سوال : جن لوگوں کی آمدنی حرام یا مشکوک ہو تو ان سے ہدیہ وغیرہ لینا بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کی وجہ سے،کیا ایسا ہدیہ قبول کرنا درست ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
کسی شخص کی آمدنی ساری کی ساری حرام ہو،اس کی کوئی جائز آمدنی نہ ہو،اس سے معاوضے یا ہدیے میں حرام پیسے لینا جائز نہیں،البتہ اگر کسی کی آمدنی حلال و حرام سے مخلوط ہو یا مشکوک ہو اور ہدیہ یا معاوضہ لینے والے کو اس ہدیے یا معاوضے کا حرام آمدنی سے ہونے کا یقین نہ ہو تو اس صورت میں ہدیہ و معاوضہ لینے کی گنجائش ہوگی۔
_________
حوالہ جات:
1۔۔۔ اهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بانه حرام ،فان كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية ،ولا ياكل الطعام.
(فتاوى الهندية ،كتاب الكراهية:342/5)
2…رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل وياكل من طعامه ما لم يخبر أن ذالك المال حلال استقرضه أو ورثه ،وان كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذالك من الحرام؛وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره،فيعتبر الغالب ويبني الحكم عليه.
(المحیط البرھانی:230/5)
3…اشتهر على الألسن أن حكم التعامل مع من كان ماله مخلوطاً بالحلال والحرام أنه إن كان الحلال فيها أكثر جاز التعامل معه بقبول هديته وتعاقد البيع والشراء معه،وبذالك صدرت بعض الفتاوى،ولكن ما يتحقق بعد سبر كلام الفقهاء الحنفية فى هذا الموضوع أن اعتبار الغلبة انما هو فيما إذا كان الحلال متميزاً عن الحرام عند صاحبه،ولا يعلم المتعامل معه أن ما يعطيه من الحلال أو من الحرام فحينىٔذ تعتبر الغلبة،بمعنى أنه إن كان اكثر ماله حلالا يفرض أن ما يعطيه من الحلال والعكس بالعكس.
(فقه البيوع :1032)
4…مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:جس کا غالب مال حلال ہے اس کے مال میں سے لے لینا درست ہے،اور جس کا غالب مال حرام ہے اس میں سے لینا نا درست ہے اور جس مال جس قدر حلال ہے اسی قدر حرام بھی ہے اس کا مال نہ لینا چاہیے مگر یہ سب اس وقت تک ہے کہ جب خاص اس شے کا حال معلوم ہو جو اس نے دی ہے اور اگر جو شے اس نے دی ہے وہ معلوم ہو کہ مال حرام سے ہے تو اس کا لینا کسی حال بھی درست نہیں ہے اگرچہ دہندہ کا اور سب مال حلال کمائی کا ہو۔
(فتاوی رشیدیہ :611)
واللّٰه أعلم بالصواب
10شعبان 1443ھ
14 مارچ 2022ء