حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراحؓ :دوسری قسط
تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
حضرت ابوعبیدہؓ عہدِنبوی کے بعد
رسول اللہﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کاجاں گدازواقعہ جب پیش آیا،تب ہرطرف رنج والم کی کیفیت طاری تھی،فضاء انتہائی سوگوارتھی،ہرکوئی غم کے سمندرمیں ڈوباہواتھا،ہوش وحواس جواب دے رہے تھے۔اس نازک ترین صورتِ حال میں ایک اوربہت ہی نازک اورحساس ترین معاملہ یہ درپیش تھا کہ رسول اللہﷺ کا جانشین کون ہوگا؟اس بارے میں گفت وشنید کی غرض سے مسلمان بڑی تعدادمیں ’’سقیفۂ بنی ساعدہ‘‘نامی مقام پرجمع تھے،تبادلۂ خیال کاسلسلہ جاری تھا۔اسی دوران حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کومخاطب کرتے ہوئے اس نازک موقع پر ’’فتنہ وافتراق‘‘سے بچنے ، اوراتفاق واتحادکوبہرصورت قائم رکھنے کی اہمیت وضرورت کے بارے میں مختصرگفتگوکی ، اس کے بعدحضرت عمربن خطابؓ ،نیزحضرت ابوعبیدہ عامربن الجراحؓ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’یقینایہی دوحضرات رسول اللہﷺکی جانشینی کے قابل ہیں،لہٰذا میرامشورہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پرجلدازجلدبیعت کر لی جائے‘‘۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کی یہ بات سُن کرحضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا:’’ہم میں سے کس کادل اس بات کوگواراکرے گاکہ وہ شخص (حضرت ابوبکر صدیقؓ) جسے خودرسول اللہ ﷺنے ہماری امامت کیلئے منتخب فرمایاتھا،اس کے ہوتے ہوئے کسی اورکواس منصب کیلئے منتخب کیاجائے؟حضرت ابوعبیدہؓ کی زبانی یہ بات سنتے ہی حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اورپھرحضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ہاتھ پربیعت کی،اورپھررفتہ رفتہ دیگرتمام مسلمانوں نے بھی بیعت کی۔
اس واقعے سے جہاں حضرت ابوعبیدہؓ کاتواضع وانکسار ، اخلاص ،زہدوتقویٰ ، اورایثارظاہرہوتاہے،وہیں یہ بات بھی خوب واضح وثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ جیسے جلیل القدرانسان کی نظرمیں ان کی کتنی بڑی اہمیت اورقدرومنزلت تھی،یعنی حضرت ابوبکرؓ کی نظرمیں حضرت عمرؓ کی طرح حضرت ابوعبیدہؓ بھی رسول اللہﷺ کے اولین جانشین اورخلیفۃ المسلمین کے عظیم ترین منصب کیلئے نہایت مناسب اورموزون ترین شخصیت تھے۔
خلیفہ ٔ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دورِخلافت میں حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراحؓ کوہمیشہ ممتازومنفردمقام ومرتبہ حاصل رہا،انہیں ہمیشہ حضرت ابوبکرؓ کے قریبی ترین ساتھی اورمشیرِخاص کی حیثیت سے دیکھاجاتارہا۔
اُس دورمیں روئے زمین کی عظیم ترین قوت یعنی سلطنتِ روم کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف وقتاًفوقتاًجارحیت اوراشتعال انگیزی کاسلسلہ خودرسول اللہﷺکے زمانے سے ہی چلاآرہاتھا،جس کے نتیجے میں ’’غزوۂ مؤتہ‘‘اورپھرتاریخی اوریادگار’’غزوۂ تبوک‘‘کی نوبت آئی۔
رسول اللہﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے فوری بعدحضرت ابوبکرصدیقؓ نے جب اولین جانشین اورخلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالی تونازک ترین صورتِ حال اورہرطرف سے اُمڈتے ہوئے اندرونی وبیرونی خطرات کے باوجودسن بارہ اورسن تیرہ ہجری میں حضرت ابوبکرصدیقؓ نے مختلف اوقات میں مختلف افرادکی زیرِقیادت متعددلشکرسلطنتِ روم کی جانب روانہ کئے،اسی دوران ایک لشکرحضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی زیرِقیادت بھی روانہ کیاگیا۔
یہ تمام لشکرسلطنتِ روم(موجودہ ملکِ شام ، اردن ، فلسطین ، اورلبنان وغیرہ)کے مختلف علاقوں میں مختلف اطراف سے نہایت برق رفتاری کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے آخرباہم جاملے،تب حضرت ابوبکرصدیقؓ کے حکم پران تمام لشکروں کوحضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں یکجاکردیاگیا،تاکہ اب روئے زمین کی عظیم ترین قوت یعنی’’ سلطنتِ روم‘‘ کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جاسکے۔
چنانچہ حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کی زیرِقیادت مسلمانوں نے رومیوں کے خلاف بڑی یادگارجنگیں لڑیں،جن میں سب سے زیادہ تاریخی اورفیصلہ کن قسم کی جنگ’’یرموک‘‘تھی،جوسن تیرہ ہجری میں لڑی گئی،جومسلمانوں کے ہاتھوں سلطنتِ روم کے ہمیشہ کیلئے زوال کاپیش خیمہ ثابت ہوئی،جس سے ہمیشہ کیلئے دنیاکانقشہ ہی بدل گیا، اس تاریخی جنگ کے موقع پراسلامی لشکرچوبیس ہزارجبکہ رومیوں کالشکرایک لاکھ بیس ہزارسپاہیوں پرمشتمل تھا،مسلمان اپنے وطن سے دورجبکہ دشمن اپنے ہی وطن میں اوراپنی ہی سرزمین پرتھا۔
حضرت ابوعبیدہ ؓ بطور سپہ سالار
جنگِ یرموک سے کچھ قبل اُدھرمدینہ میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کاانتقال ہوگیا،جس پران کی وصیت کے مطابق خلافت کی ذمہ داریاں حضرت عمربن خطابؓ نے سنبھال لیں،جوکہ خودرسول اللہﷺاورپھرخلیفۂ اول کے دورمیں بھی مشاورت کے فرائض انجام دیتے چلے آرہے تھے،یہی وجہ تھی کہ تمام معاملات پران کی گہری نگاہ رہتی تھی اورنہایت باریک بینی سے تمام امورکاجائزہ لیاکرتے تھے۔ چنانچہ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعدملکی نظم ونسق سے متعلق متعدد امورمیں انہوں نے کچھ تبدیلیاں کیں،اسی ضمن میں ایک بڑی تبدیلی یہ کی کہ ملکِ شام میں رومیوں کے خلاف برسرِپیکاراسلامی لشکرکے سپہ سالارحضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کوان کے اس منصب سے معزول کرکے ان کی جگہ حضرت ابوعبیدہؓ کوسپہ سالارمقررکرنے کافیصلہ کیا۔
چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عمربن خطابؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کے نام خط تحریرکیا ،جس میں انہیں حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کی جگہ بطورِسپہ سالارذمہ داریاں سنبھالنے کی تاکیدکی۔جن دنوں حضرت عمربن خطابؓ کی طرف سے یہ خط حضرت ابوعبیدہؓ کوموصول ہوا،اُن دنوں مسلمان نہایت زوروشورکے ساتھ حضرت خالدؓ کی سپہ سالاری میں سلطنتِ روم کے خلاف انتہائی نازک اورفیصلہ کن جنگ’’یرموک‘‘کیلئے تیاریوں میں مشغول تھے، تیاری آخری مراحل میں تھی اورجذبات عروج پرتھے،لہٰذا خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ کی طرف سے یہ مکتوب ملنے کے بعدحضرت ابوعبیدہؓ بڑی کشمکش میں مبتلا ہوگئے، کیونکہ ایسے نازک موقع پرسپہ سالارِاعلیٰ کی تبدیلی سے متعلق اس حکم کی تعمیل یہ اتنابڑااقدام، لشکرمیں اتنی بڑی تبدیلی فی الحال کسی طرح مناسب نہیں تھی، کیونکہ اس طرح اسلامی لشکرمیں باہم اختلاف وافتراق اوررنجش و تلخی پیداہوسکتی تھی اور اس نازک موقع پریہ معاملہ مسلمان سپاہیوں کیلئے حوصلہ شکنی اورپست ہمتی کاسبب بن سکتاتھا۔
چنانچہ اس صورتِ حال کومدِنظررکھتے ہوئے حضرت ابوعبیدہؓ نے خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطابؓ کی طرف سے موصول شدہ اس مکتوب اوراس کے مضمون کے بارے میں مکمل خاموشی اختیارکی،اوراس معاملے کواس جنگِ یرموک کے بعدتک ملتوی کرنے کافیصلہ فرمایا۔
چنانچہ جنگِ یرموک کاجب اختتام ہوا اوریہ نازک ترین مرحلہ بخیروخوبی طے کرلیاگیا، تب ایک روزحضرت ابوعبیدہؓ نے اس بارے میں نہایت ادب اورمحبت کے ساتھ حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کواطلاع دی،اس پرحضرت خالدؓ نے جواب میں نہایت عزت واحترام کے ساتھ انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا: یَرحَمُکَ اللّہُ یَا أبَا عُبَیدَۃ ، مَا مَنَعَکَ أن تُخْبِرَنِي حِینَ جَائَ کَ ھٰذَا الکِتَابُ؟ ’’ابوعبیدہ! اللہ آپ پررحم فرمائے،آپ کوجب یہ خط موصول ہواتھا اُسی وقت آپ نے مجھے اس بارے میں مطلع کیوں نہیں فرمادیا؟‘‘ ابوعبیدہؓ نے فرمایا: اِنِّي کَرِھْتُ أن أَکسِرَ عَلَیکَ حَربَکَ’’مجھے یہ بات گوارانہیں تھی کہ میں آپ کواس بارے میں مطلع کرکے آپ کی جنگی تیاریوں کی راہ میں کسی پریشانی کاسبب بنوں‘‘۔
پھرمزیدفرمایا: وَمَا سُلْطَانَ الدُّنیَا نُرِید ، وَلَا لِلدُّنیَا نَعْمَل ، وَکُلُّنَا فِي اللّہِ اِخْوَۃ’’ہمیں کسی دنیاوی شان وشوکت کاکوئی لالچ نہیں ہے،اورنہ ہی یہ دنیاہمارامطلوب ومقصودہے،ہم سب توبس اللہ کی راہ میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔حضرت خالدبن ولیدؓ نے تمام لشکرکومطلع کیاکہ ’’ اب ابوعبیدہ ہمارے نئے سپہ سالارہیں‘‘۔
نیزاس موقع پرابوعبیدہؓ کے ساتھ اپنی عقیدت ومحبت اوروفاداری کے اظہارکے طورپرمزیدیہ الفاظ بھی کہے : اِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّہِ ﷺ یَقُول : أَمِینُ ھٰذِہِ الأُمَّۃِ أبُوعُبَیْدَۃ ۔’’میں نے رسول اللہﷺکویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے کہ’’اس اُمت کے خاص امین ابوعبیدہ ہیں‘‘۔اس پرحضرت ابوعبیدہؓ یوں گویاہوئے: وَاِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّہِ ﷺ یَقُول: خَالِدُ بنُ الوَلِیدِ سَیفٌ مِن سُیوفِ اللّہ’’میں نے رسول اللہ ﷺکویوں ارشادفرماتے ہوئے سناہے کہ ’’خالدبن ولیدتواللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوارہیں‘‘۔
چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ کی زیرِقیادت سلطنتِ روم کے خلاف مسلسل پیش قدمی اورفتوحات کایہ سلسلہ جاری رہا،حتیٰ کہ سن پندرہ ہجری میں انہی کی سپہ سالاری میں ’’دمشق‘‘فتح ہوا،اورپھر’’فتحِ بیت المقدس‘‘کاانتہائی یادگاراورعظیم الشان واقعہ پیش آیا۔
اس یادگاراورتاریخی موقع پرجب رومیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں رومیوں کی طرف سے بیت المقدس کی چابی مسلمانوں کے حوالے کی جانی تھی، تب خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ نے مدینہ میں حضرت علی ؓ کواپنانائب مقررفرمایااورخودمدینہ سے طویل سفرطے کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے تھے۔
اُس وقت حضرت ابوعبیدہؓ تمام اسلامی لشکرکے سپہ سالارِاعلیٰ تھے،بلکہ اُن دنوں انہیں ’’اَمیرالاُمراء‘‘کے لقب سے بھی یادکیاجاتاتھا،کیونکہ مختلف علاقوں میں بڑی تعدادمیں موجوداسلامی لشکروں کے سپہ سالارانہی کی زیرِنگرانی فرائض انجام دے رہے تھے، نیزیہ کہ سلطنتِ روم کے اس قدروسیع وعریض مفتوحہ علاقوں میں انہی کاحکم چل رہاتھا،رومیوں کے چھوڑے ہوئے تمام خزانے انہی کے قدموں میں تھے۔
لیکن اس کے باوجودخلیفۂ وقت امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطابؓ جب مدینہ منورہ سے بیت المقدس تشریف لائے اوروہاں انہوں نے اپنی طرف سے مقررفرمودہ سپہ سالارِاعلیٰ حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کااس قدرسیدھاسادھاطرزِزندگی دیکھا، توبہت زیادہ متأثرہوئے،اورانہیں مخاطب کرتے ہوئے بیساختہ یہ الفاظ کہے : غَیَّرتْنَا الدُّنیَا کُلَّنَا غَیرَکَ یَا أبَا عُبَیدَۃ‘‘اے ابوعبیدہ ! اس دنیاوی خوشحالی وفراوانی نے ہم سب ہی کوبدل کررکھ دیاہےسوائے آپ کے۔‘‘
خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطابؓ توپہلے ہی اپنے پرانے ساتھی ابوعبیدہؓ کی شخصیت سے بہت زیادہ متأثرتھے، بیت المقدس سے واپسی کے بعد مزیدمتأثرہوگئے،چنانچہ اب وہ مدینہ میں بسااوقات ان کاذکرِخیرکیاکرتے تھے۔ حضرت عمربن خطابؓ حضرت ابوعبیدہؓ سے کس قدرمتأثرتھے ،اس کااندازہ اس واقعے سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ حضرت عمرؓ جب قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوگئے ،بچنے کی امیدکم تھی،تب اکابرِصحابہ میں سے متعددشخصیات نے یہ اصرارکیاتھاکہ ’’اے امیرالمؤمنین آپ اپناکوئی جانشین مقرر کردیجئے‘‘اس پرحضرت عمرؓ نے فوری جواب یہ دیاتھاکہ: لو کان أباعبیدۃ حیّاً لاستخلفتہ ’’آج اگر ابوعبیدہ بقیدِ حیات ہوتے تومیں بس انہی کواپناجانشین مقررکرتا۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔)