حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ:دوسری قسط

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ:دوسری قسط

تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

’’بدر‘‘اور’’اُحد‘‘کے بعدبھی رسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت شریک رہے ،بلکہ پیش پیش رہے ،اورشجاعت وجرأت کے خوب جوہردکھاتے رہے۔

سن چھ ہجری میں رسول اللہﷺ نے ’’دُومۃ الجندل‘‘کی جانب لشکرکی روانگی کے وقت حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کواس لشکرکا سپہ سالارمقررفرمایا،اس موقع پرآپؐ نے نہایت شفقت ومحبت کے ساتھ خوداپنے دستِ مبارک سے ان کے سرپرعمامہ باندھا، اورپھردعائے خیروبرکت کے ساتھ انہیں روانہ فرمایا۔

’’دومۃ الجندل‘‘ مدینہ منورہ سے شمال کی جانب تقریباً چھ سوکلومیٹرکے فاصلے پرسعودی عرب کے موجودہ شہر’’الجوف‘‘کے قریب واقع ہے۔ عہدِنبوی میں اس علاقے کی جانب متعددبارلشکررانہ کئے گئے تھے،جن میں سے ایک موقع پر(سن پانچ ہجری میں) خودرسول اللہﷺبھی شریک تھے ، جبکہ اس کے بعدسن چھ ہجری میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی سپہ سالاری میں دوبارہ لشکرروانہ کیاگیاتھا۔

دینِ اسلام کی سربلندی کی خاطرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روزِاول سے ہی قدم قدم پرمصائب وآلام کاخندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے،ہجرتِ حبشہ ہویاہجرتِ مدینہ،مشرکین ومخالفین کے خلاف غزوات ہوں یاکوئی بھی موقع ہو،ہرموقع پراورہرآزمائش میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ بے مثال استقامت اورجرأت وشجاعت کامظاہرہ کرتے رہے،آزمائش کی ہرگھڑی میں بڑی سے بڑی سے قربانی دینے کیلئے ہمہ وقت آمادہ وتیاررہے۔

جس طرح مختلف غزوات کے موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ پیش پیش رہے اورجسمانی طورپرتکالیف اورہرقسم کی صعوبتیں ومشقتیں برداشت کرتے رہے،اس سے بڑھ کرقابلِ ذکر ،اِن کی وہ قربانیاں اورخدمات ہیں جوہمیشہ ہرموقع پریہ اپنے ’’مال ودولت‘‘کے ذریعے انجام دیتے رہے،رسول اللہﷺنے ان کیلئے جودعائے خیروبرکت فرمائی تھی،اس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے بڑی سرعت کے ساتھ ان کے مال میں خیروبرکت کے آثارخوب نظرآنے لگے تھے، خوب فراوانی اورخوشحالی تھی، اللہ کے دئیے ہوئے اس مال میں سے عبدالرحمن بن عوفؓ ہمیشہ اللہ کے بندوں کی فلاح وبہبودکی خاطر،اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر،خصوصاًمختلف غزوات کے موقع پرخوب دل کھول کر،اوربڑی ہی سخاوت وفیاضی کے ساتھ مال ودولت خرچ کرتے رہےاوریوں راہِ حق میں جسمانی قربانیوں کے ساتھ ساتھ مالی قربانیوں کی بھی ایک طویل داستان رقم کرگئے۔

خصوصاًسن ۹ہجری میں پیش آنے والے تاریخی غزوۂ تبوک کے موقع پرجب قحط کازمانہ چل رہاتھا،مال واسباب ، اسلحہ ، خوارک ، غرضیکہ ہرلحاظ سے بڑی تنگی وعسرت کاسامناتھا، اس موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓنے دوسواُوقیہ خالص سونابطورِتعاون پیش کیاتھا،پھریہ لشکر رسول اللہﷺکی زیرِقیادت مدینہ سے اپنی منزلِ مقصودیعنی ’’تبوک‘‘ کی جانب رواں دواں ہوگیا،یطویل ترین مسافت طے کرنے بعدجب یہ لشکرتبوک پہنچا تو وہاں ایک اوربہت بڑی فضیلت وسعادت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی منتظرتھی۔

ہوایہ کہ ایک روزجب فجرکی نمازکاوقت ہوچکاتھا،رسول اللہﷺ قضائے حاجت کی غرض سے کچھ دورتشریف لے گئے تھے،جبکہ اسلامی لشکرمیں موجودسب ہی افرادوہاں نماز باجماعت کی غرض سے موجودتھے،ایسے میں یہ اندیشہ پیداہونے لگاکہ کہیں نمازِفجرکاوقت نہ نکل جائے،اب سب ہی لوگ تشویش میں مبتلاہوگئے، کچھ لوگوں نے اصرارکیاکہ ہمیں نمازقضاء نہیں کرنی چاہئے، رسول اللہﷺکوشایدکسی وجہ سے تاخیرہوگئی ہے،اگرآپﷺ کواس بات کاعلم ہوگاکہ ہم سب نے محض آپﷺ کے انتظارمیں نمازقضاء کردی ہے ،تویقیناآپﷺ ناراض ہوں گے، لہٰذاہمیں نمازپڑھ لینی چاہئے۔جبکہ دیگرکچھ لوگوں کااصراریہ تھا کہ ہمیں بہرصورت رسول اللہﷺکاانتظارکرناچاہئے۔

