“شہادتِ حسین رضی اللّٰہ عنہ لمحہ بہ لمحہ”
ہانی بن عروہ کی گرفتاری
اب جبکہ”ابن زیاد” پر پوری طرح راز فاش ہو گیا کہ”ہانی بن عروہ” نے ” مسلم بن عقیل” کو پناہ دے رکھی ہے تو”اس” نے اپنے دربار میں انھیں بلانے کے لئے حیلہ کیا اور کہا ” کیا بات ہے کہ بہت دنوں سے”ہانی بن عروہ”ہم سے نہیں ملے- لوگوں نے بیماری کا عزر بتایا٫مگر “مخبر”لنکا ڈھا چکا تھا- اس لئے”ابنِ زیاد” نے کہا وہ صحتیاب ہو چکے ہیں٫ گھر کے دروازے پر پہرے پر بیٹھے رہتے ہیں٫ آپ لوگ جاؤ اور ان کو سمجھاؤ کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ہمارے پاس آجائیں-
یہ لوگ”ہانی بن عروہ” کے پاس پہنچے٫ حالات کی نزاکت بتا کر ساتھ چلنے ہر مجبور کیا-
جب”وہ”قصر امارت” پہنچے تو ان کو چھٹی حس نے خبردار کیا”کہ آج میرے لئے خیر نہیں ہے٫-
یہ لوگ” ہانی بن عروہ” کوساتھ لے کر”قصر امارت” میں داخل ہوئے تو “ابنِ زیاد” نے قاضیء کوفہ”شریح سے کہاکہ”ایک خائن کو خود چل کر یہاں آنا پڑا”جب اور قریب پہنچے تو”ابنِ زیاد” نے شعر پڑھا-
“ارید حیاتہ و یرید قتلی”
یعنی میں تو اس کی زندگی چاہتا ہوں اور وہ میرے قتل کے درپے ہے-
ہانی نے کہا یہ کیا بات ہے٫ “ابنِ زیاد” نے کہا” کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سازشوں سے بے خبر ہیں ٫جو”امیر المومنین”کے خلاف آپ کے گھر میں ہو رہی ہیں-“آپ” نے”مسلم بن عقیل” کو اپنے گھر میں ٹہرایا ہوا ہے٫اور”ان کے واسطے” اسلحہ اور رضا کار جمع کر رہے ہیں-
ہانی نے انکار کیا تو “ابن زیاد”نے اپنے”مخبر” کو سامنے کر دیا جس کے ذریعے صحیح خبریں پہنچی تھیں-یہ ماجرا دیکھ کر” ہانی”ششدر رہ گئے٫مگر پھر سنبھل کر بولے”میری بات سنئے!اور اس کو سچ بھی مانئے٫ واللہ! میں”آپ” سے جھوٹ نہیں بولوں گا-
“واقعہ یہ ہے کہ”واللہ! نہ میں نے”مسلم بن عقیل”کو بلایا اور نہ مجھے “ان کے”معاملات” کی خبر تھی-اچانک”ان کو”اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھا ہوا دیکھا٫ “انہوں نے” مجھ سے” پناہ” کی درخواست کی اور میں انکار نہ کر سکا-
اب اگر”آپ”مجھے اجازت دیں تو میں اپنے گھر جا کر” ان کو”اپنے گھر سے نکال دوں٫ اور”آپ “کے پاس آجاؤں-“ابن زیاد” نے کہا”نہیں”آپ”اس وقت تک نہیں جاسکتے جب تک “اپنے مہمان” کو ہمارے حوالے نہ کردیں-“ہانی” نے کہا”میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کہ اپنے مہمان کو “تمہارے” سپرد کردوں تاکہ تم اسے قتل کردو-
“مسلم بن عمر باہلی” نے “ابن زیاد”کی اجازت سے “ہانی بن عروہ” کو سمجھاتے ہوئے کہا”کیوں اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں “مسلم بن عقیل” کو ان کے سپرد کر دیں٫یہ سب لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیں٫ایک دوسرے سے خود نمٹ لیں گے-
نہ قتل کرینگے نہ کوئ نقصان پہنچائیں گے- اس طرح نہ”آپ”کی رسوائی ہوگی اور نہ عار-
“ہانی بن عروہ” نے کہا “اس سے زیادہ کیا رسوائی ہو سکتی ہے کہ٫ “میں”اپنے مہمان کو”اس کے” دشمن کے حوالے کر دوں- واللہ! اگر کوئ میرا “یارو مددگار نہ بھی ہو تو بھی جب تک میں زندہ ہوں “اپنے مہمان” کو”اس کے”سپرد نہیں کروں گا-
“ہانی بن عروہ”پر مار پیٹ اور تشدد”
جب”ہانی” کی یہ پختگی دیکھی تو” ابنِ زیاد”اور اس کے”مصاحب خاص “مہران” نے”ہانی بن عروہ” کے بال پکڑ کر”ان کو” مارنا شروع کیا- یہاں تک کہ”ان کے،”ناک اور منہ” سے خون بہنے لگا-“ابنِ زیاد”( ملعون) نے کہا کہ اب بھی” مسلم” کو ہمارے حوالے کردو- ورنہ تمہیں قتل کر دیں گے-
“ہانی بن عروہ” نے کہا “میرا” قتل کر دینا “تجھے” مشکل میں ڈال دیگا-“اسماء بن خارجہ” جو” ہانی” کو”انکے گھر سے بلا کر لائے تھے٫اور ان کو اطمینان دلایا تھا کہ “آپ”کوئ فکر نہ کریں٫ “وہ”اس وقت کھڑے ہوئے اور سختی سے”ابنِ زیاد” سے کہاکہ”اے غدار! تو نے ہمیں “ایک شخص” کو لانے کے لیے کہا٫جب ہم اسے لے آئے تو تو نے “ان کا یہ حال کر دیا٫ اس پر “ابنِ زیاد” نے ہاتھ روکا-
ادھر شہر میں یہ مشہور ہو گیا کہ”ہانی بن عروہ” قتل کر دیئے گئے اور جب یہ خبر” قبیلہء مذجج” پہنچی تو”عمرو بن حجاج”قبیلے” کے بہت سے نوجوانوں کو ساتھ لیکر “قصر امارت” پہنچا اور “ابن زیاد” کے” محل” کا محاصرہ کر لیا-
اب تو”ابن زیاد” کو فکر پڑ گئی٫قاضی شریح”سے کہا کہ”آپ” جا کر لوگوں کو بتلائیں کہ”ہانی بن عروہ” زندہ ہیں قتل نہیں کئے گئے٫ میں خود ان کو دیکھ کے آیا ہوں-“قاضی شریح”کی بات سن کر “عمرو بن حجاج” اپنے ساتھیوں کو لے کر چلا گیا-
“ہانی بن عروہ” کی شہادت کی خبر سن کر اور “قبیلہء مذجج” کے ہنگامہ اور”ابن زیاد” کے “قصر” کے محاصرے کی اطلاع جب”مسلم بن عقیل”کو پہنچی تو وہ بھی مقابلے کے لئے تیار ہوکر نکلے اور ان”1800″مسلمانوں کو جمع کیا جنھوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی٫ یہ لشکر جب”قصر امارت” کی طرف بڑھا تو”ابنِ زیاد”نے”قصر کے دروازوں کو مقفل کر دیا٫”مسلم” اور ان کے ساتھیوں نے قصر کا محاصرہ کر لیا-
ادھر”ابنِ زیاد”کے ساتھ”قصر امارت” میں صرف “30”سپاہی اور کچھ خاندان کے سادات تھے-
“ابن زیاد” نے ان لوگوں میں سے چند ایسے لوگ منتخب کئے جن کا اثر ورسوخ ان قبائل پر تھا جو”مسلم بن عقیل” کے ساتھ محاصرہ کئے ہوئے تھے-پھر ان کو کہا کہ “آپ”باہر جا کر اپنے اپنے “حلقہء اثر” کے لوگوں کو”مسلم بن عقیل” کا ساتھ دینے سے روکیں٫مال و حکومت کا لالچ دے کر یا حکومت کی سزا کا خوف دلا کر- جس طرح بھی ممکن ہو ان کو “مسلم” سے جدا کردو – ادھر “سادات شیعہ” کو حکم دیا کہ تم لوگ قصر کی چھت پر چڑھ کر اپنے “نوجوانوں” کو اس بغاوت “سے روکو٫اور اسی” خوف و طمع” کے ذریعہ ان کو محاصرے سے واپس جانے کی تلقین کرو-
“محاصرہ کرنے والوں کا فرار”اور “مسلم بن عقیل” کی بے کسی”
