قصہ حضرت خضرعلیہ السلام

سورۃ الکہف  

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا ﴿٦٠﴾ فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا ﴿٦١﴾فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَـٰذَا نَصَبًا﴿٦٢﴾ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا﴿٦٣﴾ قَالَ ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ۚ فَارْتَدَّا عَلَىٰ آثَارِهِمَا قَصَصًا ﴿٦٤﴾فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ﴿٦٥﴾ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴿٦٦﴾ قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴿٦٧﴾ وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ﴿٦٨﴾ قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا ﴿٦٩﴾ قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ﴿٧٠﴾ فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا﴿٧١﴾ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴿٧٢﴾ قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ﴿٧٣﴾ فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا ﴿٧٤

قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴿٧٥﴾ قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي ۖ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّي عُذْرًا﴿٧٦﴾ فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ﴿٧٧﴾ قَالَ هَـٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ۚسَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ﴿٧٨﴾ أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ﴿٧٩﴾ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ﴿٨٠﴾ فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ﴿٨١﴾ وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا﴿٨٢

ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک خاص شخصیت  سےملاقات کاتذکرہ ملتاہے ۔یہ شخصیت تین کام ایسے سرانجام دیتی ہے جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام حیرت میں ڈوب جاتےہیں۔اوران سے اسی حیرت واستعجاب کااظہار کرتےہیں جس کی وجہ سےوہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سےاپناراستہ الگ کرلیتےہیں ۔قرآن مجید  میں اس شخصیت سےمتعلق اس سےزیادہ کچھ نہیں ملتا۔احادیث مبارکہ میں اس شخصیت کاتعین حضرت خضرعلیہ السلام کےنام سےکیاگیا۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺنےفرمایا: “درحقیقت  ان کوخضر نام اس لیے دیاگیاکہ وہ ایک بنجرزمین کےٹکڑے پربیٹھ گئے تواچانک وہ حصہ سبزہ سےلہلہانے لگا۔”

حضرت خضرعلیہ السلام کےبارےمیں صالحین کی حکایات بےشمار اوراختلافات سےبھرپور ہیں ۔حضرت خضرعلیہ السلام کانام کیاہے ؟ آپ علیہ السلام  کون تھے ؟کس زمانےمیں ہوئے؟ان کانسب کیاہے؟ کیاوہ نبی تھے  یاکوئی بزرگ ہستی ،حضرت خضرعلیہ السلام حضورﷺ کےزمانے میں موجودتھے ؟اگروہ حضور ﷺکےزمانےمیں موجودتھے توکیااس کےبعد بھی حیات ہیں؟ اگروہ حیات ہیں توان کےفرائض کیاہیں ان کاخوردونوش کیاہے ؟

اہل علم نے احادیث مبارکہ اوراسرائیلیاتکی روشنی میں ان سوالات کاجواب دینےکی کوشش کی ہےنیزان کی طویل عمرپربھی بحث کی ہے ۔

بعض اہل علم حضرت ذوالقرنین کوسکندر قراردیتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جویہ سمجھتے ہیں یہ دونوں آب حیات کی تلاش میں نکلے ،حضرت خضر علیہ السلام اس چشمہ حیات سے فیض یاب ہوکرزندہ جاوید ہوئے اورسکندرمحروم ٹھہرا ،صوفیاء کی ایک بڑی جماعت تعداد حضرت خضرعلیہ السلام کی حیات جاوانی اوران سے فیض  پانے کی قائل ہے جبکہ ایک طبقہ یہ سمجھتاہے  کہ دنیا کے تکوینی نظام میں خضر ایک ذمہ دارانہ منصب ہے اسی طرح  ہردورکاایک خضر ہوتاہے جب پہلے  خضرکاانتقال ہوجاتاہے تودوسراخضر اسی کی جگہ لےلیتاہے ۔بعض صؤفیاء اوراہل شعراء واد ب خضرعلیہ السلام  کی حیات جاودانی کاانکارکرتے ہوئے یوں گویاہوتےہیں :

