مفتی سعید احمد دام اقبالہ
بعض اہل اللہ نے فرمایا:حجر اسود جنت کا پتھر ہے اور یہ کسوٹی ہے ۔ جس طرح کسوٹی سونے کے کھرا،کھوٹا ہونے کو ظاہر کردیتی ہے اسی طرح حجر اسود کا استیلام(اس کو چومنا یا ہاتھ لگانا یا اشارہ کرنا )انسان کے ایمان اور اس کے اندرکی چیز کو ظاہر کردیتاہے۔ اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ بعض حاجی حضرات حج سے آنے کے بعد دھوکہ فریب، فراڈ اور گناہوں میں پہلے سے زیادہ مبتلا ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو اس پر اشکال ہوتاہے کہ حج کے بعد تو یہ اور بگڑگیا۔ حالانکہ اُصولی بات یہی ہے کہ حج نے، استلام نے اس کی اصلیت ظاہر کردی اور پتہ چل گیا کہ اس کی حقیقت کیا تھی ؟ اسی طرح اگر حج کے بعد اعما ل میں ترقی ہورہی ہے اور الحمدللہ!داڑھی رکھ لی جبکہ پہلے داڑھی نہ تھی تو اندر کا ایمان ظاہر ہوگیا۔ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ حج کے بعد اس کے اندر نیکی اور خیر کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی تبدیلی آنی چاہیے۔ ورنہ اس کے لیے بہت ہی خطرے اور نقصان کی بات ہوگی ۔ حج میں دکھاوا اور نمود سے جتنا بچاجائے اتنا ہی حاجی کے لیے اچھی علامت ہے۔ دیکھا یہ گیا کہ حج میںدکھاوا نمود زیادہ کیا جاتاہے۔ حاجی صاحب ہارپہنے ہوئے لوگوں کے مجمع میں ، ناز وانداز سے چلے جارہے ہیں جبکہ اعمال کے اعتبار سے حالت یہ ہورہی ہوتی ہے کہ نماز قضاہورہی ہے اس کی پروانہیں۔ لوگوں کو حاجی صاحب سے تکلیف ہورہی ہے ، اس کا کوئی خیال نہیں۔ اللہ معاف فرمائے !بعض مرتبہ ایسا بھی دیکھا گیا کہ عرفات اور منیٰ کی میدان میں حاجی صاحب کے خیمے سے گانوں اور سازوباجے کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور حاجی صاحب کو اس گناہ کا احساس اور ندامت بھی نہیں۔ بسوں میں بیٹھے بیٹھے کئی نمازیں قضاہوجاتی ہیں اور ان کی کوئی فکر نہیں ۔
بعض حاجی حضرات دکھلاوے اور نمود کے لیے لمبی چوڑی دعوتیں کرتے ہیں جس سے مقصود محض شہرت ، ریا کاری، لوگوں کو اپنا حاجی باور کرانا ہوتاہے، جیسے کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے ایک وعظ میں فرمایا کہ وہ ایک حاجی صاحب سے ملنے گئے حاجی صاحب نے اپنے خادم سے یہ کہا کہ میرے پہلے حج والے کین سے پانی لے کر آؤ۔ مقصود یہ دکھلانا تھا کہ میں الحاج ہوں۔ میں نے کئی دفعہ حج کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے۔ حج کی عظمت ہمارے دلوں میں بٹھادے اور ہمارے حج کو حج مبرور بنادے! تاکہ دنیا وآخرت کے نقصان سے بچ جائیں!
(بشکریہ ماہ نامہ زاد السعید کراچی)