السلام علیکم
مفتی صاحب دودھ پلانے والی ماں کا روزہ رکھنے کا کیاحکم ہے
اور حاملہ عورت کاروزہ رکھنے کا کیاحکم ہے ؟
فتویٰ نمبر:295
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلّياًاگر ماں کے روزہ رکھنےکے باوجود بچہ کی پرورش ممکن ہے اورماں کے دودھ میں اتنی کمی نہیں ہوتی جس سے بچہ کو نقصان یا کمزوری پہنچے یا بچہ گائے وغیرہ کا دودھ پینے لگ چکا ہو اور اس سے گزارا باآسانی ممکن ہو توپھر ماں کیلئےروزہ رکھناضروری ہے۔ اور اگرایسی کوئی صورت ممکن نہ ہوبلکہ بچہ کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہےاور روزہ رکھنے کی وجہ سے ماں کادودھ بچہ کی پرورش کیلئے ناکافی ہوتو ایسی صورت میں ماں کیلئےروزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اورپھر فدیہ کے بجائے بعد ان روزوں کی قضاء ضروری ہے۔
اسی طرح حاملہ کیلئے جب تک روزے رکھنا ممکن ہو اس کیلئے روزے رکھنا ضروری ہیں، اور اگر اس کی طبیعت اور صحت کے پیشِ نظر کوئی مستنددیانتدار ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر کہے کہ روزے رکھنا ماں یا بچہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور آپ کو بھی اس کی بات پر اعتماد ہو تو ایسی حاملہ کیلئے بھی روزے چھوڑنا جائز ہے،اوربعدمیں ان روزوں کی قضاء کرنا لازم ہوگا۔
==========
سنن أبى داود- (2/ 291)
عن أنس بن مالك رجل من بنى عبد الله بن كعب إخوة بنى قشير قال أغارت علينا خيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم فانتهيت أو قال فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يأكل فقال « اجلس فأصب من طعامنا هذا ». فقلت إنى صائم. قال « اجلس أحدثك عن الصلاة وعن الصيام إن الله تعالى وضع شطر الصلاة أو نصف الصلاة والصوم عن المسافر وعن المرضع أو الحبلى ».
==========
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي (2/ 307)
(قوله: وللحامل والمرضع إذا خافتا على الولد أو النفس) أي لهما الفطر دفعا للحرج ولقوله – صلى الله عليه وسلم – «إن الله وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة وعن الحامل والمرضع الصوم» قيد بالخوف بمعنى غلبة الظن بتجربة أو إخبار طبيب حاذق مسلم كما في الفتاوى الظهيرية على ما قدمناه؛ لأنها لو لم تخف لا يرخص لها الفطر
==========
الفتاوى الهندية (1/ 207)
(ومنها حبل المرأة، وإرضاعها) الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما أو، ولدهما أفطرتا وقضتا، ولا كفارة عليهما كذا في الخلاصة.
==========
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمه الله تعالي
الجواب حامدًا ومصلّياًاگر ماں کے روزہ رکھنےکے باوجود بچہ کی پرورش ممکن ہے اورماں کے دودھ میں اتنی کمی نہیں ہوتی جس سے بچہ کو نقصان یا کمزوری پہنچے یا بچہ گائے وغیرہ کا دودھ پینے لگ چکا ہو اور اس سے گزارا باآسانی ممکن ہو توپھر ماں کیلئےروزہ رکھناضروری ہے۔ اور اگرایسی کوئی صورت ممکن نہ ہوبلکہ بچہ کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہےاور روزہ رکھنے کی وجہ سے ماں کادودھ بچہ کی پرورش کیلئے ناکافی ہوتو ایسی صورت میں ماں کیلئےروزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اورپھر فدیہ کے بجائے بعد ان روزوں کی قضاء ضروری ہے۔
اسی طرح حاملہ کیلئے جب تک روزے رکھنا ممکن ہو اس کیلئے روزے رکھنا ضروری ہیں، اور اگر اس کی طبیعت اور صحت کے پیشِ نظر کوئی مستنددیانتدار ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر کہے کہ روزے رکھنا ماں یا بچہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور آپ کو بھی اس کی بات پر اعتماد ہو تو ایسی حاملہ کیلئے بھی روزے چھوڑنا جائز ہے،اوربعدمیں ان روزوں کی قضاء کرنا لازم ہوگا۔
==========
سنن أبى داود- (2/ 291)
عن أنس بن مالك رجل من بنى عبد الله بن كعب إخوة بنى قشير قال أغارت علينا خيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم فانتهيت أو قال فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يأكل فقال « اجلس فأصب من طعامنا هذا ». فقلت إنى صائم. قال « اجلس أحدثك عن الصلاة وعن الصيام إن الله تعالى وضع شطر الصلاة أو نصف الصلاة والصوم عن المسافر وعن المرضع أو الحبلى ».
==========
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي (2/ 307)
(قوله: وللحامل والمرضع إذا خافتا على الولد أو النفس) أي لهما الفطر دفعا للحرج ولقوله – صلى الله عليه وسلم – «إن الله وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة وعن الحامل والمرضع الصوم» قيد بالخوف بمعنى غلبة الظن بتجربة أو إخبار طبيب حاذق مسلم كما في الفتاوى الظهيرية على ما قدمناه؛ لأنها لو لم تخف لا يرخص لها الفطر
==========
الفتاوى الهندية (1/ 207)
(ومنها حبل المرأة، وإرضاعها) الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما أو، ولدهما أفطرتا وقضتا، ولا كفارة عليهما كذا في الخلاصة.
==========
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمه الله تعالي