جب لوگوں نے اپنے “سادات شیعہ” کی زبانی باغی کے لئے “مال و زر”کا لالچ” یا “حکومت کی سزا کا خوف” کے بارے میں سنا تو متفرق ہونا شروع ہو گئے-یہاں تک کہ مسجد میں” ابنِ عقیل” کے پاس صرف”30″آدمی باقی رہ گئے٫ یہ صورتحال دیکھ کر”مسلم بن عقیل” واپس “ابواب کندہ” کی طرف چلے٫ جب “دروازے”پر پہنچے تو دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں ہے-(العیاذ باللہ)
” مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” تن تنہا “کوفہ” کی گلی کوچوں میں سراسیمہ پھرتے رہے (اس وقت انکی بے کسی کا تصوّر کریں٫یہی وہ لوگ ہیں جن کے صدقے میں ہم”دین اسلام” کی بہاریں دیکھ رہے ہیں- لاکھوں کروڑوں رحمتیں ہوں”ایں عاشقان پاک طینت را آمین-)
اس خوف و تنہائی کی حالت میں بالآخر”کندہ” کی ایک عورت”طوعہ” کے گھر پہنچے- اس کا بیٹا “بلال” بھی اسی ہنگامہ میں باہر گیا ہوا تھا٫وہ دروازے پر کھڑی اس کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی”٫مسلم رضی اللّٰہ عنہ” نے اس سے پانی مانگا٫پانی پی کر بھی”وہ” وہیں بیٹھے رہے٫عورت نے کہا کہ آپ پانی پی چکے اب اپنے گھر جائیں-“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”خاموش رہے- تین مرتبہ اس عورت نے ان سے جانے کا کہا اور “مسلم رضی اللّٰہ عنہ”خاموش رہے٫تو پھر اس نے ذرا سختی سے کہاکہ”میں “آپ”کو اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دونگی “آپ” اپنے گھر جائیے-اس وقت “مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” نے مجبور ہو کر کہا کہ اس شہر میں میرا نہ کوئ گھر ہےنہ خاندان٫تو کیا تم مجھے پناہ دوگی٫میں ہی “مسلم بن عقیل”ہوں- میرے ساتھیوں نے میرے ساتھ دھوکا کیا- عورت کو رحم آگیا اور”مسلم رضی اللّٰہ عنہ”کو اپنے گھر میں داخل کر لیا اور شام کا کھانا پیش کیا٫جو انھوں نے نہ کھایا-اتنے میں”عورت”کا بیٹا”بلال” واپس آگیا- اس نے دیکھا کہ اسکی والدہ بار بار ایک کمرے میں کے اندر جاتی ہیں-بیٹے کے پوچھنے پر اس وعدہ پر بتایا کہ”کسی سے اس کا اظہار نہ کرے-
ادھر جب”ابن زیاد” نے دیکھا کہ لوگوں کا شور و شغب”قصر”, کے گرد نہیں ہے تو اپنے ایک سپاہی کو بھیجا کہ” دیکھو شہر کی کیا صورتحال ہے؟اس نے آ کر بتایا کہ میدان صاف ہے-اس وقت”ابن زیاد”اپنے “قصر”سے اتر کر” مسجد” میں آیا اور منبر کے گرد”اپنے خواص” کو بٹھایا اور اعلان کرایا کہ “سب لوگ”مسجد” میں جمع ہوجائیں٫جب مسجد بھر گئ تو”ابن زیاد” نے یہ خطبہ دیا-
“مسلم بن عقیل” بیوقوف ٫جاہل نے جو کچھ کیا وہ تم نے دیکھ لیا٫اب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ”ہم جس شخص کے گھر میں”ابن عقیل” کو پائیں گے ہمارا ذمہ اس سے بری ہےاور جو کوئ اسکو ہمارے پاس پہنچائے گا اس کو انعام ملے گا-اور اپنی پولیس کے افسر “حصین بن نمیر”کو حکم دیا کہ شہر کے تمام گلی کوچوں پر پہرہ لگادو٫کوئ باہر نہ جاسکے٫اور پھر سب گھروں کی تلاشی لو-
تلاشی کے دوران”اس عورت کے بیٹے”بلال” نے محسوس کیا کہ بالآخر “وہ”ہمارے گھر سے گرفتار کئے جائیں گے٫تو اس نے خود مخبری کر کے “عبد الرحمن بن اشعث” کو”ان کا” پتہ بتا دیا-اس نے اپنے باپ”اشعث”کو اور اس نے”ابنِ زیاد” کو اس کی اطلاع کر دی-“ابنِ زیاد” نے” محمد بن اشعث” کی سرکردگی میں”70″ سپاہیوں کا ایک دستی “ان کو” گرفتار کرنے کے لئے بھیج دیا-
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”کا “70”سپاہیوں سے تنہا مقابلہ”
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”نے جب سپاہیوں کی آوازیں سنیں تو تلوار لے کر دروازے پر آگئے اور تنہا سب کا مقابلہ کر کے ان کو دروازے سے باہر نکال دیا٫ وہ لوگ پھر لوٹے تو دوبارہ مقابلہ کیا زخمی ہو گئے مگر ان کے قابو میں نہ آئے تو وہ لوگ چھت پر چڑھ گئے اور پتھر برسانے شروع کر دیئے اور گھر میں آگ لگادی-“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”نے انکے سب حربوں کا دلیرانہ جواب دیا- ایسے میں”محمد بن اشعث” نے ان کے قریب ہو کر پکارا کہ:
میں تمہیں امن دیتا ہوں٫اپنی جان کو ہلاک نہ کرو٫میں تم سے جھوٹ نہیں بول رہا٫یہ لوگ تمہارے چچا زاد بھائی ہیں نہ تمہیں ماریں گے نہ قتل کریں گے-
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” کی گرفتاری”
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”زخموں سے چور ہو کر تھک چکے تھے٫ایک دیوار سے کمر ٹکا کر بیٹھ گئے٫ان کو ایک سواری پر سوار کردیا گیا اور ہتھیار لے لئے گئے- ہتھیار لینے کے وقت”مسلم”رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا کہ یہ پہلی عہد شکنی ہے کہ امن دینے کے بعد ہتھیار چھینے جا رہے ہیں- “محمد بن اشعث” نے کہاکہ”آپ کوئ فکر نہ کریں٫ آپ رضی اللّٰہ عنہ”کے ساتھ کوئ ناگوار معاملہ نہ کیا جائے گا- “ابنِ عقیل رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا”کہ یہ محض باتیں ہیں اور اس وقت “ان کی”آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے-
“محمد بن اشعث”کے ساتھیوں میں”عمرو بن عبید بھی تھا جو”مسلم رضی اللّٰہ عنہ” کو امان دینے کا مخالف تھا”اس نے کہا”اے مسلم”جو شخص ایسا اقدام کرے جو “آپ نے” کیا٫جب پکڑ لیا جائے تو اس کو رونے کا کوئ حق نہیں-
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”نے فرمایا کہ” میں اپنی جان کو نہیں روتا بلکہ میں”حسین اور آل حسین رضی اللّٰہ عنہ” کی جانوں کے لئے رو رہا ہوں جو میری تحریر پر عنقریب” کوفہ” پہنچنے والے ہیں اور تمہارے ہاتھوں اسی بلا میں گرفتار ہوں گے جس میں میں گرفتار ہوں-
اس کے بعد”محمد بن اشعث”سے کہا کہ تم نے امان تو دے دی ہے اور میرا گمان یہ ہے کہ تم اپنے اس امان سے عاجز آجاوگے٫لوگ تمہاری بات نہیں مانیں گے اور مجھے قتل کریں گے٫ تو اب کم ازکم میری ایک بات مان لو اور وہ یہ ہے کہ”ایک آدمی”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے پاس فورا روانہ کردو جو ان کو میرے حال کی اطلاع کر کے یہ کہ دے کہ”آپ رضی اللّٰہ عنہ”راستے سے ہی اپنے اہل بیت کو لے کر لوٹ جائیں٫”کوفہ” والوں کے خطوط سے دھوکہ نہ کھائیں- یہ وہی لوگ ہیں جن کی بے وفائی سے گھبرا کر” آپ رضی اللّٰہ عنہ”کے والد موت کی تمنا کیا کرتے تھے-
“محمد بن اشعث” نے حلف کے ساتھ اس کا وعدہ کیا کہ میں ایسا ہی کروں گا-
“محمد بن اشعث”نے وعدہ کے مطابق ایک آدمی کو خط دے کر روانہ کیا-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” اس وقت”مقام زیالہ”تک پہنچ چکے تھے-
“محمد بن اشعث”کے قاصد نے وہاں پہنچ کر “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کو خط دیا- “مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ” کا خط پڑھ کر”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا”
جو چیز ہو نی ہے وہ ہو کر رہے گی٫ہم صرف “اللہ تعالیٰ” ہی سے اپنی جانوں کا ثواب چاہتے ہیں٫اور امت کے فساد کی فریاد کرتے ہیں-
الغرض یہ خط پا کر بھی “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”نے اپنا ارادہ ملتوی نہیں کیا٫اور جو عزم کر چکے تھے اس کو لئے ہوئے آگے بڑھتے رہے-
ادھر”محمد بن اشعث” “مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” کو لئے ہوئے”قصر امارت” میں داخل ہوا اور “ابنِ زیاد”کو اطلاع دی “کہ میں”ابن عقیل”کو امان دےکر واپس لایا ہوں-“ابنِ زیاد” نے غصہ سے کہاکہ”تمہیں امان دینے سے کیا واسطہ٫ میں نے تمہیں انہیں گرفتار کرنے کے لئے بھیجا تھا یا امان دینے کے لئے” محمد بن اشعث” خاموش رہ گیا اور”ابن زیاد نے ان کے قتل کا حکم دے دیا- ( العیاذ باللہ)
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ” محمد بن اشعث” کا امن دینا کوئ چیز نہیں “ابنِ زیاد” مجھے قتل کرےگا-
“ابنِ زیاد”اور”مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”کے درمیان مکالمہ”
“ابنِ زیاد”نے کہا”اے مسلم! تم نے بڑا ظلم کیا کہ مسلمانوں کا “نظم مستحکم “اور ایک کلمہ تھا”٫سب ایک امام کے تابع تھے٫تم نے آ کر ان میں تفرقہ ڈالا اور لوگوں کو اپنے” امیر” کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا-
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”نے فرمایا کہ”معاملہ یہ نہیں٫ بلکہ اس شہر “کوفہ”کے لوگوں نے خطوط لکھے”کہ تمہارے باپ نے ان کے نیک اور شریف لوگوں کو قتل کر دیا٫ان کے خون ناحق بہائے اور یہاں کہ عوام پر “قیصر و کسریٰ” جیسی حکومت کرنی چاہی٫اس لئے ہم اس پرمجبور ہوئے کہ”عدل قائم کرنے”اور کتاب و سنت کے احکام نافذ کرنے کی طرف لوگوں کو بلائیں اور سمجھائیں”-
اس پر”ابنِ زیاد”اور زیادہ برافروختہ ہوا اور” مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” کو اور برا بھلا کہنے لگا-
“ابنِ زیاد” نے حکم دیا کہ ان کو”قصر امارت”کی اوپری منزل”پر لے جاؤ اور سر کاٹ کر نیچے پھینک دو”
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا مجھے وصیت کرنے کی مہلت دو٫-“ابن زیاد” نے مہلت دےدی- تو “انہوں نے”عمر بن سعد سے کہا”میرے اور آپ کے درمیان قرابت ہے اور میں اس قرابت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں مجھے تم سے ایک کام ہے جو راز ہے- میں تنہائ میں بتلا سکتا ہوں-“عمر بن سعد” نے”ابنِ زیاد” کے ڈر سے سننے کی ہمت نہیں کی٫”ابنِ زیاد” نے کہا”کچھ مضائقہ نہیں٫تم سن لو-“عمر بن سعد” کو علیحدہ لے جا کر”مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا”کام یہ ہے کہ”میرے زمہ “700”درہم قرض ہیں جو میں نے”کوفہ”کے”فلاں شخص” سے لئے تھے-وہ ادا کردو٫اور دوسرا کام یہ ہے کہ”حسین رضی اللّٰہ عنہ”کے پاس ایک آدمی بھیج کر ان کو راستے سے واپس کرادو٫- “عمر بن سعد” نے”ابنِ زیاد” سے ان کی وصیت پوری کرنے کی اجازت مانگی٫ تو اس نے کہا “بےشک امین آدمی کبھی خیانت نہیں کرتا” تم ان کا قرض ادا کر سکتے ہو٫باقی رہا” حسین رضی اللّٰہ عنہ”کا معاملہ سو اگر وہ ہمارے مقابلے پر نہ آئیں تو ہم بھی ان کے مقابلے پر نہ جائیں گے٫اور اگر وہ آئے تو ہم مقابلہ کریں گے-
ان سب معاملات کے بعد بحکمِ”ابنِ زیاد”مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”اوپر لے جائے گئے٫”وہ”تسبیح اور استغفار پڑھتے ہوئے اوپر پہنچے اور”ابن زیاد” کے حکم کی تعمیل میں “شہید کر کے “ان کو” نیچے پھینک دیا گیا- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون”
“مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” کو شہید کرنے کے بعد”ہانی بن عروہ” کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور انکو بھی بازار میں لے جا کر قتل کرکے “ان دونوں شہداء کے سر کاٹ کر” یزید”( ظالم)کے پاس بھیج دیئے٫یزید نے شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ”مجھے یہ خبر ملی ہے کہ”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” “عراق”کے قریب پہنچ گئے ہیں اس لئے جاسوس اور خفیہ اہلکار” پورے شہر”میں پھیلادو- اور جس پر تھوڑا سا بھی “حسین رضی اللّٰہ عنہ” کی تائید کا شبہ ہو قید کر لو٫مگر سوائے اس شخص کے جو تم سے مقاتلہ کرے کسی کو قتل نہ کرو-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کو”عمر بن سعد” کے ذرائع سے”مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ”اور ہانی بن عروہ”کی”مظلومانہ شہادت”کی اطلاع ” مقام ثعلبیہ”پہنچ کر ملی- یہ خبر سن کر”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے ساتھیوں نے بھی ان سے باصرار عرض کیا کہ” اللہ کے واسطے”اب آپ یہی سے لوٹ جائیں٫ کیونکہ “کوفہ” میں آپ کا کوئ ساتھی اور مددگار نہیں٫ بلکہ ہمیں قوی اندیشہ ہے کہ”کوفہ” کے یہی لوگ جنھوں نے”آپ”کو دعوت دی تھی٫اپ رضی اللّٰہ عنہ” کے مقابلے پر آ جائیں گے-