فتویٰ نمبر:716
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت اگر حالت حیض میں اپنے مقام سے ایسے مقام کے لیے سفر کرے جو مسافت سفر پرواقع ہوا ور راستے میں ایسی جگہ پر پاک ہوجائے جو منزل مسافت سفر پر نہیں ہے۔ توشامی اوربہشتی زیور میں لکھا ہے کہ وہ پوری نماز پرھے گی وجہ یہ بیان فرمائی ہے “لکن منعھا من الصلاۃ مالیس بصنعھا فلغت نیتھا من الاول ” اس پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ “اسقاط صلاۃ” کی وجہ سے وہ نیت کی اہل کیوں نہ رہی جبکہ نیت سفر کا تعلق صرف صلاۃ سے نہیں بلکہ دوسرے مسائل بھی اس سے متعلق ہیں ۔مثلا ً :ایام اضحیہ میں اگر یہ عورت مذکورہ حالت میں سفر کرے تواس پرقربانی واجب نہ ہوگی توقربانی کے حق میں سفر کا اعتبارہے جبکہ شریعت میں ایسی کوئی مثال ہمارے نظر سے نہیں گزری کہ نیت سفر بعض احکام سفر کے حق میں معتبر ہو اور بعض کے حق میں نہ ہو جبکہ دیگر مسائل واحکام جو نیت سے متعلق ہیں ان میں اس کی نیت کا اعتبار ہونا بدیہی ہے اور اگر بغور دیکھاجائے تو حیض مسقط الصلاۃ توہے مسقط اہلیت نہیں ہے بلکہ بدستور ودیگر احکام شرع کی پابند ہے کیونکہ وہ مسلمہ عاقلہ اور بالغہ ہے اس کی نیت کو محض حیض کی وجہ سے غیر معتبر قراردینا محل نظرہے ۔
نیز المحیط البرھانی میں ایک صریح جزئیہ ہے: ” وفی متفرقات الامام الفقیہ ابو جعفر: واماالحائض اذا طھرت فی بعض الطریق قصرت السلاۃلانھا مخاطبۃ ” ( المحیط البرھانی 2/408 )
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے شرنبلا لی کا جواب جس کتاب “نھج النجاۃ ” سے نقل فرمایاہے وہ ایک غیر معروف اور مفقود کتاب ہے بلکہ اس کے منصف کو ” ھدیۃ العارفین ” اور “ایضاح المکنون ” نے شافعی کہاہے اگر چہ بعض نے حنفی بھی کہاہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ایک جزیہ “اتمام والا ” قواعد کے خلاف ، نقل کےا عتبار سے کمزوراورقیاس ودرایت سے متصادم جبکہ دوسرا جزئیہ “قصروالا ” قواعد مذہب کے مطابق اور قائلین اس کے شیخ الاسلام امام فقیہ ابو جعفر اور علامہ شرنبلالی ہے۔ تو کیا ترجیح یا عمل اس جزئیہ یعنی “اتمام والا” پر کرنا چاہیے ۔
امید ہے کہ آپ ایسے جواب سے سرفراز فرمائیں گےتثلج بہ الصدور وتخضع لہ العقول واجرکم علی الحی القیوم ۔
( السائل ابو ثمامہ )
الجواب حامداومصلیا
غور وفکر کے بعد آپ کی بات درست معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ : اگر کوئی عورت حالت حیض میں اپنے مقام سے ایسے مقام کے لیے سفر کرے جو مسافت سفر پرواقع ہو اور راستے میں ایسی جگہ پاک ہوجائے جو منزل مقصود سے مسافت سفر پر نہیں ہے۔ ( یعنی اس کے اوروطن اصلی یا وطن اقامت کے درمیان اڑتالیس میل سے کم مسافت رہ گئی ہو ) تو ایسی صورت میں وہ پوری نماز پڑھے گی یا قصر کرے گی ۔ اس سلسلے میں فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی عبارات مختلف ہیں چنانچہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے ” نہج النجاۃ ” اور ” فتاویٰ ظہیریہ ” کے حوالے سے ذکر فرمایا ہے اور” فتاویٰ تتارخانیہ” اور ” حلبی کبیر ” میں بھی “ظہیریہ ” کے حوالےسے مذکورہے کہ ایسی صورت میں وہ عورت پوری نماز پڑے گی ۔ ( کما فی العبارۃ الاولی والثانیۃ والثالثۃ )
