حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا انقلاب

“چوتھا سبق”

“حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا انقلاب”

گزشتہ اسباق میں آپ نے ملاحظہ کیا کہ”چھٹی صدی عیسوی” میں دنیا کے حالات کسقدر افسوسناک تھے-اور انسانیت کس طرح سسک رہی تھی-نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی تشریف آوری اور بعثت سے دنیا میں کیا انقلاب آیا اس سبق میں ہم اس کا جائزہ لےگیں-

وہ چند صفات جو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے انسانوں میں پیدا کئے٫ نکات کی صورت میں-

1-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے لوگوں کا رشتہ براہِ راست”خالق کائنات” سے جوڑ دیا-

2-ان کے اندر”تقوی اور خدا خوفی” کی اعلیٰ صفات انتہائی درجے کی پیدا کردیں-

3-“توحید پرستی”کا خمیر ان کے دل

میں ایسا ڈالا کہ قیامت تک کوئ اسے نکال نہیں سکتا-

4-انہیں تعصبات سے بالاتر ہو کر محض اللّٰہ کے لئے جینا مرنا سکھایا-

5- باہم محبت اور جوڑ پیدا کرنا سکھایا-

جب دل کی اصلاح ہو جاتی ہے تو فرد کی اصلاح خودبخود ہو جاتی ہے٫ دل ٹھیک ہو گئے تو دل کے خیالات٫منہ سے نکلنے والے بول اور جسم سے کئے جانے والے اعمال و افعال سبھی ٹھیک ہوگئے-

“اسکا نتیجہ”

نتیجہ یہ ہوا کہ”شرک” ملیامیٹ ہو گیا-دلوں کی کھوٹ دور ہوگئ-تکبر اور حسد کی بیماریاں دوریاں پیدا کرتی ہیں٫ جب” تکبر” ختم ہو کر” تواضع” پیدا ہوگئ٫ جب” حسد” ختم ہو کر ایک دوسرے کے لئے” ہمدردیاں اور محبتیں”پیدا ہو گئیں تو آپس میں “جوڑ اور اتحاد” بھی آسان ہو گیا-اس کے نتیجے میں تمام “عرب”ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے-” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ان کے اندر” اطاعت” کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا-” اطاعت اور خلوص” کی وجہ سے”وہ قدسی صفات”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے رنگ میں رنگ گئے-

“اسکا نتیجہ”

اب ایمان کی وہ چنگاری جو ایک دل میں بھڑک رہی تھی٫ ہزاروں دلوں میں بھڑک اٹھی- وہ نور ہدایت جو ایک سینے میں تھا٫ ہزاروں دل اس سے معمور ہو گئے- اب وہ ایک نہیں ہزاروں تھے-

ان کا”اللّٰہ” ایک”نبی ایک” “قرآن ایک”دعوت ایک” “اخلاق ایک” قوم ایک-

وسائل نہ ہوتے ہوئے ایک فرد کی محنت سے شروع ہونے والا یہ کام ایک ایسا کارنامہ ہے کہ تاریخ اسکی نظیر پیش نہیں کر سکتی- اسے تاریخ کا ایک معجزہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا-

“مشہور فرانسیسی ادیب “لیمر ٹائن”لکھتا ہے-

“کسی بھی انسان نے کبھی بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے لئے اتنا” رفیع الشان” مقصد منتخب نہیں کیا- اس لئے کہ یہ مقصد انسان کی طاقت سے باہر تھا- “توہمات اور خوش اعتقادیوں کو جو “انسان” اور اس کے “خالق” کے درمیان حجاب بن گئ تھیں٫انکو زیر و زبر کرنا اور” اللّٰہ تعالٰی”کی چوکھٹ پر انسان کو لانا٫اس زمانے کی اصنام پرستی کے” مادی خداؤں” کی جگہ”اللّٰہ واحد” کے پاکیزہ اور” عقلی تصور” کو ازسرنو بحال کرنا”یہ تھا وہ عظیم مقصد- کسی انسان نے کبھی بھی ایسے “عظیم الشان” کام کا جو کسی بھی صورت سے انسانی طاقتوں کے بس کا نہ تھا٫اور کسی نے بھی اتنے کمزور ذرائع کے ساتھ یہ بیڑا نہیں اٹھایا(ہسٹری ڈلاٹر کی٫بحوالہ:نبیء رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

“حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں”حضرت جعفر طیار رضی اللّٰہُ عنہ”کی گواہی”

“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے اخلاق و کردار سے” عربوں” کے دل ودماغ کو ایسا جھنجھوڑا کے وہ راہ راست پر آگئے-

اس تبدیلی کی منظر کشی” حبشہ کے بادشاہ “نجاشی” کے دربار میں “حضرت جعفر طیار رضی اللّٰہ عنہ”نے اس طرح کی٫

“اے بادشاہ!ہم جہالت کے دریا میں ڈوبے ہوئے تھے٫ہم بتوں کو پوجتے تھے٫مردار کھاتے تھے٫ جھوٹ بولتے تھے٫ زنا اور فسق و فجور کو اچھا سمجھتے تھے٫انسانیت سے ناواقف تھے٫ مسافروں کی مہمان نوازی سے آگاہ نہیں تھے- بدکار تھے٫بےرحم تھے٫ پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے٫ ہم میں جو طاقتور ہوتا وہ کمزوروں کا حق دبا لیتا تھا٫ہم لوگ ظلم کے سوا کوئی دوسرا قانون نہیں جانتے تھے کہ یکایک ہمارے مہربان پروردگار نے ہماری ہی قوم کے ایک “ہردلعزیز شخص کو ” منصب رسالت”عطاء فرمایا”جس کے خاندان و حسب و نسب سے ہم خوب واقف ہیں- جن کی “امانت داری اور صداقت” “ضرب المثل” ہے-اس نے ہم کو اللہ کی وحدانیت کی تعلیم دی٫ شرک سے روکا٫بت پرستی٫ امانت میں خیانت اور پڑوسیوں ہر ظلم کرنے سے روکا٫ سچ بولنے کی تلقین کی٫ “اللّٰہ تعالٰی” کے کمزور بندوں پر رحم کرنا سکھایا- مروت اور انسانی ہمدردی سے آگاہ کیا اور ہمیں ہدایت کی کہ ہم کسی پر بھی جھوٹی تہمت نہ لگائیں٫ یتیموں کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائیں٫ گناہوں سے بچیں٫ صلوہ قائم کریں٫ صدقہ و خیرات سے مساکین کو نوازیں٫روزہ رکھیں٫جھوٹ نہ بولیں٫کسی کی غیبت نہ کریں اور “اللّٰہ وحدہُ لا شریک لہ”پر یقین رکھیں-ہم نے” ان” کو” سچا پیغمبر” تسلیم کر لیا اور “ان”پر ایمان لے آئے- انکی تمام ہدایتوں کو مان لیا اور شرک سے کنارہ کش ہوگئے-

اس لئے ہمارے ہم وطن اور برادری جو جہالت کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور غرور و تکبر کا جامہ زیب تن کئے ہوئے ہیں٫ ہمارے دشمن بن گئے٫ ہماری برادری کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم”اللّٰہ وحدہُ لا شریک لہ”کی عبادت کو چھوڑ کر لکڑی اور مٹی کی مورتیوں کو پوجیں”-

“رستم کے دربار میں “حضرت ربعی بن عامر رضی اللّٰہُ عنہ کی گواہی”

اس انقلاب کا نظارہ دیکھنا ہو تو”ایرانی سپہ سالار”رستم” کے دربار میں دیکھئے-یہاں مسلمانوں کے سفیر”حضرت ربعی بن عامر رضی اللّٰہُ عنہ” سے “رستم” نے کیا کہا اور”آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے اسکی بات کا کیا جواب دیا؟

“رستم”

“اے اہل عرب!تمہیں کیا ہوگیا ہے؟قسم ہے میرے معبود کی!تم لوگوں سے زیادہ ذلیل وخوار قوم ہم نے نہیں دیکھی- رومیوں کی اپنی ایک تہذیب ہے٫اہل فارس” کی اپنی ایک تہذیب ہے٫یونانیوں اور ہندوستانیوں کی اپنی اپنی الگ الگ تہذیبیں ہیں- مگر تم اہلِ عرب! جھگڑالو اور ضدی لوگ ہو٫بکریوں اور اونٹوں کو ریگستان میں دوڑانے والے٫ آخر تم لوگ کس نیت سے ہماری سرحد پر آئے ہو؟

“حضرت ربعی بن عامر”

ہاں بادشاہ ہم ویسے ہی تھے جیسا کہ تم نے کہا ہے بلکہ ہم اس سے بھی گئے گزرے تھے-ہم جاہل اور گنوار تھے٫بتوں کی عبادت کرتے تھے٫بکریوں کو پانی پلانے میں جھگڑتے تھے٫اپنے عزیز و اقارب کو بھی معمولی باتوں پر قتل کر دیتے تھے٫ ہمیں کسی نظام اور دستور کا کوئ علم نہ تھا٫ لیکن اب ہم ایسے نہیں رہے- اب”اللّٰہ تعالٰی” نے ہمیں تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ”ہم انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر”اللّٰہ تعالٰی” کی غلامی سے نجات دلا کر”اللّٰہ تعالٰی”کی غلامی میں لےجائیں اور دنیا کی تنگی اور پریشانیوں سے نکال کر آخرت کی وسعت و فراوانیوں کی طرف لے جائیں٫اور مذاہب کے ظلم و جور سے نکال کر”اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لے جائیں-

یہی”قدسی صفات”رضوان اللہ علیہم اجمعین”جب “ہندوستان٫ انڈونیشیا٫ملائشیا٫افریقہ اور یورپ٫غرض کہ ہم جہاں بھی جائیں گے اس “نور ایمان” کی شمع جلاتے جائیں گے اور اس نور سے سارے جہاں کو منور کرتے جائیں گے-

“دور حاضر کا زمانہء جاہلیت سے موازنہ”

آج کے دور کا اگر دور جاہلیت سے موازنہ کیا جائے تو”اس دور” کی بہت سی چیزیں ہمیں اپنے معاشرے میں نظر آتی ہیں-
1-“اسلامی دنیا” شدید تفرقہ کا شکار ہے- یہ تفرقے”سیاسی” بھی ہیں اور” مذہبی” بھی٫لسانی” بھی ہیں اور”نسلی” بھی-
قوم کا متحد ہونا تو دور کی بات ہے یہاں تو ایک خاندان بھی مل کر نہیں بیٹھتا-
2-عوام کو اپنے ووٹوں سے لائے ہوئے” حکمران” پر بھی اعتماد نہیں- ہمیشہ بیرونی حکمرانوں اور حکومتوں کی ہی تعریف کی جاتی ہے- یہی حال پہلے زوال پذیر قوموں کا ہوا تھا-( اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی واحد قوم ہیں جو خود اپنی برائیاں دوسروں کو دکھاتے ہیں)(راقم)
3- اہل عرب ضعیف الاعتقاد٫اور توہم پرست تھے٫وہ ماہ صفر کی نحوست اور دیگر کئ طرح کی خام خیالیوں میں مبتلا تھے-آج کا مسلمان بھی”توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد”ہے٫ماہ صفر” کو منحوس سمجھا جاتا ہے-کوے کی” کائیں کائیں” سے مہمانوں کی آمد کا “اچھا شگون” لیتا ہے٫ جبکہ” کالی بلی” کے راستہ کاٹنے سے” برا شگون “لیتا ہے(اور ایسا ہو بھی جاتا ہے)”مساجد کے بجائے”عاملوں کے آستانے پر رش زیادہ لگا نظر آتا ہے-
4-“زمانہء جاہلیت” میں بتوں کو پوجا جاتا تھا٫شرک پھیل گیا تھا- آج کے دور میں دولت٫ہوس٫ اور خواہشات کے غلام نظر آتے ہیں-(اللھمہ وفقنا منھم آمین)شرکیہ اعمال کی بھی کمی نہیں-
5-چوری٫جھوٹ٫سودخوری٫ زنا ٫شراب نوشی” جیسی بیماریاں”دور جاہلیت” میں بھی عام تھیں-ان معاملات میں آج کے حالات” دور جاہلیت” سے بھی زیادہ بدتر ہیں-

6-کچھ عرب قبائل “بیٹیوں” کے پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے- آج بھی”بچیوں” کی پیدائش کو اکثر جگہ برا سمجھا جاتا ہے- “الٹرا ساؤنڈ” میں اگر لڑکی کا پتہ چلے تو اس کو ضائع کرا دیتے ہیں-(العیاذ باللہ)
7-عرب میں بے پردگی عام تھی٫اج کی عورت بے پردگی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے٫نہ گلا نہ آستین- کچھ چندیاں جسم میں لٹکا کر ماڈلنگ کرتی ہیں-اور کچھ تو (العیاذ باللہ) اس کا بھی تکلف نہیں کرتیں- آج کی عورت نے” آزادی” کے نام پر اپنے آپ کو رسوا کر لیا ہے-“میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ لگا کر خود کو جہالت کی تاریکیوں میں دھکیل دیا ہے-حالانکہ جس چیز کو وہ آزادی سمجھتی ہے درحقیقت وہ”عورت”کا استعمال ہے-“عورت” کو استعمال کر کے” ٹشو پیپر” کی طرح پھینک دیا جاتا ہے٫اور ایک اور نیا “ٹشو پیپر”استعمال کر لیا جاتا ہے-(العیاذ باللہ)
الغرض “دور جاہلیت” کے اکثر و بیشتر مظاہرے “آج ” بھی ہمارے اندر موجود ہیں-ضرورت اس بات کی ہے کہ آج بھی”دور جاہلیت” کی طرح”عظیم انقلاب٫عظیم رہنما”نبیء آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم” کی سیرت کو ہی ہم اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں-“اللّٰہ تعالٰی” ہمیں”اطیعواللہ و اطیعو الرسول٫صل اللّٰہ علیہ وسلم” پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین- کیونکہ” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی اتباع ہی “اللّٰہ تعالٰی”کی محبت پانے کا ذریعہ ہے- الہی”امت مسلمہ” کو پھر سے متحد کردے٫انہیں ایک لڑی میں پرودے٫ ان کے آپس کے اختلافات ختم کردے-الہی ہمیں ایسا مسلم رہنما عطاء فرما جو ہمیں ہماری کھوئ ہوئ متاع(اسوہ حسنہ) واپس دلادے٫اس کا مقام٫اس کا وقار بحال کر دے اور” امت مسلمہ” کو پھر سے”خیر الامم” کا مصداق بنا دے٫ آمین یارب العالمین-
(جاری ہے)
حوالہ:سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کورس-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان- “الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”

اپنا تبصرہ بھیجیں