کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان دین متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مفتی عبد الرؤوف سکھروی صاحب کی کتاب حج و عمرہ کے صفحہ نمبر 40پر خوشبودار صابن کے استعمال کا حکم لکھا ہے:
” اگر خوشبودار صابن جسم کے اندر خوشبومہکانے کی غرض سے استعمال کی الخ”
“اگر خوشبو دار صابن جسم میں خوشبو مہکانے کی غرض سے نہیں استعمال کیا ، بلکہ جسم کے کسی عضوسے میل کچیل دور کرنے کے لیے استعمال کیا تو صدقہ فطر ہے”
اس سے معلوم ہوا کہ خوشبودار صابن کے استعمال میں حکم ، لگاتے وقت غرض استعمال کو دیکھا جائے گا، جبکہ غنیة الناسک کی متعدد عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ اگر خارجی استعمال کی اشیاء میں خوشبوملی ہوئی ہو تو اس کا حکم پینے کی چیزوں میں خوشبو ملے کی مانند ہے اور پینے کی چیزوں میں حکم کا مدار خوشبو ہی پر ہوتا ہے لہذا اگر خوشبوغالب ہو تو دم اور اگر مغلوب ہو تو ایک مرتبہ کے استعمال پر صدقہ اور کئی مرتبہ کے استعمال پر دم واجب ہوگا۔ (حوالجات غنیہ )
برائے مہربانی صحیح کیا ہے وضاحت فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا
الجواب باسم ملہم الصواب
خوشبو دار صابن کے بارے میں کتب فقہ میں کوئی صریح اور واضح جزئیہ نہیں ملتا، البتہ مناسک حج کی کتب میں خوشبو سے مخلوط اشنان (نامی گھاس) سے متعلق ایک جزئیہ مذکور ہے جس سے حاشیہ کتاب میں مولف معلم الحجان رحمہ اللہ نے استیناس کرتےہوئے خوشبودار صابن کے مطلق استعمال پر صدقہ واجب ہونے کا حکم لگایا ہے (لہذا ایک ہی مجلس میں متعدد مرتبہ استعمال کرنےسے دم جبکہ متعدد مجالس میں بار بار استعمال کرنے کی صورت میں ہر مرتبہ کے بدلے ، ایک ایک صدقہ لازم ہوگا۔)
جیسا کہ غنیة الناسک کی عبارات کا مقتضی بھی یہی ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ خار جی استعمال کی خوشبو سے مخلوط اشیاء کے لیے خوشبو سےمخلوط مشروب کا درج بالاحکم جمہور فتقہاء کے موقف کے مطابق ہے ، ورنہ بعض محققین مثل علامہ ابن نجیم، علامہ حلبی اور صاحب ارشاد الساری و غیر ہم رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ جس مشروب میں مائع خوشبو کی مقدار کم اور مغلوب ہو اس کے قلیل (کم) استعمال سے کچھ لازم نہ ہو گا جبکہ زیاد ہ استعمال کرنے سے صرف صدقہ لازم ہو گا، لہذا اس قول کے مطابق خوشبودار صابن کم استعمال سے کچھ لازم نہ ہو گا البتہ زیادہ استعمال کرنے سے صرف صدقہ لازم ہو گا۔
یہ تو نفس مسئلہ سے متعلق تحقیق تھی، عمل کرنے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ حج چونکہ عبادات میں سے ہے اور عبادات میں احتیاط کے پہلو پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے ، لہذا عام حالات میں تو جمہور کے موقف پر ہی عمل کیا جائے، لیکن جہاں اس پر عمل کرنے سے حرج لازم آرہا ہو تو ایسی صورت میں محققین کے مؤقف پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے۔
باقي ” حج و عمرہ” نامی کتاب کی عبارت کے بارے میں خود مؤلف حفظہ اللہ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
نواب الدین
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
٥ محرم ١٤٣٧ ھ
پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کےلیےلنک پرکلک کریں:
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/675484669487448/