حج افراد کا طریقہ 

فتویٰ نمبر:4086

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

حج افراد کے طریقے کی وضاحت فرما دیں۔ کیا اس میں قربانی ضروری ہے؟ اور احرام کی حالت سے باہر کب آتے ہیں؟

والسلام

الجواب حامدا ومصلیا

افراد کا مطلب ہے: صرف حج کرنا اور حج افراد یہ ہے کہ میقات سے حج کا احرام باندھ کر مکہ جائےاور طواف قدوم مسنون طریقے سے کرے۔ مفرد کے لیے طواف قدوم سنت ہے پھر سعی کرے مفرد کے لیے سعی طواف زیارت کے بعد افضل ہے۔ پھر طواف قدوم اور سعی کے بعد مفرد حالت احرام میں ہی مکہ میں قیام کرے اور نفل طواف جس قدر چاہے کرتا رہے اور ممنوعات احرام سے بچتا رہے البتہ عمرہ نہ کرے۔ پھر آٹھ ذوالحجہ کو فجر مکہ میں ادا کرے اور ایسے وقت منی پہنچے کہ ظہر کی نماز مستحب وقت میں پڑھ سکے رات کو منی میں رہے اور پانچ نمازیں ظہر سے فجر تک وہیں پڑھے۔

نو ذو الحجہ کو نماز فجر کے بعد عرفہ جائے اور میدان عرفات میں وقوف کرے وقوف عرفہ حج کا اہم رکن ہے اگرچہ ایک لمحہ ہی ہو، خواہ کسی طرح سے ہو نیت ہو یا نہ ہو۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی عرفات میں داخل نہ ہو تو وقوف نہیں ہوگا۔ 

نو ذوالحجہ کے دن زوال سے لے کر غروب آفتاب تک وقوف کرنا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص غروب آفتاب سے پہلے عرفات کی حد سے نکل گیا تو واجب چھوڑنے کی وجہ سے دم واجب ہو گا لیکن اگر سورج غروب ہونے سے پہلے واپس آگیا تو دم ساقط ہوجائے گا ۔

جب سورج غروب ہوجائے تو مزدلفہ کی طرف روانہ ہو۔ عرفات سے سورج غروب ہونے سے پہلے نکلنا جائز نہیں اگر پہلے نکل جائے تو دم واجب ہوگا۔ پھر مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز اکٹھی پڑھے مزدلفہ میں دونوں نماز اکٹھی پڑھنا واجب ہے۔ مزدلفہ میں رات عبادت ودعا میں گزارے اور رمی کے لیے کنکریاں چن لے۔

دسویں ذوالحجہ کو فجر کی نماز پڑھ کر سورج طلوع ہونے سے پہلے منی جائے اور جمرہ عقبی کی سات کنکریوں کے ساتھ رمی کرے، تلبیہ پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی ختم کر دے، دسویں کی رمی کا وقت صبح صادق سے گیارہویں کی صبح صادق سے پہلے تک ہے البتہ رمی کرنا ، طلوع آفتاب سے زوال تک مسنون ہے اور غروب آفتاب تک مباح ہے پھرقربانی کرے مفرد کے لیے قربانی مستحب ہے واجب نہیں۔

اس کے بعد سر منڈوا کر احرام سے نکل جائے اب وہ تمام ممنوعات احرام حلال ہوجائیں گے جو احرام کی وجہ سے منع تھے سوائے بیوی کے جو طواف زیارت کے بعد حلال ہوگی۔ اس کے بعد طواف زیارت کرے جو دسویں کو کرنا افضل ہے ورنہ بارہ تاریخ کے سورج غروب ہونے تک کرسکتا ہے۔ اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی تو طواف زیارت کے ساتھ رمل بھی کرے اور اگر احرام اتار لیا ہے تو اضطباع بھی نہ کرے ورنہ اضطباع کرے اب طواف زیارت کے بعد بیوی بھی حلال ہوجائے گی۔ اس کے بعد منی میں قیام کرے گیارہویں کو زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرے اسی طرح بارھویں کو بھی رمی کرے پھر چاہے تو مکہ واپس آجائے، افضل یہ ہے کہ تیرھویں کو زوال کے بعدرمی کرکے آئے ـ بس اب مفرد کاحج مکمل ہوچکا جب تک چاہے مکہ میں قیام کرے اور خوب طواف اور عمرہ کرے مگر عمرہ تیرہ کے بعد کرے کیونکہ نو سے تیرہ ذی الحجہ تک عمرہ کرنا منع ہے۔

مکہ سے رونگی کے وقت طواف وداع کرے یہ طواف واجب ہے اگر نہ کیا تو میقات سے نکلنے سے پہلے واپس آناواجب ہے اور نکل جانے کے بعداختیار ہے کہ دم دے دے یا احرام باندھ کر پہلے عمرہ کرے اس کے بعد طواف وداع کرے گو کسی نےاگر طواف زیارت کے بعد نفل طواف کیا ہو تو اس کا طواف وداع ہوجائے گا آئے پھر قربانی کے تینوں دن کے درمیان مکہ کی طرف جائےاللہ کے حضور گڑگڑائے جو چاہے دعا کرے۔

” عن نافع عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رجلا قال يا رسول الله ما يلبس المحرم من الثياب قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يلبس القمص ولا العمائم ولا السراويلات ولا البرانس ولا الخفاف إلا أحد لا يجد نعلين فليلبس خفين وليقطعهما أسفل من الكعبين ولا تلبسوا من الثياب شيئا مسه الزعفران أو ورس”۔

{بخاری: ۱۴۶۸}

“لیس لأہل مکۃ تمتع ولا قران، وإنما لہم الإفراد خاصۃ (وقولہ): ومن کان داخل المیقات فہو بمنزلۃ المکي حتی لا یکون لہ متعۃ ولا قران۔”

{الہدایہ: ۱/ ۲۶۳}

“قال في المبسوط: والإفراد بالحج أن یحج أولاً ثم یعتمر بعد الفراغ من الحج أو یؤدي کل نسک في سفر علی حدۃ أو یکون أداء العمرۃ في غیر أشہر الحج۔”

{غنیۃ الناسک:۲۱۱}

“أنہ إذا أتم الإحرام بحج أو عمرۃ لایخرج عنہ إلا بعمل ما أحرم بہ۔”

{الدرالمختار: ۲/۴۸۰}

” “ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح.

وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا”.

{ الدر المختار وحاشية ابن عابدين :۲/۱۲۵}

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:۱۲ جمادی الثانی ۱۴۴۰

عیسوی تاریخ:۱۷ فروری ۲۰۱۹

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں