فقہیاتِ حلال (1)
(✍ : مفتی سفیان بلند)
1- فلسفہ حلال
قیام امن اس وقت ساری انسانیت کا تقاضہ ہے اور دنیا کا کوئی معاشرہ اور ملک امن کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، اس دنیا کے خالق و مالک اللہ رب العالمین نے معاشرہ میں قیام امن کے کے لئے کسبِ حلال اور اکلِ حلال کو لازم قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (البقرة : ١٦٨)
اے لوگو ! زمین میں جو حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو کہ وہ تمہارے لئے ایک کھلا دشمن ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن اردو)
O people, eat permissible good things out of what lies in the earth, and do not follow the footsteps of ShaiTan (Satan) ; indeed, he is an open enemy for you.
(easy tarjama Qur’an english)
فائدہ : آیت کریمہ میں حلال و حرام کی تمیز کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ یہی تمیز قیامِ امن کا ذریعہ ہے اور اسی کی تمیز کو سمجھانے کے لئے سلسلہ ہدایتِ انسانیت بذریعہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام شروع کیا گیا، چنانچہ مفسرین نے لکھا ہے کہ حلال چیز وہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے شرعاً حلال قرار دیا ہے۔
پھر آیت کریمہ میں اتباعِ خطواتِ شیطان سے روکا گیا ہے کیونکہ یہی سبب ہے بد امنی کا! شیطان کا اتباع کرنے اور اس کی بات ماننے میں سراسر دنیاوی نقصان اور اخروی خسران ہے، دنیاوی ہلاکت اور آخرت کی بربادی ہے، اس لئے اس کا کوئی مشورہ اور کسی بھی عمل کی ترغیب انسانوں کے لئے خیر نہیں ہوسکتی، وہ بنی آدم کا کھلا دشمن ہے، اس نے دشمنی پر کمر باندھی ہوئی ہے، اسے دوزخ میں جانا ہے تو اس کی کوشش یہی ہے کہ سب بنی آدم بھی میرے ساتھ دوزخ میں چلے جائیں، چنانچہ اگلی آیات میں جو امور ذکر فرمائے ہیں، وہ سب بدامنی کے اسباب ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
١- شیطان، ہمیشہ برائی ہی کا حکم دیتا ہے۔
٢- سوء (بے حیائی) اور فحشاء (بد کاری) ہی کا راستہ بتاتا ہے۔
نوٹ : سوء و فحشاء دو متقارب المعنی الفاظ ہیں، لیکن متحد المعنی نہیں، سوء وہ چیز ہے جو عقلاً ناپسندیدہ ہو اور فحشاء وہ ہے جو شرعاً ممنوع ہو۔
السوء والفحشاء ما أنکرہ العقل واستقبحه الشرع والعطف لاختلاف الوصفین (بیضاوی)
یہ فرق بھی کیا گیا ہے کہ سوء میں کوئی حد شرعی مقرر نہیں اور فحشاء میں حد شرعی معین ہوتی ہے، یہ معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔
السوء ما لا حد فیه والفحشاء ما فیه حد حکی عن ابن عباس وغیرہ (قرطبی)
تفسیر معارف القرآن کاندھلوی میں ہے کہ سوء کا تعلق افعال سے ہے اور فحشاء کا تعلق اخلاق سے ہے۔
٣- شیطان انسانیت سے شرک کراتا ہے جو کہ بہت بڑا ظلم ہے، اور جب بندہ اپنے رب کے ساتھ ناانصافی کرے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس کی مخلوق سے انصاف کرے؟
٤- شیطان کا طریقہ ہے کہ وہ انسانیت کو غلط عقائد اور باطل توہمات پر ڈالتا ہے اور پھر یہ سمجھاتا ہے کہ یہ جو کچھ تم کررہے ہو، یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کررہے ہو اور اس کی رضا کے لئے کررہے ہو جو کہ اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے، ومن اظلم من افتری علی اللہ کذباً الخ
٥- کسی حلال کو حرام قرار دینا اور کسی حرام کو حلال قرار دینا بھی شیطانی طریقہ ہے۔ (مستفاد: انوار البیان)
٦- شیطانی طریقہ واردات یہ ہے کہ آسمانی ہدایت اور قرآن پر ایمان مضبوط کرنے کی بجائے انسانیت کو سابقہ ادیان باطلہ اور آبائی تقلید کا بھی حکم دیتا ہے، حالانکہ وہ گمراہی پر تھے، امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسی آیت کی تفسیر میں تقلیدِ آبائی کے ممنوع ہونے کا ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عقائد باطلہ و اعمال فاسدہ میں آباء و اجداد کی تقلید کرنا ہے، عقائد صحیحہ و اعمال صالحہ میں تقلید اس میں داخل نہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کلام میں ان دونوں چیزوں کی وضاحت سورة یوسف میں اس طرح آئی ہے، ارشاد ہے کہ
اِنِّىْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤمِنُوْنَ باللّٰهِ وَهُمْ بالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَائی اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ( یوسف : ٣٧،٣٨)
میں نے ان لوگوں کی ملت و مذہب کو چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور میں نے اتباع کیا اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا!
اس میں پوری وضاحت سے ثابت ہوگیا کہ آباء کی تقلید امورِ باطلہ میں حرام ہے اور اعمالِ حق میں جائز بلکہ مستحسن ہے۔ (مستفاد: معارف القرآن)
٧- حرام کھانے کی نحوست یہ ہے کہ انسان کے قوی ثلاثہ (کان، زبان، آنکھ) فاسد ہوجاتے ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا کہ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ.
(اور جن لوگوں نے کفر (خطواتِ شیطانی) کو اپنا لیا ہے ان (کو حق کی دعوت دینے) کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے کوئی شخص ان کو زور زور سے بلائے جو ہانک پکار کے سوا کچھ نہیں سنتے، یہ بہرے، گونگے اندھے ہیں، لہذا کچھ نہیں سمجھتے) (تفسیر عثمانی)
تفسیر ماجدی میں ہے کہ “صم” یعنی آواز حق کی طرف سے بہرے ہیں (صم عن الحق فلایسمعونه ولا ینتفعون به (ابن جریرعن قتادۃ)
“بکم” یعنی اقرار حق کے لئے ان کی زبان گونگی ہے (بکم عن الحق فلا ینطقون به (ابن جریر عن قتادۃ)
“عمی” یعنی خود اپنے نفع ونقصان کے باب میں اندھے ہیں (عمی عن الھدی فلایبصرونه (ابن جریرعن قتادۃ)
اس سے ملتا جلتا ایک فقرہ توریت میں بھی موجود ہے :
“وہ نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ ان کی آنکھیں لپی گئیں، سو وہ دیکھتے نہیں، اور ان کے دل بھی، سو وہ سمجھتے نہیں” (یسعیاہ 44: 18)
گویا معلوم ہوا کہ سابقہ شریعت میں بھی حلال کھانے کا حکم تھا اور حرام کھانے سے روکا گیا تھا، اس لئے “اکلِ حلال” کا اولین خطاب عمومی انسانیت سے کیا گیا۔
2- آیت کریمہ کا شان نزول
اسباب النزول للواحدی (ص ٤٣) اور تفسیر جمالین میں ہے کہ آیت مذکورہ (یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ الخ) بنو ثقیف، بنو خزاعہ اور بنو عامر ابن صعصعہ اور بنو مدلج کے بارے میں نازل ہوئی، ان لوگوں نے کچھ کھیتیاں، کچھ جانور اپنے اوپر حرام کرلئے تھے اور جن جانوروں کو حرام کیا تھا (ان کی حرمت کے لئے کچھ شرطیں اور قیدیں لگا دی تھیں اور) ان کے نام بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام تجویز کرلئے تھے (سورة مائدہ اور سورة انعام میں ان کی تفصیلات مذکور ہیں) یہ باتیں ان کو شیطان نے بتائی تھیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرنے کا یا حرام کو حلال کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے، یہ جو تحریم و تحلیل کا سلسلہ مشرکین نے نکالا تھا، اس میں شیاطین کو اور بتوں کو راضی رکھنے کے جذبات تھے، اللہ تعالی نے جو چیزیں حلال فرمائی ہیں ان کو حرام کرلینا جائز نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے دین (شریعت) میں تبدیلی کرنے اور تحریف کرنے کے مترادف ہے۔ (مستفاد : انوار البیان)
نوٹ : یٰایُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا (الایة) کے مخاطب اول مکہ کے مشرکین ہیں، سورت کے مدنی ہونے کی وجہ سے اور سورت کا نزول اگرچہ مدنی ہے لیکن نزول مدنی ہو اور خطاب اہل مکہ کو ہو، اس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ (جمالین) اس کے بعد یہ خطاب ساری انسانیت سے ہے۔
ان جانور کے نام جن کو مشرکین بتوں کی نام کرتے اور ان کو اپنے استعمال میں نہ لاتے!
١- بَحیرہ: یہ وہ اونٹنی ہوتی تھی جس کا دودھ بتوں کی نیاز کردیتے تھے، (یہ اونٹنی پانچ مرتبہ بیاہ چکی ہوتی ہے تو اس کا کان چیر کر آزاد چھوڑ دیتے تھے۔ (درمنثور)
اس کا نام بحیرہ اسی لئے ہے کہ وہ اس جانور کے کان کو پھاڑ دیتے تھے، بحیرہ بروزن فَعیلہ بمعنی مفعولہ ہے ، بحر کے معنی شق (پھاڑنے) کے ہیں بحیرۃ یعنی “مشقوقة الاذن” یعنی جس مادہ اونٹنی کا کان علامت کے طور پر پھاڑ دیا جائے وہ بحیرہ کہلاتی تھی۔
٢- سائبہ : وہ جانور جس کو وہ بتوں کے نام چھوڑ دیتے تھے اور اس سے بار برداری وغیرہ کسی قسم کا کام نہ لیتے تھے، وہ بتوں کے نام وقف ہوتا تھا جہاں چاہتا چلا جاتا،کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہوتی۔
٣- وَصِیلہ : وہ جوان اونٹنی جو شروع شروع میں یکے بعد دیگرے دو مؤنث بچے جنم دیتی، درمیان میں مذکر نہ ہوتا، اس کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔
درمنثور میں ہے کہ وَصیلہ وہ اونٹنی ہوتی تھی جس کے پہلے گیابھ (حمل) میں نر اور دوسرے گیابھ میں مادہ پیدا ہوتی تھی، اگر تیسرے گیابھ میں بھی مادہ ہوتی تو بتوں کے نام پر اس کو آزاد چھوڑ دیتے تھے۔
٤- حام : وہ نر اونٹ جو چند بار جفتی کا عمل کرتا، جب وہ ان کی مطلوبہ تعداد میں (یعنی دس مرتبہ) عمل جفتی سر انجام دیتا، (اور اس سے دس بچے پیدا ہوجاتے تو) اس کو بھی بتوں کے نام کردیتے تھے اسے حوامی کہتے، اس پر بھی کسی قسم کی بار برداری نہ کرتے تھے۔ (بغوی)
3- تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ تعالی ہی کے ساتھ خاص ہے
اللہ تعالی کی ذات شارع ہے اور اس نے اپنے احکامات کو زندہ کرنے کے لئے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو شارح بنایا ہے، چنانچہ تحلیل و تحریم کا منصب بھی اسی کی ذات کے ساتھ خاص ہے یا اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے، چنانچہ اس خدائی منصب یعنی کھانے پینے کی اشیاء کو حلال و حرام قرار دینے میں کسی کو دخل کی اجازت نہیں، سورۃ مائدہ میں ارشاد ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ.
(اے ایمان والو ! اللہ نے جو چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حدود سے آگے مت نکلو، بلاشبہ اللہ حد سے نکلنے والوں سے محبت نہیں فرماتے)
اسی طرح کسی بھی امر مباح کو حرام و حلال مقرر فرمانے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔ خواہ اس نے قرآن میں نازل فرمایا ہو یا اپنے رسول حضور اکرم ﷺ کی زبانی بتایا ہو، سورہ نحل میں ارشاد ہے :
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ۔
(اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا زبانی جھوٹا دعویٰ ہے ان کی نسبت یوں مت کہو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگاؤ گے)
4- قانون کی پابندی
قرآن کریم کا اسلوب بیان مختلف ہوتا ہے، چنانچہ موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے کبھی خطاب عام ہوتا ہے جیسے “یایھا الناس” یعنی اے لوگو ! اے بنی نوع انسان (یہ خطاب ٢٠ جگہ ہے) اور کبھی خطاب خاص ہوتا ہے جیسے “یایھا الذین امنوا” (یہ خطاب ٨٩ جگہ ہے) اور “یا أھل الکتب” (اہل کتاب کو خطاب ١٣جگہ ہے، چھ جگہ اہل الکتاب، چھ جگہ یاأھل الکتاب اور ایک جگہ یاایھا الذین ھادوا آیا ہے) وغیرہ.
آیت بالا میں خطاب عام ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے حکم دیا جا رہا ہے، یہاں یہ حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو قانون کی پابندی کا درس دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حلال قرار دی ہیں، صرف انہیں استعمال کرو اور حرام خوری سے بچ جاؤ، اگر تم اللہ تعالی کے قائم کردہ اس قانون کی پابندی نہیں کروں گے، تو اصل راستے سے بہک کر شیطان کے نقش قدم پر چلنے لگو گے، نتیجہ ظاہر ہے کہ ترقی کے مقام ہدایت کی معراج پر پہنچنے کی بجائے ظلمت کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچ جاؤ گے۔
امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حجة اللہ البالغة میں اس موضوع پر باب باندھ کر بات سمجھائی ہے، فرماتے ہیں کہ ہر انسان مکلف ہے اور مکلف سے مراد قانون کی پابندی کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی ساخت میں مَلَکِیت اور بَہِیمیت دونوں مادے رکھے ہیں اور ان دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان قانون کی پابندی کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کریگا تو اس کے حصے میں ناکامی اور محرومی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔
نسلِ انسانی متمدن نسل ہے اور یہ دیہات، قصبوں اور شہروں میں مل جل کر رہتی ہے، ظاہر ہے کہ اس صورت میں کسی قانون کی پابندی اس وقت تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی جب تک وہ اجتماعی صورت میں نہ ہو، قانون پر عملدر آمد بھی اسی حالت میں ممکن ہے جب کہ لوگوں کو قانون سے واقفیت ہو اور اس کے لئے قانون کی تعلیم کا عام ہونا ضروری ہے تاکہ معاشرے کا کوئی فرد قانون کے جاننے سے بے بہرہ نہ رہ جائے، جب یہ حجت پوری ہوجائے گی تو پھر قانون کے جاننے سے بے بہرہ نہ رہ جائے، جب یہ حجت پوری ہوجائے گی تو پھر قانون شکنی کرنے والے کے خلاف کارروائی بھی لازم ہوجائیگی، تاکہ معاشرہ اس قسم کے فساد سے محفوظ رہ سکے، قانون شکن کوئی فرد واحد ہو یا جماعت وہ قانون کی مقرر کردہ تعزیر کی زد میں ضرور آئے گا اور اگر کوئی دوسری باہر کی جماعت قانون کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گی تو اس کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہوگا تاکہ فتنہ و فساد کا دروازہ فوراً بند کیا جاسکے۔ (تفسیر معالم العرفان)
5- حلال و طیب کا مفہوم اور کچھ لغوی و نحوی فوائد
١- مما فی الارض میں مِنْ تبعیضیہ ہے یعنی زمین کی بعض اشیاء مراد ہیں کیونکہ تمام اشیائے زمین کھانے والی نہیں ہیں۔ (مدارک و ماجدی)
٢- لفظ حلال کے اصلی معنی گرہ کھولنے کے ہیں یعنی جو چیز انسان کے لئے حلال کردی گئی گویا ایک گرہ کھول دی گئی اور پابندی ہٹا دی گئی۔ (معارف)
“حلالا” سے مراد جو غذائیں خود جائز ہیں اور حرام نہیں کی گئی ہیں، فالحلال ما أحله الشرع (معالم) المراد منه مایکون جنسه حلالا (کبیر، مستفاد از ماجدی)
حضرت سہل بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نجات تین چیزوں میں منحصر ہے : حلال کھانا، فرائض ادا کرنا، اور حضور اکرم ﷺ کی سنت کی اتباع کرنا۔
٣- لفظ طیب کے معنی ہیں پاکیزہ جس میں شرعی حلال ہونا بھی داخل ہے اور طبعی مرغوب ہونا بھی۔ (معارف)
“طیبا” یعنی جو غذائیں حاصل بھی جائز ذرائع سے ہوئی ہوں اور جن میں غیر کا حق نہ ہو، مثلا بیع فاسد نہ ہو، اجرت فاسد نہ ہو، وغیرها. المراد منه ان لایکون متعلقا به حق الغیر (کبیر) الطیب الطاھر (معالم/ مستفاد از ماجدی)
مفسر القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے مستجاب الدعوات بنادے، حضور اکرم ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ پاکیزہ لقمہ کا التزام کرلو، خود بخود مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے،یہ ہے اسلام میں اکل حلال کی اہمیت !
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حلال روزی مؤمن کے لئے عبادت کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ عبادات کی قبولیت بھی اسی سے وابستہ ہے۔
سوال : جب “حلالاً ” سے شرعاً پاکیزہ چیز مراد ہے تو پھر اس کے بعد “طیباً” کو ذکر کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟ اس لئے کہ جو چیز شرعاً حلال ہوتی ہے وہ پاک ہی ہوتی ہے۔
جواب : طیبًا صفت مؤکدہ ہے نہ کہ احترازیہ۔ (جمالین)
٤- خُطُوٰتِ خطوة کی جمع ہے، اتنی مقدار کو خطوہ کہتے ہیں جو دونوں قدموں کے درمیان کا فاصلہ ہے خطوات شیطان سے مراد شیطانی اعمال و افعال ہیں۔ (معارف القرآن)
“ولا تتبعوا خطوات الشیطان”
ابو جعفر، ابن عامر، کسائی، حفص اور یعقوب رحمہم اللہ نے طاء کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے اور باقیوں نے طاء کی جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور “خطوات الشیطان” اس سے مراد شیطان کے آثار و نشانات اور غلط کاریاں ہیں، بعض نے کہا کہ “خطوات الشیطان” سے مراد گناہوں والی نذریں ماننا ہے جو کہ شرعا جائز نہیں۔
ابوعبیدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد چھوٹے گناہ ہیں، زجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں “خطوات الشیطان” سے مراد شیطان کے راستے ہیں۔ (بغوی)
خطوات شیطان پر چند اہم روایات
١- حضرت مسروق رحمہ اللہ ام المئومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رشتہ دار اور شاگرد ہیں، آپ تابعین میں سے ہیں، کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ اگر کسی نے بچے کو ذبح کرنے کی منت مانی ہو، تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ بچے کی بجائے بکری ذبح کر دے تو اس کی نذر پوری ہوجائے گی کیونکہ بچے کو ذبح کرنا شیطان کے نقش قدم پر چلنے والی بات ہے اور شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے۔
٢- حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ ان کے پاس سفید انگور اور نمک لایا گیا، انہوں نے کھانا شروع کردیا، ایک شخص علیحدہ بیٹھا تھا، آپ نے اس سے بھی فرمایا کہ کھالو، اس نے کہا میں نہیں کھاتا، فرمایا کہ کیا تم روزے سے ہو ؟ کہا کہ نہیں! فرمایا کہ پھر کیا بات ہے (کیوں نہیں کھاتے ہو) اس نے کہا میں نے انگور کھانے کو (اپنے اوپر) ہمیشہ کے لئے حرام کرلیا ہے، آپ نے فرمایا کہ یہ حرام کرنا لفظ آیت “خطوات الشیطن” میں سے ہے، اس کو کھالو اور اپنی قسم کا کفارہ دو۔
٣- ایک آدمی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں ایسا ایسا نہ کروں تو مجھ پر گھٹنوں کے بل چل کر حج کرنا لازم ہے، آپ نے فرمایا کہ یہ خطوات الشیطان میں سے ہے تو سواری پر حج کر اور اپنی قسم کا کفارہ دے۔
٤- حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے نذر مانی تھی کہ وہ اپنی ناک میں سونے کا ایک حلقہ ڈالے گا، آپ نے فرمایا کہ یہ خطوات الشیطان میں سے ہے، وہ آدمی ہمیشہ گناہ گار رہے گا، اس کو چاہیئے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دے۔ (معالم العرفان و درمنثور)
٥- ابو رافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں، ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، اب میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ شیطان کے قدموں کی پیروی ہے، پھر میں حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہ عورت کوئی نہ تھی، میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے برابر دیدے۔ (ابن کثیر)
6- شیطانی جال اور چال
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک اور قیامت تک شیطان اپنی دشمنی کا اظہار کرتا رہے گا، اس کے عزائم واضح ہیں “انما یدعوا حزبه لیکونوا من اصحاب السعیر” وہ اپنے لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کے گروہ میں شامل ہو کر دوزخ میں داخل ہوجائیں، چنانچہ حلال روزی سے ہٹاکر حرام کی طرف دعوت دینا دراصل دنیا و آخرت کی بربادی کی دعوت ہے، جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ شیطان اس کے لئے باقاعدہ کچہری لگاتا ہے کہ انسانیت کو گمراہ کرے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ابلیس علیہ اللعنة اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے پھر اپنے لشکر کے لوگوں کو بہکانے کے لئے بھیجتا ہے، اس کے یہاں ادنیٰ سے ادنیٰ مرتبہ کا شیطان بھی دنیا میں بڑے بڑے فتنے پھیلا دیتا ہے، چنانچہ جب وہ بہکا کر آتے ہیں تو ہر ایک اپنی اپنی کارگذاری بیان کرتا ہے، ایک کہتا ہے کہ میں نے آج فلاں بڑا کام کرادیا، ابلیس کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا پھر ایک اور آتا ہے وہ کہتا ہے میں نے بہت بڑا کام کیا ہے، ایک شخص اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال دی، ابلیس سن کر خوب خوش ہوتا ہے اور اس کو مقرب بناتا ہے اور کہتا ہے تو نے خوب کام کیا۔ (معالم العرفان و مظہری از مسلم)
ناشر : دارالریان کراتشی