”پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”بحیثیت نانا جان”ان”حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما” پر خصوصی ”شفقت اور محبت“کرتے تھے-جس کی وجہ سے”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین“ بھی ان دونوں سے بے انتہا”محبت کرتے تھے- سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنہما کی تعظیم کیا کرتے تھے اور خصوصی شفقت٫عنایت اور محبت کا سلوک کرتے تھے-( البدایہ والنہایہ)
جب”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کی عمر ”9“سال کی ہوئی تو خلیفہء بلا فصل٫حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ بھی اس دار فانی سے کوچ کر گئے-خلیفہء ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ بھی اپنے دور خلافت میں حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما کے ساتھ ہمیشہ شفقت اور نہایت درجہ پیار و محبت کا معاملہ فرماتے-جب “بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے”5000 “5000“درہم سالانہ وظیفہ مقرر کیا تو ان دونوں کے لئے بھی اتنا ہی وظیفہ مختص کیا-(البدایہ والنہایہ)
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے ہی دور میں یمن سے کچھ ”حلے“آئے٫ آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے وہ “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے صاحبزادوں میں تقسیم کر دئیے اور”حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما” کے لئے ان سے بہتر”حلے منگوائے اور دونوں بھائیوں کو دئے پھر فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے-( سیر اعلام النبلا)
“حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ” کے دور خلافت میں “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ نے جہاد میں حصہ لیا اور اپنی شجاعت اور دلیری کے جوہر دکھانے شروع کئے اور بہت سے معرکوں میں حصہ لیا- جب “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ- کی عمر “20” سال ہوئ تو خلیفہء ثانی”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ” بھی شہید کر دیئے گئے-“خلیفہء ثالث “حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ”بھی “حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما” کے ساتھ “خصوصی محبت” کا معاملہ فرماتے رہے-“26ھ” میں”حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ”نے جو فوجی کمک روانہ کی اس میں ہونہار٫قوی٫ شیردل٫بہادر فوجی جوان “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”کی ایک جماعت روانہ کی-جس میں”حضرت حسن اور حسین رضی اللّٰہ عنھما بھی ،شریک تھے-اسی طرح “30”ھ میں غزوہء طبرستان”میں بھی “حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما”نے بھی شجاعت کے جوہر دکھائے-جب اسلامی تاریخ کا سب سے” مظلومانہ المناک سانحہ “شہادتِ عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ”پیش آیا تب بھی “حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ”کے ساتھ”حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما بھی “حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ”اور انکے اہل بیت کے تحفظ اور نگہبانی کے لئے باغیوں کے مقابلے میں موجود تھے-حتی کہ “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” زخمی بھی ہوئے-
پھراپنے والدخلیفہء اربع” حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” کے دور خلافت میں بھی”حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما”تمام جنگوں میں شریک رہے اور جنگ جمل اور صفین میں بھی اپنے والد کے ساتھ رہے-
“حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما” ہر معاملے میں اپنے والد کے فرمانبردار رہے٫یہاں تک کہ”حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” کو بھی کوفی خارجیوں نے “21 رمضان المبارک٫ سن”40″ھ “کو صبح صادق کے وقت شھید کر دیا- پھر”حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ” بھی “6” ماہ”حکومت” میں رہنے کے بعد “عوام کو انتشار” سے بچانے کے لئے”حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” کے حق میں دستبردار ہو گئے – “حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”بھی” ان دونوں” کاویسا ہی اعزاز واکرام کرتے جیسا کہ ان کے پیش رو”خلفاء اور صحا بہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کرتے رہے تھے-“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم”کی اتباع میں اور اس”حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی روشنی میں”کہ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں٫تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے تو اس کو بھی اپنا محبوب بنا لے آمین- (ترمذی 218/2) ہر مسلمان کے دل میں “حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما” کی محبت لازمی ہونی چاہئے-
جب کبھی حضرات حسنین رضی اللّٰہ عنھما حضرت امیر معاویہ”سے ملنے جاتے تو وہ ان دونوں بھائیوں”کی آمد پر مرحبا کہتے,اظہار محبت فرماتے اور بہت عنایت و نوازش فرماتے- ایک دفعہ جب یہ دونوں بھائی تشریف لائے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ نے بہت اعزاز واکرام کے ساتھ فی الفور دو لاکھ درہم عنایت کئے-بالاخر کاتب وحی،عظیم فرمانروا امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ بھی مسلمانوں کو داغ مفارقت دے گئے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون –
“حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”نے اپنے “ولی عہد یزید”کو “وصیت اور نصیحت”کی کہ اگر تجھے ان حضرات پر کامیابی ہو جائے تو ان حضرات کی عزت کا خیال کرنا اور حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے ساتھ میرا جو دلی تعلق ہے اس کا خیال رکھنا- اور میں نے جو تعلقات ان دونوں حضرات سے نبھائے ہیں ان کو نہ توڑنا،ییاں تک کہ اگر وہ تیرے خلاف بھی چلیں،تو بھی ان سے ہرگز محاسبہ نہ کرنا-(جلاء العیون)
(جاری ہے)
حوالہ: تاریخ کے ساتھ ساتھ-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان