حمل ضائع کرانا

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری کزن کو اس کے شوہر نے ایک طلاق دے دی تھی پھر رجوع کر لیا مگر ابھی تک ان کے درمیان مسائل چل رہے ہیں تقریباً پانچ چھ ماہ پہلے میری کزن حاملہ ہوئی تھی، تو شوہر نے زبردستی کر کے کہ مجھے بچہ نہیں چاہیے، حمل کو ختم کرا دیا تھا۔ حمل ایک ماہ کا تھا۔ ابھی اس کو دوبارہ سے حمل ٹھہر گیا ہے۔ وہ خود نہیں چاہتی کہ حمل کو ختم کرے مگر شوہر پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اب میری کزن پوچھنا یہ چاہتی ہے کہ کیا اس کا گناہ اس کو ہو گا؟ اس کے پہلے بھی دو بچے ہیں ایک بیٹی سات سال کی اور ایک بیٹا پانچ سال کا اور گھر میں بھی مسائل چل رہے ہیں۔ معاشی مسئلہ کوئی نہیں اور کزن کی صحت بھی ٹھیک ہے مگر اس کا شوہر باہر سیٹل ہونا چاہتا ہے اور اس ڈر سے کہ فیملی بڑھ جائے گی تو خرچے بڑھ جائیں گے اس لیے وہ حمل کو ضائع کرانا چاہتا ہے ورنہ وہ یہ دھمکی دے رہا ہے کہ تم اپنے باپ کے گھر چلی جاؤ مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے۔ تو اس صورت میں میری کزن یہ پوچھ رہی ہے کہ کیا ختم کرنے کا گناہ اس کے سر پر ہو گا یا نہیں؟

والسلام

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو، تو حمل میں روح پڑجانے سے  پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے) حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہے اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں۔ اگر شدید عذر نہ ہو تو پھر چار ماہ قبل حمل کو ساقط کرنا مکروہ ہے۔ مسئلہ ھذا میں بیوی کو چاہیے کہ شوہر کو سمجھائے اور اگر شوہر نہ سمجھے اور زبردستی بیوی کا حمل ساقط کرواتا ہے اور عورت ساقط نہیں کرنا چاہ رہی اور حمل کے بالکل ابتدائی ایام ہیں، تو امید ہے کہ عورت گناہ گار نہیں ہوگی، تاہم شوہر کا یہ عمل درست نہیں ہے۔

“وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره،”. (فتاوی شامی، مطلب في إسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، ط: سعید 176/3)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

قمری تاریخ: 7 جمادی الاولی 1442ھ

عیسوی تاریخ: 22 دسمبر 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں