مارکیٹنگ پڑھانے اور برانڈ ڈوپلیمنٹ سے وابستہ جناب ڈاکٹر عبدالرب فاروقی گفتگو )
ڈاکٹر عبدالرب فاروقی مارکیٹنگ کی د نیا میں ایک جانا پہچانا نام ہے ۔ یہ عرصہ دراز سے بزنس ایجوکیشن سے وابستہ ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سمیت یونیورسٹیوں میں تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ بر طانیہ اور امریکا میں بھی مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہے ۔ برانڈ منیجر کے ساتھ ساتھ ایک بہترین لیکچر ز بھی ہیں۔ ہفت روزہ ” شریعہ اینڈ بزنس ” نے ان سے گفتگو کی، قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے ۔ )
ہم نے ان سے سوال کیا کہ مارکیٹنگ اور بزنس ایتھلکس کو ایک ساتھ دیکھتے ہوئے آپ ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں سے متعلق کیا تجزیہ کریں گے ؟ اس پر ڈاکٹر عبدالرب فاروقی نے کہا : ” غیر ملکی کمپنیوں کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ہماری چیزوں کو لے کر کمپنیوں میں چل رہے ہیں ۔ آپ شریعت کے اسی حکم کو ہی لے لیجئے : ” جو وعدہ کرو، اس کو پورا کرو، کیونکہ وعدے کے بارے میں پوچھ ہوگی ۔” جب ہم ایڈورٹائزمنٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ ایک قسم کا وعدہ ہی ہوتا ہے ۔ ہم جب پروڈکٹ بنانا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے کسٹمر کی Need اور Demand کے بارے میں جستجو کرتے ہیں ۔ ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ کسٹمر کے مسائل کیا ہیں ؟ پھر یہ سوچتے ہیں کہ ان مسائل کو اپنی پروڈکٹ سے کیسے حل کریں ؟ پہلی پروڈکٹ دراصل Consumer Solution ہوتی ہے ۔ آپ کنزیومر کو حل پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ پاکستان کمپنیاں پیسی کمانے آتی ہیں، کنزیومر کو ان کے مسائل کا حل نہیں دیتیں ۔ اگر صارف کو ان کے مسائل کا ھل دے دیں تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے ہوگا ۔ میں نے تقریبا ً 60،50 پروڈکٹ لانچ کی ہیں ۔ ملٹی نیشنل یہی کہتے تھے کہ پہلے آپ مارکیٹ میں جائیں ۔ ایک ماہ تک ریسرچ کریں اور پھر عوام کو ان کے مسائل کا حل دیں ۔”
ہم نے پوچھا کہ جن شعبوں پر ملٹی نیشنل کمپنیاں زیادہ خرچ کرتی ہیں ، ان شعبوں میں پاکستان کے اندر زیادہ توجہ کیوں نہیں دی جاتی ؟ تو ان کا کہنا تھا : بنیادی طور پر دو چیزیں ہیں : ایک یہ کہ یہاں وہ ریسرچ نہیں ہوتی ۔ جوہونی چاہیے ۔ بغیر ریسرچ کے 90 فیصد پاکستانی کمپنیاں پروڈکٹ لانچ کرتی ہیں ۔ دوسرے بنیادی طور پر پروڈکٹ کے را (raw ) میٹریل سے ریسرچ صحیح ہوتی ہے ۔ اس پر ریسرچ یہاں نہیں ہوتی ۔ انڈیا میں جب ایک ملٹی نیشنل کمپنی پہنچی تو انہوں نے کہا : ہم آپ کو چار سال کا ٹائم دیتے ہیں ۔ آپ جتنی چاہیں تجارت کرسکتے ہیں۔ 20 فیصد جو گورنمنٹ کا حصہ بنتا ہے ، وہ دیجئے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ٹیکس کا کام کرتی رہیں۔ آپ اپنے لوگوں کو سکھلائیے ۔ ان کو پڑھائیے ۔ ان کو ٹیکنیکل بنائیے ۔ا یک ریسرچ سینٹر بنائیے ۔ جس میں بیٹھ کر آپ اپنی پروڈکٹ ریسرچ کریں گے۔ امریکا اور برطانیہ میں نہیں کریں گے ۔ اس سے کیا ہوا ۔ کمپنی آئی تو بن گئی ۔ اسی طرح ساری کمپنیاں جو اپنے نام بدل کر انڈین نام رکھ لیتی ہیں ۔ اب وہ ریسرچ جو انگریزوں نے کی وہ انڈیا کے پس آئی ۔ ہم لوگوں نے یہ کام نہیں کیا ۔ ہماری بنیادی غلطی یہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنی آتی ہے ، کماتی ہے ۔پیسہ دیتی ہے اور چلی جاتی ہے ۔ ہم کچھ بھی نہیں کرتے ۔ہم اس میں صرف ریونیو 20,25 فیصد وصول کرتے ہیں اور اسی پر خوش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس میں کوئی ترقی نہیں کی ۔”
اس سوال کے جواب میں کہ چھوٹی کمپنیاں کس انداز میں کام آگے بڑھائیں ، تاکہ یہ رفتہ رفتہ بڑی کمپنیوں میں تبدیل ہوسکیں؟ ڈاکٹر فاروقی مسکرا کر کہنے لگے : ” یہ کام بہت آسان ہے ۔ اگر آپ بزنس میں ایک ہزار روپے کمارہے ہیں تو اس میں سے 100 روپے کو ریسرچ پر خرچ کردیں ، آپ کو کوئی کہنے والا نہ ہوگا ۔ جس طرح ملٹی نیشنل کمپنیاں اخراجات کر رہی ہیں، اسی اہمیت کے ساتھ آپ بھی خرچ کریں۔ آپ کے پاس جتنے بھی وسائل ہیں اس میں ریسرچ کیجئے ۔ آپ کو یہ بات کسی نے نہیں بتلائی ۔ اگر آپ پوری مارکیٹ میں 20 فیصد شئیر لے لیتے ہیں تو 20 فیصد کے حساب سے ہی ریسرچ پر خرچ کیجئے۔ کیونکہ بنیاد ریسرچ پر ہوتی ہے ۔ اگر آپ بنا تحقیق کے کسی کی طرف بڑھیں گے تو نقصان اٹھائیں گے ۔ ہماری کمپنیاں جو آگے ترقی نہیں کر پاتیں ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ریسرچ کا باب ہی بند ہوگیا ہے ۔ میں نے چونکہ زندگی کے آخری 10۔ 8 سال لوکل کمپنیوں میں کام کیا ہے تو ایک بات نوٹ کی ہے۔ اگر میں ریسرچ کر کے بتارہا ہوں کہ میرے منیجر کو ٹریننگ کی ضرورت ہے تو سیٹھ صاحب کہتے ہیں : ” ڈاکٹر صاحب کیوں خرچ کروارہے ہیں آپ ، 7 لاکھ میں کچھ اور کام کر لیجئے ۔”
ہم نے کہا کہ پاکستان میں کیسے ممکن ہے کہ ریسرچ اور ڈوپلیمینٹ اور انسٹی ٹیوشن ہوں تاکہ ہر شعبے میں ترقی ہوسکے، تو انہوں نے بہت پیارا جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا : ” اس کا طریقہ بنیادی یہ ہے کہ سب سے پہلے عوام اعتراض کرتے ہیں۔ عوامی تحریکیں چلتی ہیں ۔ جس سے گورنمنٹ متحرک ہوجاتی ہے اور وہ قواعد وضوابط بناتی ہے اور ٹریننگ کرواتی ہے ۔ کورسز، سیمینار منعقد کرواتی ہے ۔ جب یہ کام ہوتا ہے تو اس سے کمپنی بھی بہتری کی طرف جاتی ہے ، کمپنی کو کہاجاتا ہے کہ اب آپ نے وقاعد وضوابط کو اپنانا ہے ۔ اب ہم بیچ میں نہیں آئیں گے۔ آپ نے خود اس کو چلانا ہے ۔ پھر کمپنیاں قواعد وضوابط بنا کر چلاتی ہیں۔ یہی طریقہ کار ہے ۔ جب یہ چیزیں ہوں گی تو اس سے گورنمنٹ ایکشن لےگی ۔ پھر قواعد وضوابط نہ صرف بناتی ہے، بلکہ سیمینار ، میوزیم منعقد کرواتی ہے ۔ ریسرچ پیپرز لکھواتی ہے ۔ اور اس کے علاوہ آپ کے ساتھ شراکت کرتی ہے ۔ آپ ٹریننگ میں گورنمنٹ کے آفیشل بن جاتے ہیں ۔ آپ کو ٹرین کیاجاتا ہے ، اس کے بعد آزاد چھوڑدیا جاتا ہے کہ آپ خود اس کو چلائیے ۔ وہ پھر اس کو خود چلاتے ہیں ۔ یہ ایک طویل طریقہ کار ہے ۔ ہدف تک پہنچنے کے لیے مرحلہ بہ مرحلہ آگے بڑھنا ہوگا۔ ایک دم سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہو جاتا ۔”