من تشبه بقوم فھو ا منھم کا مفہوم جانیے

سوال:من تشبه بقوم فھو ا منھم..جس قوم کی مشابھت کیا قیامت میں ان میں ھی شمار ھوگا… جو حدیث ھے .وه عقاید کیلیے یا ظاھری شکل و صورت .رھن سھن کے طریقے .شادی وغیره کے تقریبات کیلئےھے؟

اور آپ صلی الله علیه وسلم نے یه کس موقع پر ارشاد فرمایا تھا؟؟

جواب:شریعت مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہلباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو غیرمسلموں کے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ذیل میں ان میں سے کچھ احکامات ذکر کیے جاتے ہیں:

اللہ رب العزت کی طرف سے بواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرمسلمین کفارویہود اور نصاریٰ سے دور رکھنے کی متعدد مقامات پر تلقین کی گئی مثلاً:

﴿یَآأیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أولیاء، بَعْضُہُمْ أولیاءُ بَعْضٍ، وَّمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ، فاِنّہ مِنْہُمْ، انّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ﴾ (المآئدة: ۵۱) (تفسیر عثمانی، ص: ۱۵۰)
سنن ترمذی میں ایک روایت ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

”جو شخص ملتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ،اِرشادفرمایا کہ تم یہود اور نصاری کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو“۔
(سنن الترمذي، کتاب الاستیذان، رقم الحدیث: ۲۶۹۵)

اس حدیث کی شرح میں صاحب تحفة الأحوذي لکھتے ہیں کہ
مراد یہ ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان کے کسی بھی فعل میں مشابہت اختیار نہ کرو-
(تحفة الاحوذی: ۷/۵۰۴)
سنن ابی داوٴد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․
(سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: ۴۰۳۰)
علامہ سہارنپوری لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔
(بذل المجہود: ۴/ ۵۹)
”مَنْ تَشَبَّہَ “ کی شرح میں ملا علی القاري لکھتے ہیں کہ:
”جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں (ہو یا کسی اور صورت میں) مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔
(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۲۲۲،رشیدیہ)
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ کی تحقیق
تشبہ بالکفار کی ممانعت کے بارے میں نہایت ہی نتیجہ خیز گفتگو صاحبِ انوار الباری نے حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی نقل کی ہے۔

فرمایا: شعار کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی، جن کے بارے میں صاحبِ شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوع ِ شرعی سے احتراز کرنا ضروری ہو گا، خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو، اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو ، اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا، اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے، یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی، جس طرح کوٹ کا استعمال ابتدا میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی، پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا ،یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کر لیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی ، وہ آخر میں باقی نہ رہی، اور حکم بدل گیا لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطورِ مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت کی صاحبِ شرع صلی الله علیہ وسلم نے صراحت کر دی ہے، اُن میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ (انوار الباری: 5/ 101، فیض الباری: 2/15)

 
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں