فتویٰ نمبر:1087
سوال: محترم جناب مفتیان کرام! آج کل حلال بھنویں بنوانے کا جو رواج چل پڑا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
والسلام
الجواب بعون الملک الوھاب
بھنویں بنوانا جائز نہیں لیکن اگر کسی کی بھنویں اتنی بڑھ جائیں کہ بدنما معلوم ہوں تو ارد گرد سے کچھ بال صاف کر کے عام حالات پر لانے کی گنجائش ہے ۔نیز بھنوئیں بیچ سے مل جائیں تو درمیان کے بال صاف کرنا بھی جائز ہے۔ اگر بھنوں کے بال اتنے لمبے ہو جائیں کہ مردوں کے ساتھ مشابہت ہو تو عورت کے لیے ان بدنما بھنوؤں کو قدرتی شکل میں لانے کی گنجائش ہے تاکہ مردوں سے مشابہت ختم ہو جائے.
حلال بھنوؤں سے اگر یہی مراد ہے تو اس کی تو گنجائش ہے ،تاہم عام حالات میں اور ہر ایک کے لیے اجازت نہیں ۔واضح رہے کہ یہ اجازت و گنجائش صرف ان خواتین کے لیے ہے جن کے بھنوؤیں زیادہ ہونے کی وجہ سے بدنما معلوم ہوتی ہوں۔لہذا بقدر ضرورت صرف اس عیب کو دور کرکے عام قدرتی شکل میں لانے کی گنجائش ہے،بشرط یہ کہ فیشن کے لیے اور فاسقات اور ہجڑوں سے مشابہت نہ ہو۔جبکہ تیر کمان کی طرح خاص شکل میں لانے کی کسی صورت اجازت نہیں.
“ولا بأس أخذ الحاجبین وشعر وجہہ ما لم یشبہ المخنث۔”
(شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / فصل في اللبس ۹؍۵۲۶ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب التاسع عشر ۵؍۳۵۸)
“عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن اللّٰہ الواشمات والمستوشمات، والمُتنمِّصات، والمتفلجات للحسن المغیرات خَلْقَ اللّٰہ تعالیٰ۔”
(صحیح مسلم ۲؍۲۰۵ رقم: ۲۱۲۵ بیت الأفکار الدولیۃ، صحیح البخاري، کتاب اللباس / باب المتفلجات للحسن ۲؍۸۷۸ رقم: ۵۹۳۱ دار الفکر بیروت، سنن النسائي ۲؍۲۴۹ رقم: ۵۱۰۷، صحیح ابن حبان ۷؍۴۱۶ رقم: ۵۴۸۱، المعجم الکبیر للطبراني ۹؍۲۹۲ رقم: ۹۴۶۹، السنن الکبریٰ للبیہقي ۷؍۵۵۰ رقم: ۱۴۸۳۳، مشکاۃ المصابیح ۳۸۱)
“قال شیخ الإسلام المفتي محمد تقي العثماني تحتہ: وأکثر ما تفعلہ النساء في الحواجب وأطراف الوجہ ابتغاء للحسن والزینۃ فہوحرام بنص ہٰذا الحدیث۔”
(تکملۃ فتح الملہم ۴؍۱۹۵ دار العلوم کراچی)
وَعَنْهَا قَالَتْ: أَوَمَتِ امْرَأَةٌ مِنْ وَرَاءِ سِتْرٍ بِيَدِهَا كِتَابٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَقَالَ:«مَا أَدْرِي أَيَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأَةٍ؟» قَالَتْ:بَلْ يَدُ امْرَأَةٍ قَالَ:«لَوْ كُنْتِ امْرَأَةً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ» يَعْنِي الْحِنَّاء.”
(رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ(مشکو ةص393)
“عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم․ “
(رواہ أحمد وابوداود (مشکاة: ۳۷۵)
“عن عبد اللہ بن عمرو قال مرَّ رجل وعلیہ ثوبان أحمران فسلّم علی النبي صلی اللہ عیلہ وسلم فلم یردّ علیہ․”
( رواہ الترمذي وأبوداوٴد․ (مشکاة: ۳۷۵)
” عن ابن عباس قال قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ المتشبہین من الرجال بالناس والمشبہات من النساء بالرجال”
(رواہ البخاری باب المتشبہین بالنساء)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:29 ربیع الاول،1440ھ
عیسوی تاریخ:7دسمبر،2018ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: