حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ :دوسری قسط
تحریر :حضرت مولونا خلیق احمد مفتی صاحب
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ عہدِنبوی کے بعد
رسول اللہﷺکامبارک دورگذرجانے کے بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دورمیں بھی حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کووہی بلندترین مقام ومرتبہ حاصل رہااوراس معاشرے میں ان کی وہی قدرومنزلت برقراررہی،خلیفۂ اول کے مشیرِ خاص اورانتہائی قریبی دوست کی حیثیت سے انہیں دیکھاجاتارہا،ظاہرہے کہ ان دونوں جلیل القدرشخصیات میں بہت قدیم تعلق تھااورپرانی شناسائی اوردوستی تھی،حتیٰ کہ مکہ شہرمیں دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دورمیں خودحضرت ابوبکرصدیقؓ کی طرف سے دعوت کے نتیجے میں ہی توسعدرضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تھے،جب ان کی عمرمحض سولہ برس تھی…
خلیفۂ اول کے انتقال کے بعدجب حضرت عمربن خطابؓ نے خلیفۂ دوم کی حیثیت سے منصبِ خلافت سنبھالا،تب کچھ ایسے حالات پیداہوتے چلے گئے جن سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خالقِ ارض وسماء نے سعدؓکے نصیب میں بہت زیادہ عظمت ورِفعت لکھی ہوئی ہے،اوریہ کہ سن دس ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پررسول اللہﷺنے انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہ جویادگارالفاظ ارشادفرمائے تھے: وَلَعَلّکَ أن تُخَلَّف ، حَتّیٰ یَنتَفِعَ بِکَ أقوَامٌ ، وَیُضَرُّ بِکَ آخَرُونَ، ’’اے سعد!شایدتمہیں (اللہ کی طرف سے اس دنیامیں)مزیدزندگی عطاء کی جائے،تب کچھ لوگوں(یعنی اہلِ حق)کوتم سے فائدہ ،جبکہ دوسرے کچھ لوگوں(یعنی اہلِ باطل)کوتم سے نقصان پہنچے گا۔ ‘‘ شایدآپﷺ کی اس پیشین گوئی کی تکمیل کاوقت اب آچکاتھا۔
اس بات کاپس منظرکچھ اس طرح ہے کہ اُس دورمیں روئے زمین پردوعظیم ترین قوتیں تھیں، سلطنتِ روم اورسلطنتِ فارس،ان دونوں میں سے سلطنتِ روم کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مسلسل جارحیت کے نتیجے میں خودرسول اللہﷺکے دورمیں ہی غزوۂ مؤتہ اورپھرتاریخی غزوۂ تبوک کی نوبت آئی تھی،نیزآپﷺ نے آخری ایام میں حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہماکی سپہ سالاری میں رومیوں کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی کی غرض سے ایک لشکرکی روانگی کاحکم دیاتھا،جوکہ آپﷺ کی رحلت کے فوری بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کے منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعداپنی منزلِ مقصودکی جانب روانہ ہوگیاتھا،اورپھرخلیفۂ اول کے دورمیں رومیوں کے خلاف یہ سلسلہ جاری رہا،متعددچھوٹی بڑی جنگوں کی نوبت آتی رہی۔
پھرخلیفۂ دوم حضرت عمربن خطابؓ کے دورمیں یہ سلسلہ مزیدتقویت پکڑگیا،حتیٰ کہ اُس دورمیں سن تیرہ ہجری میں مشہورومعروف تاریخی ’’جنگِ یرموک‘‘ اور پھرسن پندرہ ہجری میں ’’فتحِ دمشق‘‘اوراس کے فوری بعد’’فتحِ بیت المقدس‘‘کے یادگار اور اہم ترین واقعات پیش آئے۔
دوسری طرف روئے زمین کی دوسری بڑی قوت یعنی ’’سلطنتِ فارس‘‘کی طرف سے بھی مسلمانوں کے خلاف وقتاًفوقتاًمختلف مقامات پرجارحیت اوراشتعال انگیزیوں کاسلسلہ جاری تھا،جس کے نتیجے میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنے مایۂ نازسپہ سالارسیف اللہ خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کوسن گیارہ ہجری میں یمامہ کے علاقے میں مسیلمہ کذاب کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پربرپاکردہ شورش کی نہایت کامیابی کے ساتھ مکمل سرکوبی کے بعد ،اب انہیں سلطنتِ فارس کی طرف روانگی کاحکم دیاتھا،اورتب وہ اس حکم کی تعمیل میں فارس پہنچے تھے،اوروہاں مختلف علاقوں میں نہایت کامیابی کے ساتھ پیش قدمی کرتے چلے گئے تھے،اورپھرسن تیرہ ہجری میں حضرت ابوبکرؓ نے انہیں فارس کی بجائے اب سلطنتِ روم کے خلاف برسرِپیکاراسلامی لشکرکی سپہ سالاری کے فرائض سنبھالنے کی غرض سے ملکِ شام کی طرف کوچ کرجانے کی ہدایت کی تھی۔
الغرض سلطنتِ فارس کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جارحیت کے اس سلسلے کی روک تھام کی غرض سے کئے جانے والے مختلف اقدامات کے باوجوداہلِ فارس وقتاًفوقتاً مسلمانوں کونقصان پہچاتے رہتے تھے،اورخلیفۂ اول کے دورمیں یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔
پھر خلیفۂ دوم کے دورِخلافت میں جب اہلِ فارس نے یہ منظردیکھاکہ یہ مٹھی بھرمسلمان کس قدرتیزرفتاری کے ساتھ سلطنتِ روم کے ماتحت علاقوں (اردن ، فلسطین ،شام ، لبنان ،وغیرہ)میں رومیوں کی عظیم الشان قوت کوروندتے ہوئے مسلسل آندھی اورطوفان کی مانندپیش قدمی کرتے چلے جارہے ہیں،تب ’’سلطنتِ فارس‘‘کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی،اورانہیں اب یہ پریشانی ستانے لگی کہ کہیں ان مسلمانوں کے ہاتھوں ہمارا بھی یہی انجام نہ ہو،لہٰذااب انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنی جارحیت اوراشتعال انگیزیوں کے سلسلے مزید تیزترکردئیے،اورپھریہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی رہا،حتیٰ کہ اسی سلسلے میں ایک ایساواقعہ پیش آیاجس کے نتیجے میں مسلمانوں کوبہت بڑانقصان اٹھاناپڑا، چارہزارسپاہی شہیدہوگئے، جن میں سے سترصحابۂ کرام تھے۔ جب یہ افسوسناک خبرمدینہ پہنچی تواب خلیفۂ وقت حضرت عمربن الخطابؓ کے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا،اتنابڑانقصان،ایک ہی دن میں چارہزارسپاہیوں کی شہادت ؟اگرچہ عین ایسے وقت میں کہ جب مسلمان سلطنتِ روم کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر برسرِپیکارتھے،ایسے میں اب دوسری بڑی قوت یعنی سلطنتِ فارس کے خلاف محاذآرائی میں مزیداضافہ،بظاہرکوئی دانشمندی نہیں تھی،اوراس میں بڑے خطرات پوشیدہ تھے…لیکن اس کے باوجودفارسیوں کی طرف سے اب مسلمانوں کے خلاف ظلم وزیادتی کا اوراتنی بڑی جارحیت کایہ افسوسناک واقعہ جوپیش آیا،اس کے نتیجے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بیک وقت ’’سلطنتِ روم ‘‘کے ساتھ ساتھ ’’سلطنتِ فارس‘‘سے بھی فیصلہ کن ٹکرلینے کاخطرناک اوریادگارفیصلہ کرہی لیا۔
اس موقع پرحضرت عمربن خطابؓ نے سلطنتِ فارس کی جانب روانہ کرنے کی غرض سے ایک نیالشکرتیارکیا،اورخوداس کی قیادت کرتے ہوئے مدینہ سے فارس کی جانب روانگی کافیصلہ کیا۔
مدینہ میں موجوداکابرصحابہ کوجب حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ وہ خوداس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے مدینہ سے جاناچاہتے ہیں،تب وہ سب بڑی تشویش میں مبتلاہوگئے،ان میں سے متعددحضرات نے حضرت عمرؓسے ملاقات کی ،اورانہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ’’آپ کاخودمدینہ سے اس قدردورسلطنتِ فارس کے خلاف جنگ کی غرض سے جاناکسی صورت مناسب نہیں ہے‘‘۔
لیکن حضرت عمرؓ نے کسی کی بات نہیں سنی اوراپنے فیصلے پرقائم رہے،بلکہ مزیدیہ کہ اس چیزکاباقاعدہ اعلان کرتے ہوئے حضرت علی بن ابی طالبؓ کواپنی اس غیرموجودگی کے دوران مدینہ میں اپنانائب بھی مقررکردیا۔
دوسری جانب حضرات اکابرصحابہ بدستوراپنی اسی رائے پرقائم رہے، اوربڑی تشویش میں مبتلارہے ،اس بارے میں ان میں باہمی صلاح مشورے کاسلسلہ چلتارہا،اورانہوں نے یہ طے کیاکہ ہم امیرالمؤمنین (عمربن خطابؓ )کوکسی صورت اتنی دورنہیں جانے دیں گے،آخرانہوں نے طے کیاکہ حضرت عمرؓ کوقائل کرنے کیلئے کوئی ایساشخص تلاش کیاجائے جس کی بات کووہ ردنہ کرسکیں،اورپھرباہم غوروفکرکے بعدان تمام اکابرصحابۂ کرام نے سوچاکہ یہ کام عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے ذمے لگایاجائے، ان کی بات کوحضرت عمرؓردنہیں کریں گے۔چنانچہ یہ کام عبدالرحمن بن عوفؓ کے ذمے لگایا گیا،جس پرانہوں نے حضرت عمرؓ سے اس بارے میں بات کی اورتمام اکابرصحابہ کے موقف کی شدیدتائیدکرتے ہوئے وہی مطالبہ دہرایاکہ آپ خوداس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے دارالخلافہ (مدینہ منورہ)سے اتنی دورکسی صورت نہیں جائیں گے‘‘۔
حضرت عمربن خطابؓ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی بات کونہ ٹال سکے،اوران کامشورہ منظورکرتے ہوئے اپنافیصلہ تبدیل کرلیا،البتہ شرط یہ رکھی کہ’’ مجھے اس مقصدکیلئے کوئی مناسب ترین شخص مہیاکیاجائے،جویہ کام عین میری مرضی کے مطابق انجام دے سکے…‘‘۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے جب تمام اکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کواس صورتِ حال سے مطلع کیا،تووہ سب خوش بھی ہوئے کہ حضرت عمرؓ نے اپنافیصلہ تبدیل کرلیاہے، لیکن ساتھ ہی اب وہ سب اس نئی پریشانی کاشکارہوگئے، کہ کوئی مناسب آدمی تلاش کیاجائے، ظاہرہے کہ یہ بہت ہی بڑی ذمہ داری تھی،اورانتہائی خطرناک کام تھا،سلطنتِ فارس کے خلاف باقاعدہ بڑی جنگ کی غرض سے روانہ ہونے والے اس اولین لشکرکی سپہ سالاری،اس مقصدکیلئے بے انتہاء جرأت وشجاعت ، استقامت ، تجربہ ، فنونِ حرب میں بے مثال مہارت ، صلاحیت ، بہت بڑی ہمت ،نیزبہت بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔مزیدپریشانی یہ کہ اس مقصدکیلئے اگرکوئی خودکوپیش کرے یاکسی دوسرے کانام تجویزکرے،بہرصورت اگرخدانخواستہ لشکرکووہاں پہنچنے کے بعدناکامی وہزیمت کاسامنا کرناپڑا،یااورکوئی بھی مصیبت کھڑی ہوگئی، توذمے دارکون ہوگا؟؟یہی وجہ تھی کہ مدینہ میں تمام اکابرصحابہ اب انتہائی شش وپنج کی کیفیت میں پھنس کررہ گئے تھے۔دوچارروزاسی کیفیت میں گذرگئے ،کسی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا،حضرت عمرؓ انتظارہی کرتے رہے،آخرایک روزانہوں نے اکابرصحابۂ کرام کومخاطب کرتے ہوئے خودہی فرمایا’’میں نے وہ مناسب ترین شخص تلاش کرلیاہے،آپ سب دیکھتے رہئے گاکہ وہ شخص عنقریب اللہ کے دشمنوں پرشیرکی مانندجھپٹے گا‘‘
حضرت عمرؓ کی زبانی یہ بات سننے کے بعدتمام شہرمدینہ میں تجسس پھیل گیاکہ وہ کون شخص ہے؟اوراسی کیفیت میں چندروزمزیدگذرگئے،اس دوران نہ کسی نام کا اعلان ہوا، نہ ہی لشکرروانہ ہوا، ایک روزحضرت عمرؓ نے تجسس کی اس کیفیت کومحسوس کرتے ہوئے فرمایا’’ میں نے اس عظیم مقصدکیلئے جس شخص کومنتخب کیاہے ،وہ اتفاقاًاس وقت مدینہ میں نہیں ہے،بلکہ طائف گیاہواہے،میں نے اسے وہاں سے جلدواپسی کیلئے پیغام بھجوایاہے‘‘۔
لوگوں نے اصرارکیاکہ’’اے امیرالمؤمنین!اس عظیم شخص کانام توبتادیجئے‘‘اس پرحضرت عمرؓنے جواب دیاکہ’’اس شخص کانام ہے’’سعدبن ابی وقاص‘‘۔
چنانچہ حضرت عمربن خطابؓ کی طرف سے پیغام موصول ہونے کے بعدجلدہی حضرت سعدبن ابی وقاصؓ طائف سے سفرکرتے ہوئے مدینہ پہنچے اورپھرایک روزاُس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے ، مدینہ سے فارس کی جانب رواں دواں ہوگئے ۔
’’نرالا لشکر‘‘
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ جس لشکرکی قیادت کررہے تھے،یہ بڑاہی نرالا لشکر تھا، اس وجہ سے نہیں کہ اس میں جنگجؤوں یاسپاہیوں کی تعدادبہت زیادہ تھی ، یاسامانِ حرب کی بڑی فراوانی تھی،بلکہ یہ لشکرنرالااس وجہ سے تھاکہ یہ بہت مبارک شخصیات پرمشتمل تھا،مثلاً:
اس لشکرمیں ننانوے ’’بدری‘‘حضرات تھے، یعنی جنہوں نے سن دوہجری میں حق وباطل کے درمیان اولین اوراہم ترین ’’غزوۂ بدر‘‘میں شرکت کی تھی۔
تین سوپندرہ’’رضوانی‘‘حضرات تھے، یعنی سن پانچ ہجری میں ’’بیعتِ رضوان‘‘کے یادگارموقع پرجنہوں نے رسول اللہﷺکے دستِ مبارک پرجاں نثاری کی بیعت کی تھی۔
تین سوحضرات ایسے تھے جوسن آٹھ ہجری میں’’فتحِ مکہ‘‘کے یادگارموقع پررسول اللہﷺکے ہمراہ تھے۔
سات سوافرادوہ تھے جواُس وقت مدینہ منورہ میں موجوداکابرصحابۂ کرام میں سے بڑی ہی جلیل القدرشخصیات کے نوجوان بیٹے تھے۔
لہٰذایہ لشکرنہ صرف یہ کہ انتہائی تاریخی تھا،بلکہ انتہائی ’’مبارک‘‘بھی تھا۔
سپہ سالارِاعلیٰ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اس مبارک لشکرکی قیادت کرتے ہوئے،اللہ کانام لے کر بڑی ہی شان اورآن کے ساتھ اللہ کے حبیبﷺکے پیارے شہرمدینہ سے روانہ ہوگئے۔
روانگی کے وقت اگرچہ یہ لشکرمختصرتھا،تاہم حضرت عمربن خطابؓ نے پہلے ہی مختلف علاقوں میں مسلمانوں کویہ پیغام بھجوادیاتھاکہ جب یہ لشکران کے علاقوں سے گذرے توخوب زیادہ سے زیادہ تعدادمیں لوگ اس لشکرمیں شامل ہوں،چنانچہ راستے میں مختلف علاقوں سے بڑی تعدادمیں لوگ نہایت جوش وخروش کے ساتھ اس لشکرمیں شامل ہوتے چلے گئے،نیزملکِ شام کے مختلف علاقوں میں رومیوں کے خلا ف برسرِپیکاراسلامی لشکرمیں سے بھی سپاہیوں کی بڑی تعداداب ملکِ شام سے روانہ ہوکرراستے میں کسی مناسب مقام پراس لشکرسے آملی،یوں اب اس لشکرکی تعدادتیس ہزارسپاہیوں تک جا پہنچی۔
طویل اورتھکادینے والاسفرطے کرنے کے بعدیہ لشکرجب سلطنتِ فارس کی حدودسے متصل علاقے میں پہنچاتودشمن کے خلاف آئے دن چھوٹی بڑی چھڑپوں اورمختلف جنگوں کاسلسلہ چل نکلا۔
قادسیہ کے میدان میں
ان جنگوں اورجھڑپوں کے بعد،جب یہ لشکر’’قادسیہ‘‘کے مقام پرپہنچا، تب زمین وآسمان کے خالق ومالک نے اپنے اس بندے ’’سعدبن ابی وقاص‘‘سے ایسے عظیم الشان کام لئے،کہ جن کی بدولت ان کانام ہمیشہ کیلئے تاریخ میں عظیم ترین شخصیت اوربالخصوص اسلامی تاریخ کے ایک ’’روشن ستارے‘‘کی حیثیت سے محفوظ ہوگیا۔
’’قادسیہ ‘‘کے میدان میں کیفیت یہ تھی کہ مسلمان تیس ہزارتھے،اپنے وطن اوراپنے گھرسے بہت دور،ا جنبی جگہ پر،جبکہ کیل کانٹے سے لیس مجوسی فوج ایک لاکھ بیس ہزارجنگجؤوں پرمشتمل تھی،ہرقسم کے سامانِ حرب وضرب کی خوب بہتات تھی،جغرافیائی صورتِ حال سے انہیں خوب واقفیت بھی تھی کہ وہ اپنے ہی وطن میں تھے،ان کے اس لشکرِجرارمیں سترجنگی تربیت یافتہ دیوپیکرہاتھی بھی تھے،ان کاسپہ سالاربڑاہی نامی گرامی پہلوان’’رُستم فرخ زاد‘‘تھاجس کا بڑارعب اوردبدبہ تھا، نیزان کے دیگربڑے ناموراورتجربہ کارجنگجواورشہسواربھی بڑی تعدادمیں اس لشکرمیں موجودتھے جن میں سے خاص طورپرمہران ، بہرام ، ہرمزان ، اورجالینوس ،کی بہادر ی کے خوب چرچے تھے اوران کی بڑی دہشت تھی۔
سن پندرہ ہجری میں قادسیہ کے میدان میں بڑے ہی گھمسان کارَن پڑا،انتہائی تاریخی اورخطرناک ترین جنگ لڑی گئی جوکہ مسلسل تین دن تین رات جاری رہی،اس دوران مسلمان سپاہی بغیرکسی توقف کے رات دن مسلسل لڑتے ہی رہے،مسلمانوں کے گھوڑوں نے اس سے قبل کبھی ہاتھی دیکھے ہی نہیں تھے، لہٰذاگھوڑے بارباربدک جاتے، یہ بہت ہی نازک اورپریشان کُن صورتِ حال تھی،سن تیرہ ہجری میں حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں سلطنتِ روم کے خلاف لڑی جانے والی ’’جنگِ یرموک‘‘ کے بعداب یہ خطرناک ترین جنگ تھی،جوقادسیہ کے میدان میں حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کی سپہ سالاری میں سلطنتِ فارس کے خلاف لڑی جارہی تھی۔
آخراللہ کے فضل وکرم سے مسلمانوں کویادگاراورفیصلہ کن فتح نصیب ہوئی،ایسی عظیم الشان فتح کہ جودرحقیقت روئے زمین کی عظیم ترین قوت ’’سلطنتِ فارس‘‘کے دائمی زوال کاپیش خیمہ ثابت ہوئی ،اس یادگارفتح کی بدولت ہمیشہ کیلئے اُس تمام خطۂ زمین کاجغرافیہ بدل گیا،بلکہ دنیاکانقشہ ہی ہمیشہ کیلئے تبدیل ہوگیا،قادسیہ کے میدان میں مجوسیوں کانامی گرامی سپہ سالار’’رستم فرخ زاد‘‘ماراگیا، جبکہ مسلمانوں کے سپہ سالارحضرت سعدبن ابی وقاصؓ ہمیشہ کیلئے تاریخِ اسلام کاایک روشن باب اور’’درخشندہ ستارہ‘‘بن گئے۔
اُدھرقادسیہ سے تقریباًڈیڑھ ہزارکلومیٹر کے فاصلے پرمدینہ منورہ میں مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمربن خطابؓ ’’جنگِ قادسیہ‘‘کے نتیجے اورانجام کے بارے میں کچھ جاننے کیلئے انتہائی بیتاب تھے،انہیں کسی صورت قرارنہیں آرہاتھا،یہی وجہ تھی کہ وہ ہرروزعلیٰ الصباح مدینہ شہرسے باہرنکل کردوراس راستے پرپہنچ جایاکرتے جوملکِ فارس کی طرف سے آتاتھا،تاکہ شایداُس طرف سے آتاہواکوئی سپاہی ، کوئی مسافر ،یاکوئی بھی انسان نظرآئےاوراس سے اس بارے میں کوئی بات معلوم ہوسکے،اورپھردن بھراسی طرح انتظارکے بعدجب شام ڈھلنے لگتی تووہ واپس مدینہ لوٹ آتے۔
ایک روزوہ اسی طرح جب شہرسے باہرشدت سے کسی کی آمدکے منتظرتھے،اس دوران انہیں ایک اونٹ سوارنظرآیا ،جوکہ بڑی تیزرفتاری کے ساتھ مدینہ شہرکی جانب محوِ سفر تھا، انہوں نے اس سے دریافت کیاکہ ’’تم کہاں سے آرہے ہو؟‘‘اُس سوارنے رکے بغیرفقط اتناکہا’’سعدکی طرف سے ‘‘ تب حضرت عمرؓنے بڑی بیقراری اوربے چینی کی کیفیت میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا’’یاعبداللہ حدّثنی‘‘یعنی’’اے اللہ کے بندے!مجھے کچھ بتاؤتوسہی‘‘ جواب میں اس نے فقط اتنی بات کہی کہ ’’اللہ نے دشمن کوشکست سے دوچارکیاہے‘‘ اوراس کے ساتھ ہی فوراًاس نے اپنے اونٹ کوایڑلگائی اوردوبارہ برق رفتاری کے ساتھ مدینہ شہرکی جانب رواں دواں ہوگیا، حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی مسلسل اس کے پیچھے اپنااونٹ دوڑاتے رہے،اوراسے پکارتے رہے،لیکن اس نے ایک نہ سنی۔
آخراسی کیفیت میں جب وہ اونٹ سوارمدینہ شہرکی حدودمیں داخل ہوا،کچھ آبادی کے آثار نظرآنے لگے،تب اس کے پیچھے پیچھے اونٹ دوڑاتے ہوئے حضرت عمرؓپرجب لوگوں کی نگاہ پڑی ،تویہ لوگ(یعنی مدینہ شہرکے باشندے) حضرت عمرؓ کے ساتھ سلام ودعاء وغیرہ کرنے لگے،اس پراس شخص کوکچھ اندازہ ہونے لگاکہ شاہدیہی حضرت عمرؓ ہیں،لہذا وہ پریشان ہوگیا،اورمعذرت کرتے ہوئے کہنے لگا’’معاف کیجئے گااے امیرالمؤمنین میں آپ کوپہچان نہیں سکاچونکہ ہمارے سپہ سالارسعدبن ابی وقاص کاحکم یہی تھاکہ ان کی طرف سے تحریرکردہ یہ خط جلدازجلدامیرالمؤمنین تک پہنچایاجائے ، لہٰذامیں نے راستے میں آپ سے زیادہ گفتگونہیں کی،اورنہ ہی میں آپ کوپہچان سکا۔
پھراس شخص نے حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کی طرف سے تحریرکردہ وہ مکتوب خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطابؓ کے حوالے کیا ،جس میں سعدؓکی طرف سے ’’فتحِ قادسیہ‘‘کے عظیم ترین واقعے کی اطلاع تحریرتھی۔
حضرت عمرؓنے نہایت بیتابی کے ساتھ وہ خط پڑھا…اورپھرفوراًہی اندرونِ مدینہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بآوازِبلندیہ اعلان فرمایا’’الصلاۃ جامعۃ‘‘یعنی نمازتیارہے (مقصدیہ کہ سب لوگ نمازکیلئے جلدازجلد مسجدمیں جمع ہوجائیں) اورپھراس عظیم الشان اورتاریخی فتح یعنی’’فتحِ قادسیہ‘‘کی خوشی میں خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطابؓ کی امامت میں مسجدِنبوی میں ’’نمازِشکر‘‘اداکی گئی ، جس میں مدینہ کے باشندوں نے بہت بڑی تعدادمیں اورنہایت جوش وجذبے کے ساتھ شرکت کی ، اوراس اتنی بڑی نعمت پراللہ رب العزت کے حضورسربسجودہوکربھیگی پلکوں کے ساتھ اس ربِ کریم کاشکراداکیا۔
’’فتحِ قادسیہ‘‘کایادگارواقعہ دراصل مسلمانوں کیلئے آئندہ بڑی کامیابیوں اورتاریخی فتوحات کا ،جبکہ فارس والوں کیلئے مستقل زوال وانحطاط اورشکست وہزیمت کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)