یہی صورتِ حال جاری تھی کہ اس دوران کچھ لوگوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے امامت کیلئے خوب اصرار کیا،اورپھرتقریباًزبردستی انہیں امامت کیلئے آگے بڑھادیا، جس پرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازباجماعت کا آغازہوا،اسی دوران رسول اللہﷺبھی تشریف لے آئے،اور آپﷺ نے دیگرتمام افرادکی طرح عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں ہی اُس روزنمازِفجراداکی،اوریوں اس تاریخی ’’غزوۂ تبوک‘‘کے موقع پریہ اتنی بڑی سعات بھی ان کے حصے میں آئی۔

رسول اللہﷺکے مبارک دورمیں ہمیشہ ہی آپﷺ کے ساتھ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کایہ تعلقِ خاطر ،یہ محبتیں اورقربتیں اسی طرح برقراررہیں اوراسی کیفیت میں شب وروزکایہ سفرجاری رہا۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد

رسول اللہﷺکے مبارک دورمیں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ نہایت ذوق وشوق اوراہتمام والتزام کے ساتھ آپﷺ کی خدمت میں حاضری ، خدمت گذاری ، علمی استفادہ ، اورکسب ِفیض میں مشغول ومنہمک رہے،اسی طرح رسول اللہﷺ کی طرف سے بھی ان کیلئے محبتوں اورعنایتوں کامبارک سلسلہ ہمیشہ جاری رہا،آپﷺ تادمِ آخران سے انتہائی مسرورومطمئن رہے،یہاں تک کہ اسی کیفیت میں رسول اللہﷺکامبارک زمانہ گذرگیا۔

عہدِنبوی کے بعداب خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بھی انہیں دینی ، علمی ، معاشرتی ، سیاسی ، غرضیکہ ہرحیثیت سے بڑی اہمیت حاصل رہی اورانہیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے خاص دوست ، قریبی ساتھی ، اورمشیرِخاص کی حیثیت سے دیکھاجاتارہا۔

پھرخلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بھی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی یہی حیثیت اورممتازومنفردمقام ومرتبہ برقراررہا، یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ جب نمازِفجرکی امامت کے دوران قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوگئے تھے،تب انہوں نے فوری طورپرنمازمکمل کرنے کی غرض سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو اپنی جگہ آگے بڑھادیاتھا۔

اس موقع پرحضرت عمررضی اللہ عنہ کومسجدسے گھرمنتقل کئے جانے کے بعد ،اُن کی نازک حالت کے پیشِ نظر ، اکابرِصحابہ میں سے متعددشخصیات نے جب یہ اصرارکیاتھاکہ ’’اے امیرالمؤمنین آپ اپناکوئی جانشین مقررکردیجئے‘‘تب آپؓ نے جن چھ افرادکے نام گنواتے ہوئے یہ تاکیدکی تھی کہ یہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں،ان چھ افرادمیں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی شامل تھے۔اوران چھ جلیل القدرشخصیات پرمشتمل اس ’’مجلسِ ِ شوریٰ‘‘کی سربراہی کیلئے حضرت عمرؓ نے ان میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ہی منتخب کیاتھا۔

حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی وہی کیفیت اوروہی معمولات جاری رہے کہ دینِ اسلام اورمسلمانوں کی دینی وعلمی ، سماجی ، اوربالخصوص مالی خدمات کے معاملے میں ہمیشہ پیش پیش رہے،زمانۂ جنگ کے موقع پراسلامی لشکرکی تیاری کیلئے گراں قدرعطیات پیش کیاکرتے،زمانۂ امن اورعام حالات میں عام مسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے انتہائی سخاوت وفیاضی،انسان دوستی، اوردریادلی کامظاہرہ کیاکرتے۔

ایک ایساوقت بھی آیاکہ جب یہ بات تمام لوگوں میں ضرب المثل بن گئی کہ مدینہ شہرمیں ہرکسی انسان کاضرورکسی نہ کسی شکل میں عبدالرحمن بن عوفؓ کے مال کے ساتھ تعلق ہے ،کیونکہ ان کایہ معمول تھاکہ مدینہ شہرمیں جوخوشحال اورصاحبِ حیثیت افرادتھے ،ان کیلئے یہ وقتاًفوقتاً خیرسگالی اورباہمی اخوت ومحبت کے اظہارکے طورپرہدایاوتحائف روانہ کیا کرتے، ضرورت مندوں کوروپیہ پیسہ بطورِقرض دیاکرتے،جوناداراورمفلس قسم کے لوگ تھے ، بڑے پیمانے پرصدقات وخیرات کے ذریعے ہمیشہ ان کی مددواعانت کیاکرتے تھے،الغرض اُس دورمیں مدینہ شہرمیں آبادہرشخص کاعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مال ودولت کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں تعلق ضرورتھا۔

(جاری ہے۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں