حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراحؓ :تیسری قسط

حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراحؓ :تیسری قسط

تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

وفات

حضرت ابوعبیدہؓ کی زیرِقیادت سلطنتِ روم کے طول وعرض میں مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی پیش قدمی اورتاریخی فتوحات کایہ عظیم الشان سلسلہ زوروشورکے ساتھ جاری رہا،اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا۔آخرانہی دنوں ملکِ شام میں طاعون کی مہلک وباء پھیل گئی جسے تاریخ میں ’’طاعونِ عمواس‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے۔ کہاجاتاہے کہ اس طاعون کی ابتداء چونکہ بیت المقدس کے قریب’’عمواس‘‘نامی بستی سے ہوئی تھی ،لہٰذااسی مناسبت سے یہ ’’طاعون عمواس‘‘کے نام سے معروف ہوگیا،اس طاعون کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے وہاں موجوداسلامی لشکرمیں سے پچیس ہزارافرادلقمۂ اجل بن گئے،جن میں بہت اکثریت حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تھی،متعدداہلِ علم کے بقول رسول اللہﷺنے مختلف اوقات میں قربِ قیامت کی جومتعددعلامات بیان فرمائی،ان میں اس’’ طاعون عمواس‘‘ کاتذکرہ بھی ہے۔حدیث میں ہے : اُعدُد سِتّاً بَینَ یَدَي السَاعۃِ’’ قیامت سے قبل چھ چیزیں شمارکرنا۔‘‘ان چھ میں سے ایک یہ چیزبیان فرمائی: ثُم فَتحُ بَیتِ المَقدِس ، ثُمَ مَوتَانِ یَأخُذُ فِیکُم کَقُعَاصِ الغَنَم’’پھر فتحِ بیت المقدس ، پھرایک بیماری ظاہرہوگی جس کے نتیجے میں تم لوگ اس قدربڑے پیمانے پرموت کاشکارہوجاؤگے جس طرح بکریاں مہلک بیماری پھیل جانے کی وجہ سے نہایت سرعت کے ساتھ بڑی تعدادمیں مرجایاکرتی ہیں‘‘(صحیح بخاری)

چونکہ اسی حدیث میں اس علامت کوفتحِ بیت المقدس کے فوری بعدبیان کیاگیاہے لہٰذا متعدداہلِ علم کے بقول اس علامت سے یہی طاعون عمواس ہی مرادہے جوفتحِ بیت المقدس کے فوری بعدظاہرہواتھا۔

انہی دنوں ایک روزاچانک حضرت ابوعبیدہؓ کوخلیفۂ وقت حضرت عمربن خطابؓ کی طرف سے خط موصول ہوا، جس میں نہایت سختی کے ساتھ یہ تاکیدکی گئی تھی کہ ’’آپ فوراً میرے پاس یہاں مدینہ چلے آئیے،کیونکہ ایک بہت ہی ضروری معاملے میں آپ سے فوری مشورہ کرناچاہتاہوں۔‘‘اس خط میں یہ بھی لکھاتھاکہ’’میرایہ خط آپ کواگرصبح کے وقت موصول ہوتوشام سے پہلے روانہ ہوجائیے،اوراگرشام کے وقت موصول ہوتوصبح سے پہلے روانہ ہوجایئے۔‘

حضرت عمربن خطابؓ کی طرف سے تحریرکردہ اس خط کامضمون پڑھتے ہی فوری طورپرحضرت ابوعبیدہؓ سمجھ گئے کہ ’’نہ ہی کوئی ضروری کام درپیش ہے اورنہ کسی اہم معاملے میں کوئی مشاورت مقصودہے،بلکہ بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓمجھے اس مہلک طاعون سے بچاناچاہتے ہیں‘‘۔چنانچہ فوری طورپرجواب تحریرکیاکہ’’اے امیرالمؤمنین آپ کاحکم سرآنکھوں پرلیکن…آپ سے میری یہ گذارش ہے کہ مجھے میرے ساتھیوں اورسپاہیوں کے ساتھ یہیں رہنے کی اجازت دی جائے،میراجینامرنا انہی کے ساتھ ہے،باقی اللہ کی مرضی۔‘‘

مدینہ میں جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کوحضرت ابوعبیدہؓ کی طرف سے تحریرکردہ یہ مکتوب موصول ہواتواسے پڑ ھ کروہ بیساختہ رونے لگے،یہ منظردیکھ کردیگرصحابۂ کرام پریشان ہوگئے،اورحضرت عمرکی یہ کیفیت دیکھ کروہ سمجھے کہ شایداس خط میں حضرت ابوعبیدہؓ کے انتقال کی خبرہے،چنانچہ انہوں نے دریافت کیاکہ : ’’کیاابوعبیدہ کاانتقال ہوگیاہے؟‘‘ اس پرحضرت عمرؓ نے جواب دیاکہ ’’انتقال تونہیں ہوا،البتہ اب آثارکچھ ایسے ہی ہیں۔‘‘

اس کے بعدمختصرعرصہ ہی گذراتھاکہ حضرت ابوعبیدہؓ طاعون کی لپیٹ میں آگئے، چنددن موت وزیست کی کشمکش میں مبتلارہنے کے بعدبیت المقدس کے قریب’’بَیسان‘‘ نامی بستی میں سن اٹھارہ ہجری میں اٹھاون سال کی عمرمیں امین الامہ حضرت ابوعبیدہؓ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں۔(آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں