حضرت ایوب علیہ السلام انبیاء کی جماعت میں سے وہ ہستی ہیں کہ اللہ نے صبر کے معاملے میں بطور خاص ذکر فرمایا ہے لوگوں کے لیے ایک مثال اور نمونہ ٹھہرایا ہے ۔
حضرت ایوب ؑ اسرائیلی نہ تھے بلکہ ابراہیم علیہ السلام کی پانچویں پشت میں سے تھے جیسا کہ قرآ ن میں بیان ہوا ہے :
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۭ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ 84ۙ
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو اہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔
آپ ؑ کا قیام سر زمین عوص میں تھا جو عرب کے شمال ومغرب میں ار فلسطین کی مشرقی سرحد سے متصل ہے ۔
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣ۚ
(اے پیغمبر) ہم نے تمہارے پاس اسی طرح وحی بھیجی ہے جیسے نوح اور ان کے بعد دوسرے نبیوں کے پاس بھیجی تھی، اور ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کے پاس، اور عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کے پاس بھی وحی بھیجی تھی، اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تھی۔ (سورۃ النساء 163)
اللہ تعالیٰ نے ان سب انبیاء کی طرف وحی بھیجی ۔ حضرت ایوب علیہ السلام بھی ان رسولوں میں سے ایک ہیں۔ اللہ نے آپ ؑ کو قوم حوران کی طرف مبعوث فرمایا یہ قوم ملک شام میں رہائش پذیر تھی ۔ آپؑ بہت زیادہ مالدار تھے اللہ نے آپ کو بہت زیادہ نعمتوں سے نوازاتھا۔ آپ علیہ السلام کے پاس بے شمار مویشی۔لاتعداد ، نوکر چاکر اورزرعی زمینیں تھیں ۔ آپ ؑ تاجر بھی تھے۔ تجارت کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا اللہ نے آپ کو کثیر اولاد عطا فرمائی۔ آپ ؑ خود بھی سحت مند اور طاقتور تھے۔ اصحاب کی تعداد بھی کافی تھی ۔آپ ؑ کے صحیفے “سفر ایوب ” میں ہے :
” آپ علیہ السلام امیر کبیر اور بڑے صاحب ثروت تھے عہد عتیق میں ہے عوص کی سر زمین میں ایوب نامی ایک شخص تھا اور وہ شخص کامل اور صادق تھا اور خدا سے ڈرنا اور بری سے دور رہتاتھا۔ا س کے سات بیٹے اور تی بیٹیاں پیدا ہوئیں اس کے مال میں سات ہزار بھیڑیں اور تین ہزار اونٹ اور پانچ سوجوڑے بیل اور پانچ سو گدھیاں تھیں اور اس کے نوکر چاکر بہت تھے ایسا کہ اہل مشرق میں ایسا مالدار کوئی نہ تھا۔” ( ایوب : 1۔2۔10)
حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش:۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزمانا چاہا تاکہ بعدمیں آنے والوں کے لیے آپ علیہ السلام صبر کی مثال بن جائیں ۔ آخر آزمائش کا مرحلہ شروع ہوا۔ آپ علیہ السلام کا سب مال ومتاع چھین گیا۔ تمام اولاد اللہ پیاری ہوگئی تمام مال مویشی پلاک ہوگئے آپ ؑ شدید مرض میں مبتلا ہوگئے بیماری اس قدر شدید تھی کہ آپ ؑ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے آپ کی آزمائش انتہاء کو پہنچ گئی آپ کے ملنے والے آپ کا ساتھ چھوڑ گئے صرف آپ کی بیوی خدمت کے لیے رہ گئیں وہ بہت وفادار تھیں ان تمام مصیبتوں مشکلات اور بیماریوں کے باوجود آپ ؑ نہایت صابر وشاکر رہے اوردن رات اللہ کا ذکر کرتے رہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام تیرہ برس تک مصائب کے امتحان میں مبتلا رہے ۔
آپ ؑ کا تمام مال ومتاع ختم ہوگیا تو آپ ؑ کی صالح بیوی اجرت پر لوگوں کا کام کر کے حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت کرتی رہیں ۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انہیں کوئی سخت بیماری لاحق تھی لیکن وہ کیا بیماری تھی ؟ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ علیہ السلام کی بیماری سے متعلق بہت سی روایتیں مشہور ہیں کہ آپ علیہ السلام کو ایسی بیماری تھی کہ لوگ آپ ؑ سے گھن کھانے لگے اور آپ ؑ کو کچرے میں بٹھادیا یہ تمام باتیں مستند نہیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نبیوں میں کوئی عیب یا بیماری پیدا نہیں فرماتے جس سے لوگ دور بھاگے ۔
شیطان آپ علیہ السلام کے صبر سے بہت حسد کرتا تھا بہت کوشش کے باوجود وہ آپ علیہ السلام کے صبر کو نہ تور سکا آخر ایک د وہ آپ ؑ کی بیوی کے پاس انسانی شکل میں آیا حکیم کے روپ میں اور کہا کہ کیا تم نہیں چاہتی کہ تمہارا مردصحت یاب ہوجائے میں اسے شفا دےسکتا ہوں ۔اگر کوئی پوچھے تو اسے کہنا کہ اسے میں ( حکیم ) نے شفا دی ہے ۔ بیوی نے یہ بات حضرت ایوب علیہ السلام کو بتائی ۔ آپ ؑ پریشان ہوگئے کہ شیطان ان کے گھر تک کیسے پہنچ گیا آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی کو ڈانٹا اور قسم کھائی جب میں صحت یاب ہوجاؤں گا تو تجھے سو کوڑے ماروں گا اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی :
وَاذْكُرْ عَبْدَنَآ اَيُّوْبَ ۘ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ 41ۭ (ص)
اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو، جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا کہ : شیطان مجھے دکھ اور آزار لگا گیا ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں التجا :۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
آپ ؑ کی بیماری میں تمام ملنے والے آپ ؑ کو چھوڑ گئے سوائے دو ساتھی کے۔
ایک مرتبہ وہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور ایک نے دوسرے سے کہا : توجانتا ہے کہ اللہ کی قسم ! شاید ایوب ؑ جیسا گناہ جہاں والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔
ساتھی نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ کہا : : دیکھو اتنے عرصے سے بیماری دور نہیں ہوئی اور اللہ نے رحم کیا اگر ایسی بات نہ ہوئی تو رب اس کی بیماریوں کودور فرمادیتا ۔ یہ بات جب حضرت ایوب علیہ السلام کو معلوم ہوئی توآپ ؑ ے اللہ سے دعا کی ۔
وَاَيُّوْبَ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ 83ښ
اور ایوب کو دیکھو ! جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ : مجھے یہ تکلیف لگ گئی ہے، اور تو سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
شفا یابی:
اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ ۚ ھٰذَا مُغْتَسلٌۢ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ 42
(ہم نے ان سے کہا) اپنا پاؤں زمین پر مارو، لو ! یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کے لیے بھی اور پینے کے لیے بھی۔
حضرت ایوب علیہ السلام کو حک خداوندی ہوا : اپنا پاؤ ں زمین پر مارو ۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی ۔ ایک چشمہ جاری ہوگیا جس میں انہوں نے غسل کیا تو جسم کی ظاہری بیماری دور ہوگئی اس کے بعد دوبارہ پاؤں زمین پر مارا دوسرا چشمہ ابل پڑا اور انہوں نے اس کا پانی پیا تو جسم کے اندر سے مرض دور ہوگیا اورآپ علیہ السلام مکمل صحت یاب ہوگئے ۔ آپ ؑ اللہ کا شکر بجالائے ۔ آپ علیہ السلام کی بیوی اس حالت میں دیکھ کر پہچان نہ سکی جب حقیقت آشکار ہوئی تو اللہ کا شکر بجالائیں ۔
انعامات ربانی :
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ 43
اور (اس طرح) ہم نے انہیں ان کے گھر والے بھی عطا کردیے۔ اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی۔ (٢٢) تاکہ ان پر ہماری رحمت ہو، اور عقل والوں کے لیے ایک یادگار نصیحت۔
امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت ایو ب علیہ السلام غسل فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سونے کی چند ٹڈیاں ان پر برسائیں ۔ایوب ؑ نے ان کو دیکھا تو مٹھی بھر کر کپڑے میں رکھنے لگے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب ؑکو پکارا : ایوب ! کیا ہم نے تم کو یہ سب دولت دے کر غنی بنادیا ؟ حضرت ایوب ؑ نے کہا : کیوں نہیں میرے پروردگار مگر تیری برکتوں سے کب کوئی بے پرواہ ہوسکتا ہے ۔ ( بخاری کتاب الانبیاء )
حضرت ایوب علیہ السلام نے ہرآزمائش پر صبر کیا اورصرف اللہ سے ثواب کی توقع رکھی تو اللہ نے ان کی تمام پریشانیوں کو دور کردیا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ مال ودولت اور اہل وعیال سے نواز دیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :اللہ نے ان کی بیوی کو وفاداری اورصبر کے صلے میں پہلے سے کہیں زیادہ جوانی عطا فرمائی یہاں تک کہ پھر ان سے حضرت ایوب علیہ السلام کے چھبیس لڑکے ہوئے ۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِكْرٰي لِلْعٰبِدِيْنَ 84
پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی، اور انہیں جو تکلیف لاحق تھی، اسے دور کردیا اور ان کو ان کے گھر والے بھی دیے، اور ان کے ساتھ اتنے ہی لوگ اور بھی تاکہ ہماری طرف سے رحمت کا مظاہرہ ہو، اور عبادت کرنے والوں کو ایک یادگار سبق ملے۔
قسم کا کفارہ:
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْــنَثْ ۭاِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ ۭ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ 44
اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ) اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لو، اور اس سے مار دو، اور اپنی قسم مت توڑو۔ (٢٣) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صبر کرنے والا پایا، وہ بہترین بندے تھے، واقعہ وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔
حضرت ایوب علیہ السلام نے بیماری کی حالت میں اپنی بیوی سے ناراض ہو کر قسم کھائی تھی کہ جب صحت یاب ہوجاؤں گا تو بیوی کو سو کوڑے ماروں گا ۔ جب اللہ نے آپ علیہ السلام کو صھے یابی عطا فرمائی تو آپ ؑ پریشان ہوئے کہ اتنی وفا شعار بیوی کی وفاداری کا یہ صلہ دینا مناسب نہیں ہے ۔ تب اللہ نے ان کے لیے آسانی کا راستہ کھول دیا اور قسم پورا کرنے کے لیے یہ ترکیب بتائی کہ ایک کھجور کا خوشہ لے لو جس میں سو شاخیں ہوں اور تمام کو اکھٹا مارو تویہ کوڑوں کا بدل ہوجائے گا ۔ اورقسم پوری ہوجائے گی ۔
بخار مصری یہ دعوی کرتےہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک سو سال پہلے تھا ( قصص الانبیاء ص 415)
آپ ؑ کی بیوی کا نام لیا بنت مسابن یعقوب علیہ السلام ہے ۔
وفات : سفر ایوب میں ہے :
“بعد ا س کے ایوب ایک سو چالیس برس جیا اور اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے بیٹے چار پشت تک دیکھے اور ایوب ؑ بوڑھاا ور درازعمر ہوکے مرگیا ” ( باب 42 آیات 16۔17)