غالب کہتے ہیں

کیاکیاخضرنےسکندرسے

آپ سےرہنماکرےکوئی

حضرت خضرعلیہ السلام کےمقام ومرتبہ اورحیات جاوید کےبارےمیں مختلف آراء  :

٭تفسیر خازن میں امام علاؤالدین  علی بن محمدنے شیخ ابوعمروبن صلاح نےاپنے فتاویٰ میں فرمایاہے: حضرت  خضر اورالیاس علیہ السلام جمہورعلماء   وصالحین کے نزدیک  زندہ ہیں ۔اور ہرسال زمانہ حج میں ملتےہیں ۔ (واللہ اعلم)

اسی طرح تفسیر فتاویٰ میں ہےکہ حضرت خضرعلیہ السلام حضورﷺ کی زیارت سے بھی مشرف ہوئےا س لیے یہ صحابی  بھی ہیں ۔ (فتاویٰ ج 4 ص 1208 ،پ15 الکہف :5)

٭اسی طرح حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے  ۔حضرت خضرعلیہ السلام نے انہیں نصیحت فرمائی : اے عمر رضی اللہ عنہ !اس بات سے بچناکہ توظاہرمیں توخداکادوست ہے اورباطن میں اس کادشمن کیونکہ جس کاظاہر اورباطن مساوی نہ ہووہ منافق ہوتاہے اورمنافقوں کامقام ورک اسفل ہے یہ سن کرعمربنعبدالعزیزرضی اللہ عنہ اتناروئے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔

(تنبیہ المغترین ،الباب الاول ،مساواتہیم ،السروالعلانیۃ ص 99)

مفسرین کے اقوال کےمطابق حضرت خضر علیہ السلام کااصل نام “بلیابن ملکان” اورکنیت  “ابوالعباس” ہے جبکہ مشہورلقب خضر یاخضرہے ۔

حضرت خضر  حضرت ذوالقرنین کےخالدزاد بھائی تھے ۔حضرت ذوالقرنین کےوزیر اورجنگوں میں علمبردار رہےہیں ۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولادمیں سےہیں ۔

آب حیات :

علماء کرام اس سےاختلاف کرتےہیں  کہ آب حیات  نام کی کوئی اصطلاح نہ توقرآن میں ہمیں  ملتی ہے نہ حدیث میں اس کاذکرہے اس لیے یہ باتیں من گھڑت  ہیں۔آب حیات کوخضر علیہ السلام اورذوالقرنین کےساتھ ملاناتاریخ کےساتھ زیادتی ہے کیونکہ قرآن فرماتاہے : کل نفس ذائقۃ الموت  یعنی ہرنفس کوموت کامزہ چکھناہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ایک شب نبی اکرم ﷺ عشاء کی نمازسےفارغ ہوئےتوفرمایااس رات کوتم نے دیکھا! یہ واضح رہے کہ آج جوشخص بھی بقید حیات ہے۔ایک صدی گزرنے پران میں سےایک بھی زندہ باقی نہیں رہے گا”۔بخاری ومسلم ،کتاب الفضائل )

اس صحیح حدیث  کی پیشن گوئی کےمطابق حضرت خضرعلیہ السلام  کی حیات ابدی کےلیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی ۔

٭بعض لوگوں کےاعتقادات کےمطابق حضرت خضرعلیہ السلام کاکام سمندرودریاؤں میں لوگوں کی راہنمائی کرناہے عوام آپ ؑکوخواجہ خضرکہتےہیں ۔

بعض علماء آپ ؑکوپیغمبرنہیں مانتے کیونکہ اس امرکاپتانہیں چلتا کہ آپ ؑ نے کسی قوم کی ہدایت گوئی کی ہو۔

ترک لوگوں میں حضرت خضرؑکاکونسیپٹ انتہائی  مضبوط ہے ۔ان کےعقیدے  کےمطابق جب کوئی انسان مشکل کاشکارہوکرراستہ ٹھیک جاتاہے توحضرت خضرعلیہ السلام اس کی مدد کرنےکوعین وقت پہنچتےہیں ۔

جمہورعلماء امت نے حضرت خضرعلیہ السلام کی نبوت کےبارے میں اختلاف کیاہے ۔بعض نےکہا وہ نبی ہیں بعض نے کہا وہ ولی ہیں اورایک عبدصالح ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کوعلم خاص عبدیت اوربہترین صفات کےساتھ ذکرکیا۔مگران چیزوں کےساتھ یہ نہیں فرمایا کہ وہ نبی یارسول ہیں ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اورحضرت خضرعلیہ السلام  کاقصہ :

قرآن پاک میں حضرت خضرؑکاتذکرہ سورۃ الکہف آیت 60 تا82میں تفصیلاً ملتاہے  ۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا  فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا 

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَـٰذَا نَصَبًا ﴿٦٢﴾ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا ﴿٦٣﴾ قَالَ ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ۚ فَارْتَدَّا عَلَىٰ آثَارِهِمَا قَصَصًا ﴿٦٤﴾ فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ﴿٦٥﴾ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴿٦٦﴾ قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴿٦٧﴾ وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ﴿٦٨﴾ قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا ﴿٦٩﴾ قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ﴿٧٠﴾ فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا ﴿٧١﴾ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴿٧٢﴾

جب حضرت موسیٰ ؑنے اپنے علم کی فوقیت کاتذکرہ فرمایاتواللہ رب العزت نے فرمایا(فوق کل ذی علم علیم )

ہرصاحب علم کےاوپر بھی کوئی صاحب علم ہوتاہے۔توپھر بحکم خداوندی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنےسےزیادہ صاحب علم ہستی کی تلاش میں نکلے۔آپ ؑکےشاگردحضرت یوشع بن نون ؑآپ ؑ کےساتھ تھے ۔بیان کردہ نشانیاں اورعلاماات ظاہر ہونےکےبعد جب حضرت موسیٰ ؑنےحضرت خضرؑکوپالیاتواس موقع پرقرآن مجید حضرت خضرؑکاتعارف کچھ یوں بیان فرماتاہے : فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نےحضرت خضرؑکواپنابندہ خاص قراردیااوران کےدواوصاف  کاذکر وضاحت فرمایا

1)رحمت 2) علم

  فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا  فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا 

سورۃ الکہف کی ان آیات میں جوتین واقعات پیش آئے  ان تینوں واقعات کی بنیاد سراسر رحمت ہے۔

حضرت خضرؑنےکشتی  کےپشتہ کوتوڑکراسے عیب دار بنایااوراس طرح  اسے غالب حکمران سے بچالیا۔غریب  کشتی والے کےلیے یہ عمل رحمت ثابت ہوا۔

آگرخضردربحرکشتی راشکست

صددرستی درشکست خضر پست

ایک معصوم بچے کوقتل کرکےبچے کےوالدین کےایمان کوبچالیا۔

اسی طرح  علاقہ کےلوگوں کےعمل سے بے نیاز ہوکرایک گرتی دیوار کوبغیرمزدوری کےتعمیرکیاجس سےیتیم بچوں کےمال کی حفاظت ممکن ہوئی ۔آپ کایہ عمل یتیم بچوں کےلیے رحؐت کااظہار تھا۔

کشتی مسکین ،جاں پاک دیوار یتیم

علم موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش

 علم خضرؑ:۔ اگرچہ حضرت موسیٰ ؑانبیاء کرام میں خاص اورعلم میں بے پناہ تھےمگرجوعلم حضرت خضرؑکوعطاہوااس کی نوعیت حضرت موسیٰ ؑ کےعلم سے مختلف تھی ۔تفسیرمظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؑ کی تحریرکاخلاصہ یہ ہے کہ :

حق تعالیٰ جن حضرات  کووحی  ؑونبوت سے سرفراز فرماتےہیں وہ عموماًوہی حضرات ہوتےہیں جن کے سپرداصلاح خلق کی خدمت ہوتی ہے ان پرکتاب وشریعت نازل کی جاتی ہے ۔مگردوسری طرف کچھ تکوینی خدمات بھی ہیں جن کے لیے ملائکہ اللہ یاانبیاء میں سےبعض کومخصوص کرلیاجاتاہے ۔حضرت خضرؑاس زمرے میں سےہیں ۔

حضرت خضرؑکووہ علم لونی  حاصل تھاجودوسرے انبیاء کوحاصل نہ تھا جس کی مددسے وہ مصیبت زدوں کی مددکرتے اورگمراہ کی راہنمائی کرتے ۔

اگرچہ حضرت خضرؑاللہ کےخاص بندےتھے مگرحضرت موسیٰ ؑنے کسی ایسی بات پرصبرنہ کیاجس کوانہوں نے شریعت کےخلاف پایاحضرت موسیٰ ؑاسی وقت مطمئن ہوئے جب حضرت خضرؑ نے ان کویہ اطمینان دلایاکہ جوبھی انہوں نے کیاہے حکم خداوندی کی تعمیل میں کیاہے ۔

کہہ دیامجھ سے اے جوہائے اسرارازل

چشم دل ماہوتوتقدیرعالم بے حجاب

رسول اللہ ﷺنے یہ واقعہ نقل کرکےفرمایاکہ موسیٰؑ کاپہلااعتراض خضرؑپربھول سےہواتھااوردوسرابطورشرط کےاورتیسراقصداً۔ایک چڑیاآئی اورکشتی کےکنارے پربیٹھ کراس نےدریامیں سے ایک چونچ بھرپانی پیا،حضرت خضرؑحضرت موسیٰ ؑکوخطاب کرکےکہا: میرا اورآپ کاعلم اللہ کےعلم کےمقابلے میں بس اتنی ہی حیثیت  ہے جتنااسی چڑیا کی چونچ کےپانی کواس سمندرکے ساتھ ہے ۔

حضرت خضرؑ زندہ ہیں یاان کی وفات ہوچکی ہیں؟

بعض روایات سے ان کازندہ ہونامعلوم ہوتاہے اوربعض اس کےخلاف  ہیں۔لہذااس معاملے میں ہمیشہ سے علماء کی رائیں مختلف رہی ہیں ۔ جوحضرات ان کی حیات کےقائل ہیں وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سےنقل کرتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی توایک شخص سیاہ سفید داڑھی والےداخل ہوئےا وررونےلگے اورفرمایا: “اللہ کی بارگاہ میں صبرہے پرمصیبت  سے اوربدلاہے ہرفوت ہونےوالی چیز کاوہی قائم مقام ہے ہرہلاک ہونے والےکااسی کی طرف رجوع کرو۔ اوررغبت  کرواوراوردیکھو وہ تمہیں مصیبت  میں مبتلاکرکےآزماتاہے اصل مصیبت زدہ وہ ہے جس کی مصیبت کی تلافی نہ ہو”َ

یہ کلمات کہہ کررخصت  ہوگیاتوحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ  اورحضرت علی رضی اللہ عنہ  نےفرمایا: یہ خضر ؑتھے ۔اس روایت کوجزدی نے حصن حصین میں بھی نقل کیاہے ۔

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ دجال مدینہ طیبہ کے قریب ایک جگہ تک پہنچے گا تومدینہ سے ایک شخص اس کےمقابلے کےلیےنکلے کاجوبہترین لوگوں میں سے ہوگا،ابواسحٰق نےفرمایا :

یہ شخص حضرت خضرؑ ہوں گے  (قرطبی )

کتاب الہواتف میں سندکےساتھ منقول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت خضرؑسےملاقات کی توحضرت خضرعلیہ السلام نے ان کوایک دعابتائی ۔

اسی طرح اولیاء امت میں حضرت خضرؑکے بے شمار واقعات منقول ہیں ۔

 بعض حضرات نےحیات خضرؑپریہ شبہ کیاہے کہ اگروہ آنحضرتﷺ کے عہدمبارک میں موجودہوتے توان پرلازم تھاکہ حضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے اوراسلامی خدمات میں آکرآپ کاساتھ دیتے ۔

ابوحیان نے تفسیر بحرمحیط میں متعددبزرگوں کےواقعات حضرت خضرؑسےملاقات کےبھی نقل کیے ہیں مگرساتھ یہ بھی فرمایا:

“جمہور علماء اس پر ہیں کہ خضرؑکی وفات ہوگئی “

تفسیرمظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒنےفرمایا:

“تمام اشکال کاحل اس میں ہےجوحضرت مجددالف ثانی نے اپنے مکاشفہ سے فرمایا کہ میں نے خودحضرت خضر ؑسے اس معاملہ کوعالم کشف میں دریافت کیا،انھوں نےفرمایا: میں اورالیاس ؑہم دونوں زندہ نہیں ہیں ،لیکن اللہ تعالٰی نے ہمیں یہ قدرسےبخشی ہے کہ ہم زندہ  آدمیوں کی شکل میں متشکل ہوکر لوگوں کی امدادمختلف  صورتوں میں کرتےہیں۔ (واللہ اعلم 

 حضرت خضرؑکوحیات ماننے والوں کی تعداد منکرین حیات  سےزیادہ ہے ۔ عہدنبوی  ﷺاور خلادت راشدہ  کےدوران بھی ان کی حیات کا تصور  موجودرہاہے ۔اسی طرح  علماء کی بڑی تعداد حضرت خضرؑکونبی مانتی ہے ۔

حضرت خضرؑکی تاریخ پیدائش کاتوکسی کوعلم نہیں مگر آپؑ کےزندہ ہونے اورقیامت  تک زندہ رہنے کےآثارملتے ہیں ۔

حضرت خضرؑ اورصوفیا :

اہل تصوف  میں بہت سےبزرگ  حضرت خضرؑسےملاقات کادعویٰ کرتے ہیں ۔

شیخ حکیم ترمذی (المتوفی  320ھ /933ء)  بیان کرتےہیں جب بچپن میں ماں کی ضعیفی اورکمزوری کےپیش نظر  شہرسےباہر حصول علم کےلیے نہ جاسکےتوحضرت خضرؑنے تین  سال تک انہیں پڑھایا ۔پھر ہر  اتوارکوان سےملنےآتے دونوں میں تبادلہ خٰال ہوتا۔ایک مرتبہ  شیخ ترمذی نے اپنی تمام تصانیف  دریابردکیں لیکن حضرت خضرؑ نے انہیں دریا سے نکال کران کی خدمت میں پیش کیا اورکہا بہترہے آپ ان سے شغل رکھیں ۔ ( تذکرۃ الاولیاء  7902 سفینۃ الاولیاء 129)

امام جلال الدین  سیوطی (849۔911ھ/1445۔1505ء ) سے  حضرت خضرؑ کےبارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے یہ اشعار پڑھے :

الناس خلف شاع فی الخضر وھل

اوسی قدیما اوحی یبقاء

ولکل قول حجۃ  مشھورۃ

تسموعلی الجوزاء فی العلیاء

والمرتضیٰ قول الحیاۃ حکم لہ

حجج تجل الدھر عن احصاء

خضر والیاس بارضی مثل ما

عیسیٰ وادریس بقوابسماء

ھذاجواب ابن السیوطی  الذی

یرجومن الرحمن خیر جزاء

(الزھر العصر ص 34 )  

اپنا تبصرہ بھیجیں