تمدنی زندگی میں لین دین کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اپنی کوئی چیز ہدیہ اور تحفہ کے طور پر کسی کو پیش کردی جائے ، رسول اللہ نے اپنے ارشادات میں اس کی بڑی ترغیب دی ہے ۔ا س کی یہ حکمت بھی بتلائی ہے کہ اس سے دلوں میں محبت والفت اور تعلقات میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے جو ا س دنیا میں بڑی نعمت اور بہت سی آفتوں سے حفاظت اور عافیت وسکون حاصل ہونے کا وسیلہ ہے ۔
ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے اورا س کے ساتھ اپنا تعلق خاطر ظاہر کرنے کےلیے دیا جائے اور اس کے ذریعے رضائے الٰہی مطلوب ہو۔ یہ عطیہ اور تحفہ اگر اپنے کسی چھوٹے کو دیاجائے توا س کے ساتھ اپنی شفقت کا اظہار ہے ‘اگر کسی دوست کو دیاجائے تو یہ ازدیاد محبت کا وسیلہ ہے اگر کسی ایسے شخص کودیاجائے جس کی حالت کمزور ہے تو یہ ا س کی خدمت کے ذریعہ اس س کی تطبیب خاطر کا ذریعہ ہے اور اگر اپنے کسی بزرگ اور محترم کو پیش کیاجائے تو ان کا اکرام ہے اور “نذرانہ ” ہے ۔
اگر کسی کو ضرورت مند سمجھ کر اللہ کے واسطے اور ثواب کی نیت سے دیاجائے رو یہ ہدیہ نہ ہوگا صدقہ ہوگا ۔ ہدیہ جب ہی ہوگا جبکہ اس کے ذریعے اپنی محبت اور اپنے تعلق خاطر کا اظہار مقصود ہو اور اس کے ذریعہ رضائے الٰہی مطلوب ہو ۔
ہدیہ اگر اخلاص کے ساتھ دیاجائے تو ا س کا ثواب صدقہ سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات زیادہ ہوگا ۔ ہدیہ اورصدقہ کے اس فرق کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ شکریہ اور دعا کے ساتھ قبول فرماتے اورا س کو خود بھی استعمال فرماتے تھے ۔ا ور صدقہ کو بھی اگر چہ شکریہ کے ساتھ قبول فرماتے اور اس پر دعائیں بھی دیتے لیکن خودا ستعمال نہیں فرماتے تھے ‘دوسروں ہی کو مرحمت فرمادیتے تھے ۔
افسوس ہے کہ امت میں باہم مخلصانہ ہدیوں کی لین دین کا رواج بہت ہی کم ہوگیا ہے ۔ بعض خاص حلقوں میں بس اپنے بزرگوں ‘عالموں’ مرشدوں کو ہدیہ پیش کرنے کا تو کچھ رواج ہے لیکن اپنے عزیزوں ‘ قریبوں ‘ پڑوسیوں وغیرہ کے ہاں ہدیہ بھیجنے کارواج بہت ہی کم ہے حالانکہ قلوب میں محبت والفت اور تعلقات میں خوشگواری اور زندگی میں چین وسکون پیدا کرنے اورا سی کے ساتھ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیےیہ رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا “نسخہ کیمیا ” تھا ۔ اس تمہید کے بعد ہدیہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل چند ارشادات پڑھیے !
ہدیہ دلوں کی کدورت دور کرکےمحبت پیدا کرتا ہے
عن عائشہ عن النبی ﷺ قال تھادوا فان الھدیۃ تذھب الضغائن۔ ( رواہ الترمذی )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” آپس میں ہدیے تحفےبھیجا کرو’ ہدیہ تحفے دلوں کے کینے ختم کردیتے ہیں ۔” ( جامع ترمذی)
عن ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال تھادوا فان الھدیۃ تذھب وحر الصدر ولا تحقرن جازۃ لجارتھا ولو شق فرسن شاۃ ۔ ( رواہ الترمذی )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں ہدیے تحفے دیاکرو’ ہدیہ سینوں کی کدورت ورنجش دور کردیتا ہے اور ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے ہدیہ کے لیے بکری کے گھر کے ایک ٹکڑے کو بھی حقیر اور کمتر نہ سمجھے ۔ ( جامع ترمذی)
تشریح : ہدیے تحفے دینے سے باہمی رنجشوں اور کدورتوں کا دور ہونا’دلوں میں جوڑ ‘ تعلقات میں خوشگواری پیداہونا بدیہی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس زریں ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو یہ اضافہ ہے کہ ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے لیے بکری کے گھر کے ٹکڑے کے ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھے۔اس سے حضور ﷺ کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ ہدیہ دینے کے لیے ضروری نہیں کہ بہت بڑھیا ہی چیز ہو، اگر اس کی پابندی اورا س کا اہتمام کیاجائے گا تو ہدیہ دینے کی نوبت بہت کم آئے گی ، اس بالفرض اگر گھر میں بکری کے پائے پکے ہیں تو پڑوسن کو بھیجنے کے لیے اس کے ایک ٹکڑے کو بھی حقیر نہ سمجھاجائے وہی بھیج دیا جائے۔
( واضح رہے کہ یہ ہدایت اس حالت میں ہے جب اطمینان ہو کہ پڑوسن خوشی کے ساتھ قبول کرے گی اورا س کو اپنیس توہین وتذلیل نہ سمجھے گی ‘ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ماحوال ایسا ہی تھا ۔ )
ہدیہ کا بدلہ دینے کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول اورآپ ﷺ کی ہدایت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول ودستور تھا کہ آپ ﷺ ہدیہ تحفہ قبول فرماتے تھے اور اس کے جواب میں خود بھی عطا فرماتے تھے ۔ ( صحیح البخاری )
تشریح : مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کو جب کوئی محب ومخلص ہدیہ پیش کرتا توآپ ﷺ خوشی سے قبول فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد “هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ” کے مطابق اس ہدیہ دینے والے کو خود بھی ہدیے اور تحفے سے نوازتے تھے ( خواہ اسی وقت عنایت فرماتےیا دوسرے وقت ) آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ نے امت کو بھی اس طرز عمل کی ہدایت فرمائی اور بلاشبہ مکارم اخلاق کا ر تقاضا یہی ہے لیکن افسوس ہے کہ امت میں بلکہ خواص امت میں بھی اس کریمانہ سنت کا اہتمام بہت کم نظر آتا ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو ہدیہ دیاجائے تو اگر اس کے پاس بدلہ میں دینے کے لیے کچھ موجود ہوتو وہ اس کو دے دے اور جس کے پاس بدلہ میں تحفہ دینے کے لیےکچھ نہ ہوتو وہ ( بطور شکریہ کے ) اس کی تعریف کرے اورا س کے حق میں کلمہ خیر س کہے ‘ جس نے ایسا کیا اس نے شکریہ ادا کردیا اور جس نے ایسانہیں کیا اوراحسان کے معاملہ کو چھپایا اس نے ناشکری کی ۔ا ور جو کوئی اپنے کو آراستہ دکھائے اس صفت سے جو اس کو عطا نہیں ہوئی تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جو دھوکے فریب کے دو کپڑے پہنے ۔ ( جامع ترمذی’ سنن ابی داؤد )
تشریح : اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جس کو کسی محب کی طرف سے ہدیہ تحفہ دیاجائے تو اگر ہدیہ پانے والا اس حال میں ہو کہ اس کے جواب اور صلہ میں ہدیہ تحفہ دے سکے تو ایسا ہی کرےاور اگر اس کی مقدرت نہ ہوتو اس کے حق میں کلمہ خیر کہے اور اس کےا س احسان کا دوسروں کے سامنے بھی تذکرہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ا س کو بھی شکر سمجھاجائے گا ۔ ( اورآگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہوگا کہ ” جزاک اللہ ” کہنے سے بھی یہ حق ادا ہوجاتا ہے ) اور جو شخص ہدیہ تحفہ پانے کے بعد اس کا اخفا کرے ،زبان سے ذکر تک نہ کرے ” جزا ک اللہ ” جیسا کلمہ بھی نہ کہے تو وہ کفران نعمت اور ناشکری کا مرتکب ہوگا ۔
حدیث کے آخری جملے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ جو شخص اپنی زبان یا طرز عمل یا خاص قسم کے لباس وغیرہ کے ذریعے اپنے اندر وہ کمال ( مثلا ً عالمیت یا مشخیت ) ظاہر کرے جو ا س میں نہیں ہے تو وہ ا س دھوکہ باز اور فریبی بہروپیئے کی طرح ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے باعزت اور باوقار لوگوں کا لباس پہنے ۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ عرب میں کوئی شخڈص تھا جو نہایت گھٹیا اورذلیل درجہ کا آدمی تھا لیکن وہ باعزت اور باوقار لوگوں کے سے نفیس اور شاندارکپڑے پہنتا تھا تاکہ اس کو معززین میں سمجھا جائے اورا س کی گواہی پر اعتبار کیاجائے ‘ حالانکہ وہ جھوٹی گواہیاں دیتا تھا۔
ہدیہ تحفہ سے متعلق مذکورہ بالا ہدایت کے ساتھ اس آخری جملہ کے فرمانےسے حضور ﷺ کا مقصد غالباً یہ ہے کہ کوئی شخص جس میں وہ کمالات اوروہ اوصاف نہ ہوں جن کی وجہ سے لوگ ہدیہ وغیرہ پیش کرنا سعادت سمجھتے ہیں ۔ ایسا شخص اگر لوگوں کے ہدیے کے تحفے حاصل کرنے کے لیے اپنی باتوں اور اپنے لباس اور اپنے طرز زندگی سے وہ کمالات اور اوصاف اپنے لیے ظاہر کردے تو یہ فریب اور بہروپیا پن ہوگا اور یہ آدمی اس روایتی لابس۔۔۔ کی طرح مکار اور دھوکے باز ہوگا ۔
واللہ اعلم