خوشی ایسی نعمت ہے جس کی آرزو سبھی کو ہے۔ یہ حقیقت ہے جس شخص کے پاس خوشی نہیں اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ جب دل خود غرضی سے اور دوسرے گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے تو دل میں حقیقی خوشی بسیرا کر لیتی ہے۔ کیوں کہ پاک و صاف دل کے مالک ہی حقیقی مسرت کی دولت سے مالا مال ہو کر خوش و خرم زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ حقیقی خوشی کیسے حاصل کی جائے؟
آئیے! ان باتوں کو نکتہ وار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
1 مایوسی کو مات دیجیے
آپ نے مایوسی سے نپٹنا ہو گا۔ اگر آپ نے کامیابی اور خوشی والی زندگی گزارنی ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں وہ سب کچھ حاصل کروں جو میں چاہتا ہوں۔ آپ نے یہ سیکھنا ہے کہ مایوسی سے کس طرح نپٹنا ہے؟ ورنہ مایوسی اور ناامیدی آپ کے تمام خواب کو چکنا چور کر سکتی ہے۔ مایوسی آپ کو خوشیوں کے چمن سے دور، غموں کے دریا میں گرا سکتی ہے۔ آپ کی مثبت سوچ منفی اپروچ میں تبدیل کر سکتی ہے۔ عقل مند لوگوں کا کہنا ہے: ’’مایوسی سے صحت گرتی ہے اور قوت عمل کم ہو جاتی ہے۔‘‘ مایوسی اور نا امیدی انسان کی سب سے بڑی دشمن اور اللہ کا عذاب ہے۔ اس لیے آپ کو باخبر ہونا چاہیے۔ نہ گرنا کمال نہیں کمال یہ ہے کہ تم گرو اور پھر فوراً اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ۔
2 ’’نہ‘‘ سننے کا حوصلہ پیدا کیجیے
آپ نے ’’نہ‘‘ سننے کا خوف و ڈر دل سے نکالنا ہو گا۔ بہت سے تاجر محض اس وجہ سے ترقی و خوشحالی نہیں پاتے کہ اگر ہم نے آگے بڑھنے، کسی کام کے لیے apply کرنے یا کسی سے ڈیل کرنے کی کوشش کی کئی دفعہ ہمیں ’’نہ‘‘ سننا پڑے گی۔ ہمیں مسترد کیا جائے گا۔ مگر خوش رہنے کے لیے اس ’’نہ‘‘ کا خوف دل سے نکالنا ہو گا۔ آپ نے جس کام کا ارادہ کیا ہے اسے ادھورا نہ چھوڑیں، بلکہ ہمت کے ساتھ میدان میں اتریں اور کام پورا کر کے سکون کا سانس لیں۔ یہ ’’نہ‘‘ سننا ہمارے لیے مفید ہے۔ اس طرح سوچنے کا موقع مل جاتاہے۔ آخر کیا وجہ ہے جو مجھے سلیکٹ نہیں کیا جاتا؟ میرے ساتھ دوسرے کمپنیوں والے ڈیل کرنے کے لیے تیار نہیں؟ مسلسل غور سے ضرور آپ کو اس کی کوئی وجہ ملے گی۔ اگر وہ منفی ہوتوآپ اسے ختم کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر مثبت ہو تو اسے اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
3 بچت ناگزیر ہے
آپ نے مالی دباؤ سے نپٹنا سیکھنا ہو گا۔ یہی مالی دباؤ ہے جس نے بڑے بڑے تاجروں کو نفسیاتی الجھنوں کا شکار کر دیا۔ مالی دباؤ جہاں دوسری قباحتوں کو جنم دینے کاسبب بنتا ہے وہیں یہ آپ کو دوستوں سے بھی جدا کر دیتا ہے۔ آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اگر آپ نے مالی دباؤ سے نکلنے کا طریقہ سیکھ لیا تو اپنے آپ کو خوش محسوس کریں گے، لہذا مزید انتظار نہ کریں، بلکہ ابھی سے آپ نے یہ سوچنا ہے کہ میرے پاس ضرورت سے زیادہ رقم ہے۔ یہ سوچ ایک بڑی قوت ہے۔ اس کے بعد آپ نے 10 فیصد سرمایہ بچا کر رکھنا ہے، اسے خرچ نہیں کرنابلکہ غریب اور ضرورت مندوں کی نذر کرنا ہے۔ اس طرح آپ اپنی آخرت کے لیے نیکی کا بیج بوئیں گے۔ اس کے بعد 10 فیصد اپنے قرضوں میں کمی کرنے کے لیے وقف کریں، تاکہ بوقت ضرورت آپ اس رقم سے قرض کی ادائیگی کر سکیں۔ تیسرا 10 فیصد حصہ کسی نفع بخش کام میں سرمایہ کاری کے لیے مخصوص کریں۔ اس طرح آپ اپنی آمدنی کیے 70 فیصد پر گزارا کر سکیں گے۔ جب آپ اس طرح کریں گے تو ان شاء اللہ کامیابی اور خوشی کے ساتھ آپ کی زندگی بسر ہو گی۔
4 جذباتیت نہیں ٹھہراؤ
اطمینان کے ساتھ کام کو جاری رکھنا سیکھیے۔ یعنی اپنے کاروبار کے ساتھ مستقل جمے رہیے۔ یہ نہ سوچیں کہ بس میں کامیاب ہو گیا،ا ب آرام کرنا چاہیے۔ حالانکہ ضرورت سے زیادہ آرام طلبی ایک تباہ کن فعل ہے۔ آپ کبھی ضرورت سے زیادہ آرام طلبی کا شکار نہ ہوں۔ آپ نے اطمینان کے ساتھ کام جاری رکھنا ہے کیوں کہ شاہراہ ترقی و کامیابی کبھی ختم نہیں ہوتی۔
5 سخاوت کی عادت
آپ جو کچھ وصول کرنے کی تمنا کرتے ہیں، اس سے زیادہ عطا کریں۔ یہ سب سے اہم کلید ہے۔ کیوں کہ عطا کرنا ہی خوشی کی ضامن ہے۔ اگر آپ نے خوشی والی زندگی حاصل کرنا ہے تو آپ نے عطا کرنے سے آغاز کرنا ہو گا۔ بانٹنے سے خوشی اس طرح بڑھتی ہے، جس طرح زمین میں کاشت کیا ہوا بیج۔ جو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ نیکی کا کام کرنے سے یقینی خوشی حاصل ہوتی ہے۔
بہت سے تاجر وصول کرنے کمانے کا سوچ رہے ہیں حالانکہ وصول کرنا عطا کرنے کے بجائے زیادہ آسان ہے۔ سخاوت اور صدقہ فطرتاً مشکل ہوتا ہے مگر اس کے فوائد بے حد و حساب ہیں۔ آپ ایک مسلمان تاجر ہیں۔ جہاں آپ کا مقصد رزقِ حلال کمانا ہے وہیں آپ نے معاشرے میں ضرورت مندوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جس کی ٹہنیاں جنت سے باہر جھکی ہوئی ہیں، پس جو شخص اس کی کوئی شاخ پکڑ لیتا ہے تو وہ شاخ آدمی کو جنت سے باہر رہنے نہیں دیتی اٹھا کر اندر لے جاتی ہے اور کنجوسی جہنم میں ایک درخت ہے جس کی شاخیں دوزخ سے باہر ہیں پس جو شخص اس کی شاخ پکڑ لیتا ہے وہ شاخ اس آدمی کو پکڑ کر جہنم میں لے جائے بغیر نہیں چھوڑتی۔‘‘ (بیہقی)