اس کے بر خلاف ” محیط برہانی ” میں مسئولہ صورت کے متعلق معرو فقیہ امام ابو جعفر الہندوانی رحمہ اللہ کے حوالے سے قصر کا قول مذکورہے جسے صاحب ” محیط برہانی ” نے اختیار فرمایا ہے ۔ اورشامی ” میں علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ کے ھولاے سے یہی قول منقول ہے نیز صاحب ” در الحکام ” نے بھی مذکورہ صورت میں قصر کا قول اختیار فرمایا ہے ۔( کما فی العبارۃ الرابعۃ والخامسۃ والسادسۃ)
اردو فتاویٰ میں سے ” احسن الفتاویٰ ” میں یہ مسئلہ مذکور ہے نیز بہشتی زیور ” میں بھی اس مسئلے کا ذکر ہے ان دونوں کتابوں میں اتمام کا قول اختیار کیاگیاہے ۔ ( کما فی العبارۃ السابعۃ والثامنۃ ) اس وقت چونکہ ” محیط برہانی ” طبع نہیں ہوئی تھی ۔ اس لیے اکابر کے دیگر اردو فتاویٰ میں ان دو اقوال میں سے کسی کو ترجیح مذکور نہیں ۔ نیز اس سلسلے میں دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی سے بھی ( اس وقت جو کتب میسر تھی ان کی روشنی میں ) تمام قول پر مشروط طور پر فتویٰ دیاگیاتھا کہ ” جب اس کے خلاف کوئی نص موجود نہیں تو فتویٰ بھی اسی پر ہے ” ( کما فی التبویب : 493/23) اب چونکہ ” محیط برہانی” چھپ چکی ہے جس میں معروف فقیہ امام ابو جعفر رحمہ اللہ کے حوالے سے صریح نص موجود ہے اس لیے اب درج ذیل دووجہوں سے ہمیں یہ دوسرا قول زیادہ راجح معلوم ہوتاہے :
1۔اتمام کا قول “نہج النجاۃ ” اور “فتاوی ظہیریہ “سے ماخوذ ہے اور ” نہج النجاۃ” کے منصف غیر معروف ہیں اور بعض حضرات نے انہیں شافعی المسلک ظاہر کیاہے۔ ( کما فی العبارۃ التاسعۃ ) جبکہ دوسری جانب قصر کا قول معروف فقیہ امام ابو جعفر الہندوانی المتوفی 362ھ سے منقول ہے جن کا شمار کبار ائمہ حنفیہ میں ہوتا ہے اور انہیں ان کی فقہی بصیرت کی وجہ سے “ابو حنفیہ الصغیر ” کہا جاتا ہے ۔ ( کما فی العبارۃ العاشرۃ ) اس لیے ایسی صورت میں ظاہر اً ایک معروف اورمسلم فقیہ کا قول معتبر ہوگا۔
دوسری طرف اتمام کے قول کے ناقل علامہ شامی ؒ المتوفی 1252 ہیں جو متاخرین فقہاء حنفیہ میں سے ہیں جبکہ ” قصر” کے قول کے ناقل صاحب ” محیط برہانی ” امام برہان الدین محمودرحمہ اللہ المتوفی 616 ہیں جن کا تعلق فقہاء کے تیسرے طبقے ( مجتہدین فی المسائل ) سے ہے۔ ( کما فی العبارۃالحادیۃ عشر ) اور بظاہر علامہ شامی رحمہ اللہ ” محیط برہانی ” پر مطلع نہیں ہوئے تھے۔ ( کما فی العبارۃ الثانیۃ عشر ) اور ان کے سامنے امام ابو جعفررحمہ اللہ کا قول نہیں تھا اس لیے اس کا ذکر نہیں فرمایا۔
2۔ قصر کا قول قیاس کے بھی موافق ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ شرعاً سفرشروع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سفر کی نیت سے نکلنے والے شخص میں انشاء ( آغاز) سفر کے وقت نیت سفر معتبر ہونے کی صلاحیت واہلیت موجود ہو ۔ ( کما فی العبارۃ الثالثۃ عشروالرابعۃ عشر ) لہذا جن افراد میں بوقت انشاء سفر سرے سے اہلیت وصلاحیت ہی نہ ہو تو ان کی نیت سفر شرعاً معتبر نہ ہوگی اور ان پر احکام سفر لاگو نہیں ہونگے ۔ اور جن افراد میں اس وقت نیت کی اہلیت ہو تو ان کی نیت معتبر ہوگی ان پر احکام سفر لاگو ہونگے۔ چنانچہ اس سلسلے میں کتب فقہ درج ذیل تین مسائل معروف ہیں :
1۔نابالغ سفر کی نیت سے نکلاہے اورراستے میں ایسی جگہ بالغ ہوگیا کہ اس جگہ اور منزل مقصود کے درمیان کی مسافت مسافت سفر سے کم ہے تو ایسی صورت میں وہ قصر نہیں کرے گا کیونکہ سفر شروع کرتے وقت وہ نیت سفر کا اہل نہیں تھا لہذا شرعاً وہ مسافر شمار نہیں ہوگا۔
2۔کافرسفر کی نیت سے نکلا اورراستے میں ایسی جگہ مسلمان ہوگیا تو وہ قصر کرے گا کیونکہ بوقت انشاء سفر وہ نیت سفر کا اہل تھا کیونکہ کفر مسقط نیت نہیں بلکہ مسقط عبارت ہے۔ (کما فی العبارۃ الخامسۃ عشر والسادسۃ والثامنۃ عشر والتاسعۃ عشر )
3۔ تیسر امسئلہ جو کہ موضوع بحث ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ یہی صورت پیش آئے اوروہ ایسے مقام پرپاک ہوجائے تو نابالغ کے مسئلے پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اتمام کرے گی ۔ اور کافر والے مسئلے پر قیاس کا تقاضہ یہ کہ قصر کرے گی جبکہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مسئلے پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ نابالغ نیت کا اہل نہیں اور مطلقاً غیر مکلف ہے جبکہ حائضہ عورت نیت کی اہل ہے اوردیگر احکام شرع کی مکلف اور مخاطب ہے۔ ( یہی وجہ ہے کہ حالت حیض میں اگر حج یا عمرہ کی نیت کرے تواس کا احرام درست ہوجائے گا ) اس لئے کافر والے مسئلے پر قیاس کرنا زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ کافر بھی عاقل بالغ اور نیت کا اہل ہے اور حائضہ بھی عاقلہ بالغہ اور نیت کی اہل ہے ۔ تو جس طرح کافر کی نیت سفرشرعاً معتبر ہے تو حائضہ کے حق میں نیت سفر بطریق اولیٰ معتبر ہونی چاہیے ۔
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں ” قصر ” کا قول روایت کے اعتبارسے قوی ہونے کے ساتھ قیاس کے بھی موافق ہے لہذا ہمارے نزدیک قصر کا قول ہی راجح ہے ۔
( العبارۃ الاولیٰ )
الدر المختار۔ (2۔134)
طھرت الحائض وبقی لمقصدھا یومان تتم فی الصحیح کصبیی بلغ بخلاف کافراسلم۔ وفی حاشیۃ ابن عابدین ۔(2۔135)
( قولہ تتم فی الصحیح ) کذا فی الظھیریۃ ۔ قال ط وکانہ لسقوط الصلاۃ عنھا فیما مضی لم یعتبر حکم السفر فیہ فلما تاھلت للاداء اعتبر من وقتہ ۔
( قولہ کصبی بلغ ) ای فی اثناء الطریق وقد بقی لمقصدہ اقل من ثلاثۃ ایام فانہ یتمم ولا یعتبر ما مضی لعدم تکلیفہ فیہ ط ( قولہ بخلاف کافر اسلم ) ای فانہ یقصر۔
قال فی الدر لان ینتہ معتبرتہ فکان مسافرا من الاول بخلاف الصبی فانہ من ھذا الوقت یکون مسافرا، وقیل یتمان۔ ۔۔۔۔
قال فی الشرنبلالیۃ : ولا یخفی ان الحائض لا تنزل عن رتبۃ الذی اسلم فکان حقھا القصر مثلہ۔ اھ
واجاب فی نھج النجاۃ بان مانعھا سماوی بخلافہ اھ ای وان کان کل منھما من اھل النیۃ بخلاف الصبی لکن منعھما من الصلاۃ مالیس فلغت نیتھا من الاول، بخلاف الکافر فانہ قادر علی ازالۃ المانع من الابتداء فصحت نیتہ ۔
العبارۃ الثانیۃ
وفی الفتاویٰ التاتارخانیۃ :(2/505 ) الناشر : المکتبۃ الفاروقیۃ کوئٹہ ،
وفی الظھیریۃ: والحائض اذا طھرت من حیضھا وبینھا وبین المقصد اقل من مسیرۃ ثلاثۃ ایام تصلی اربعا ھو الصحیح۔۔۔الخ
العبارۃ الثالثۃ
حلی الکبیر : (ص 466 مکتبۃ نعمانیۃ کوئتہ )
والحائض اذا طھرت وقد بقی بینھا وبین مقصدھا اقل من ثلاثۃ ایام تتم الصلوۃ وھو الصحیح ذکرہ فی الظھیریۃ۔
العبارۃ الرابعۃ
المحیط البرھانی للامام برھان الدین ابن مازۃ۔ 113/2)
واذا اسلم الکافرفی سفرہ بینہ وبین المقصد اقل من ثلاثۃ ایام او اذاادرک الصبی فی سفرہ وبینہ وبین المقصد اقل من ثلاثۃ ایام ، فقد اختلف المشایخ فیہ بعضھم قالوا: الذی اسلم یصلی رکعتین فالذی بلغ یصلی اربعاً وقال بعضھم: یصلیان رکعتین ۔۔الخ
العبارۃ الخامسۃ
حاشیۃ ابن عابدین ۔ (135۔2)
قال فی الشرنبلالیۃ ولا یخفی ان الحائض لا تنزل عن رتبۃ الذی اسلم فکان حقھاالقصر مثلہ ۔
العبارۃ السادسۃ
درر الحکام شرح غرر الاحکام محمد بن فراموز الشھیر بمنلا خسرو۔ (2۔98)
وھو ممن یعتبر قصدہ حتی لو خرج صبی وکافر قاصدین مسیرۃ ثلاثۃ ائام ففی اثنائھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
العبارۃ السابعۃ
احسن الفتاویٰ : 4/187 ایچ ا یم سعیدکراچی )
سوال : کوئی عورت سفر میں حیض کے ساتھ ہو اور ایسی جگہ پہنچ کر پاک ہوئی جہاں سے وطن مسافت سفر سے کم ہو اوراس حالت میں اس پر نماز کا وقت آگیا تویہ قصر پڑھے گی یا پوری نماز پڑھے گی ؟ اگر نماز قضاء ہوگئی تو پوری نماز قضاء کرے گی یا نہ ؟
الجواب باسہم الصواب : خواہ ادا پڑے یا قضاء بہر صورت پوری نماز فرض ہے، قال العلالیۃ طھرت الحائض وبقی لمقصدھا یومان تتم فی الصحیح کصبی بلغ بخلاف کافراسلم۔
یہ حکم جب ہے کہ ابتداء سفر سے حائضہ ہو اگر حالت طہارت میں سفر کی ابتداء ہو تو حیض ختم ہونےکے بعد بھی قصر پڑھے گی۔ کما یفھم من قول ابن عابدین رحمہ اللہ منعھا من الصلاۃ مالیس بصنعھا فلغت نیتھا من الاول ۔
العبارۃ الثامنۃ
بھشتی زیور: (ص 149) دارالاشاعت کراچی )
مسئلہ 12: چار منزل جانے کی نیت سے چلی لیکن پہلی دو منزلیں حیض کی حالت میں گزریں تب بھی وہ مسافر نہیں ہے اب نہا دو کر چاررکعتیں پڑھے ۔ البتہ حیض سے پاک ہونے کے بعد وہ جگہ اگر تین منزل ہو یا چلتے وقت پاک تھی راستہ میں حیض آگیا ہو تو وہ البتہ مسافر ہے ۔
العبارۃ التاسعۃ
ایضاح المکنون۔ (2/695 )
نھج النجاۃ الی المسائل المنتقاۃ۔ لعز الدین ابی العباس حمزۃ بن احمد الحسینی الشریف الدمشقی الشافعی المتوفی سنۃ874اربع وسبعین وثمانمائۃ ( موجود بدارالکتب کوبریلی )
ھدیۃ العارفین۔ (1/178)
الدمشقی: عز الدین حمزۃ بن احمد بن علی الحسینی الشریف ابوالعباس الدمشقی الشافعی توفی سنۃ 874 اربع وسبعین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نھج النجاۃ الی مسائل المنتقاۃ۔
العبارۃ العاشر
طبقات الحنفیۃ۔ 2/68)
محمد بن عبداللہ بن محمد بن عمر ابوجعفر الفقیہ البلخی الھندوائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مائۃ۔الخ
العبارۃ الحادیۃ عشر
اصول الافتاء وآدابہ: للشیخ محمد تقی العثمانی ادام اللہ فیوضھم ( ص 178)
وقد عد العلماء المتاخرون ” المحیط البرھانی ” من ھذا القسم فان ، مؤلفہ وان کان من ۔۔۔الخ
العبارۃ الثانیۃ عشر
وفیہ : ( ص 148 )
قال العبد۔۔۔الخ
العبارۃ الثالثۃ عشر ۔
نور الایضاح ۔ (1/69)
العبارۃ الرابعۃ عشر
مراقی الفلاح۔ ( 1/187 )
العبارۃ الخامسۃ عشر
فتح القدیر للمحقق ابن الھام الحنفی۔ ( 3/149)
العبارۃ السادسۃ عشر
بدائع الصنائع ۔ (1/103)
العبارۃ السابعۃ عشر
الفتاویٰ الھندیۃ ۔ (1/139)
العبارۃ الثامنۃ عشر
الاشباہ والنظائر۔حنفی (1/67)
العبارۃ التاسعۃ عشر
وفی شرح الحموی : (1/149)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب