَ أقوَامٌ ، وَیُضَرُّ بِکَ آخَرُونَ، اللّھُمّ أَمضِ لَأصْحَابِي ھِجرَتَھُم ، وَلَاتَرُدَّھُم عَلَیٰ أعقَابِھِم، لٰکِنَّ البَائِس سَعدُ بن خَولَۃ ، یَرثِي لَہ، رَسُولُ اللّہِﷺ أَن مَاتَ بِمَکَّۃ) (بخاری)
ترجمہ:(حضرت سعدبن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں): ’’حجۃ الوداع کے سال جب میں شدیدبیمارہوگیاتھا ،تب رسول اللہﷺمیری عیادت کیلئے تشریف لائے،اُس موقع پرمیں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول!اس دردکی وجہ سے میری جوحالت ہوچکی ہے وہ توآپ کے سامنے ہی ہے…اورمیں صاحبِ مال ہوں،جبکہ میری اکلوتی بیٹی کے سوااورکوئی میراوارث نہیں ہے،لہٰذاکیامیں اپنادوتہائی مال[یعنی تین میں سے دوحصے]اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں؟آپﷺ نے فرمایا’’نہیں‘‘تب میں نے عرض کیا:’’اے اللہ کے رسول آدھامال …؟آپﷺ نے فرمایا’’نہیں‘‘تب میں نے عرض کیا:’’اے اللہ کے رسول ایک تہائی مال [یعنی تین میں سے ایک حصہ]؟ آپﷺ نے فرمایا’’ایک تہائی بہت کافی ہے‘‘(پھرآپﷺ نے مزیدفرمایا): اگرتم اپنے وارثوں کوخوشحال چھوڑکرجاؤتویہ بہت بہترہے بنسبت اس کے کہ تم انہیں مفلس وکنگال چھوڑکرجاؤکہ وہ لوگوں پربوجھ بنے رہیں اوران کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں،تم جب بھی اللہ کی خوشنودی کی خاطر جوکچھ بھی خرچ کرتے ہو ، حتیٰ کہ جولقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو ، اس پرتمہیں اللہ کی طرف سے اجروثواب عطاء کیاجائے گا۔حضرت سعد کہتے ہیں کہ ’’میں نے آپﷺ سے دریافت کیا’’کیامیں اپنے ساتھیوں کے بعدتنہا(یہاں مکہ میں ہی )رہ جاؤں گا؟ آپﷺ نے فرمایا’’تم اگراپنے ساتھیوں کے بعدتنہارہ بھی گئے (تب بھی تمہارے لئے بہتری ہی ہے کیونکہ) جب بھی تم محض اللہ کی رضاکی خاطر جوبھی عمل انجام دوگے ،اُس سے تمہارے درجات میں زیادتی اوربلندی ہی ہوگی،نیزشایدتمہیں (اللہ کی طرف سے اس دنیا میں) مزیدزندگی عطاء کی جائے، تب کچھ لوگوں(یعنی اہلِ حق)کوتم سے فائدہ پہنچے گا جبکہ دوسرے کچھ لوگوں(یعنی اہلِ باطل)کوتم سے نقصان پہنچے گا۔پھرآپﷺ نے دعاء فرمائی:یااللہ!تومیرے اصحاب کی ہجرت کوجاری(یعنی پورا)فرمادے،اورانہیں ان کی ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹانا،ہاں البتہ قابلِ رحم توسعدبن خولہ ہیں،اُن کیلئے رسول اللہﷺ دعائے رحمت فرمایاکرتے تھے کیونکہ وہ مکہ میں ہی فوت ہوگئے تھے‘‘(یعنی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت نہیں کرسکے تھے)۔
اس حدیث سے درجِ ذیل فوائدسمجھ میں آتے ہیں:
(۱)رسول اللہﷺکاحسنِ اخلاق اوراپنے اصحاب کی عیادت،مزیدیہ کہ اس مقصدکیلئے آپ ﷺکاخودچل کرجانا۔
(۲)مریض کی عیادت کی فضیلت۔
(۳)زندگی کے ہرشعبے میں ، حتیٰ کہ صدقہ وخیرات اورانفاق فی سبیل اللہ جیسے مقدس ترین کام میں بھی ’’اعتدال‘‘کوملحوظ رکھنا۔
(۴)وارثوں کے حق کی اہمیت ، نیزان کیلئے فکراورجستجو ،اورانہیں دوسروں کی محتاجی ومفلسی سے بچانے کی ضرورت،نیزوارثوں کے حق کی حفاظت کی غرض سے ’’ثُلُث‘‘ یعنی محض ایک تہائی مال صدقہ یاوقف کرنے پراکتفاء،اوراس سے زیادہ صدقہ کرنے کی ممانعت۔
(۵)اہلِ علم سے مشاور ت کی ضرورت واہمیت ، جس طرح حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے اپنامال صدقہ کرنے کے بارے میں رسول اللہﷺسے مشورہ کیااور آپﷺ کی رائے معلوم کی۔
(۶)مریض کے سامنے ایسی گفتگو کی جائے جواس کیلئے ہمت وتقویت ، تسلی ، اورحوصلہ افزائی کاسبب بنے،اس پرخوشگوارنفسیاتی اثرات مرتب ہوں، امیدمضبوط ہو اورمایوسی وناامیدی کاخاتمہ ہو، جیساکہ اس موقع پرسعدبن ابی وقاصؓ کو موت کااندیشہ لاحق تھا،جبکہ رسول اللہﷺنے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ایسی باتیں ارشادفرمائیں جن سے ان کے دل میں یہ امیدپیدا ہونے لگی کہ میں توابھی شایدکافی عرصہ مزیدزندہ رہوں گا،یہاں تک کہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ شایدتمہیں (اللہ کی طرف سے اس دنیامیں)مزیدزندگی گذارنے کاموقع دیاجائے،تب کچھ لوگوں(یعنی اہلِ حق) کوتمہارے ذریعے بڑافائدہ ، جبکہ دیگرکچھ لوگوں(یعنی اہلِ باطل) کو تمہارے ذریعے نقصان پہنچے گا‘‘۔
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے آپﷺسے جب یہ دریافت کیاتھاکہ ’’میری محض ایک ہی بیٹی ہے،لہٰذاکیامیں اپنادوتہائی مال اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں؟‘‘اس کے جواب میں آپﷺ نے ’’مفرد‘‘کے بجائے’’جمع‘‘کے صیغے کے ساتھ یہ ارشادفرمایاکہ’’اگرتم اپنے ’’وارثوں‘‘کوخوشحال چھوڑکرجاؤ‘‘یعنی یہ بھی ایک طرح حوصلہ افزائی تھی کہ فی الحال تومحض ایک ہی وارث ہے ،لیکن آئندہ مزیدوارث بھی ہوسکتے ہیں،یعنی اس مرض کے بعدان شاء اللہ دوبارہ صحت وتندرستی ،مزیدآل و اولاد،اورطویل زندگی نصیب ہوگی،جوکہ کارناموں سے بھرپوربھی ہوگی،کہ اہلِ حق کو حضرت سعدؓ کے وجودسے بڑافائدہ جبکہ اہلِ باطل کوبڑانقصان پہنچے گا!
اورپھرایساہی ہوا،بہت سی آل واولاد،بہت سے وارث،طویل زندگی ،حتیٰ کہ تمام مہاجرین میں سے سب سے آخرمیں وفات پائی ،تاریخی کارنامے اورعظیم فتوحات نصیب ہوئی ۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)