سوال :میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری شادی اس زمانے میں ہوئی تھی جب نہ تو کوئی عالمہ تک پہنچ تھی نہ ہی WhatsApp کی سہولت موجود تھی ،میرے دو بچے ہیں دونوں کی پیدائش کے دوران کچھcomplications ( مسائل ) کی وجہ سے ڈاکٹر نے روزے رکھنے سے منع کر دیا تھا،دوسرے بچے کے بعد مجھے ایسی بیماری لگی کہ خون آنے کا کوئی دن مقرر نہ رہا اور جب بھی آتا تھا تو اتنا زیادہ کہ لگتا تھا کوئی جانور ذبح کیا گیا ہو ،اور مسلسل 9 سال تک ایسا رہا کہ میں نے رمضان المبارک کا ایک روزہ رکھا اور دوسرے دن سے ایسی bleeding شروع ہوئی اور پورا رمضان رہتی مسلسل 9 سال یہی رہا جگہ جگہ ڈاکٹروں کو دکھایا ہر طرح کا علاج کیا پر مجھے ایسا لگنے لگا کہ جیسے میرے اندر کوئی موجود ہے جو مجھے روزہ نہیں رکھنے دیتا واللہ عالم، میری بدبختی یہ رہی کہ شرم کی وجہ کسی عالم سے مشورہ نہیں لیا عالمہ کا تو کبھی خیال نہیں آیا،بہرحال اب مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میں اب کیا کروں جب سے حیض و نفاس کے مسائل کا پتہ چلا ہے سخت اذیت میں مبتلا ہوں کیا کروں رہنمائی فرمائیں شوگر کی مریضہ بن گئی ہوں نہ ہی بہت دولت مند ہوں جو فدیہ دے سکوں یا زیادہ تعداد میں روزے رکھ سکوں، میری رہنمائی فرمائیں اب میرے ذمے 11 رمضان کے روزے ہیں نمازیں بھی لا تعداد قضا ہوئی ہیں کیا کروں آپ جو بھی اس مسئلے کا حل بتائیں گی میں انشاءاللہ ضرور عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ نماز کا فدیہ زندگی میں ادا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ جب تک کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی استطاعت ہو تو کھڑے ہو کر نماز پڑھے، ورنہ بیٹھ کر، اور اگر بیٹھ کر پڑھنے کی استطاعت بھی نہ ہو تو لیٹ کر، اور لیٹ کر بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو ہاتھ کے اشارے سے نماز پڑھنا ضروری ہے، اور اگر اس کی استطاعت بھی نہیں ہے تو نماز معاف ہے، اور استطاعت کے دوران جتنی نمازیں رہ جائیں، مرنے سے پہلے ان کے متعلق وصیت کر جائیں ، تاکہ ورثاء ان کا فدیہ ادا کردیں۔
البتہ جو شخص وقتی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو، لیکن آئندہ کسی وقت صحت اور قوت کی امید ہو، اس کے لیے فدیہ دینا کافی نہیں ہوگا، بلکہ صحت حاصل ہوجانے کے بعد روزوں کی قضا کرنا لازم ہوگا۔
اور اگر کوئی شخص اتنا بوڑھا یا ایسا بیمار ہو کہ اس کے صحیح ہونے کی امید نہ ہو تو یہ ہر روزہ کے بدلے پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت کسی مستحق شخص کو دے دے، پس گزرے سالوں میں سے ہر سال کے جتنے روزے چھوڑے ہوں، اتنے ہی فدیہ ادا کرنے ہوں گے۔
اگر ایسا آدمی فدیہ ادا کرنے سے بھی عاجز ہوتو جب تک روزوں کی قضا یا فدیہ ادا کرنے پر قدرت نہیں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے۔
صورت مسئولہ میں آپ نمازیں تو قضا کیجیے اور حسب استطاعت قضا روزے بھی رکھیں البتہ ابھی فی الحال فدیہ نہ دیں بلکہ ایک ڈائری میں لکھ کر رکھ لیں کہ مجھ پہ اتنے روزے قضا ہیں اور میں مہینے میں اتنے روزے قضا رکھ رہی ہوں۔ اور ہر مہینے کچھ روزے رکھنے کا معمول بنالیں۔
پھر ہر تھوڑے دن بعد ڈائری لکھنے کی تجدید کرتے رہیں ، تاکہ اگر موت تک یہ روزے ادا ہوگئے تو بہت اچھی بات ہے اور ساتھ وصیت لکھ دیں کہ اگر میرے روزے پورے نہیں ہوسکے تو ان کا فدیہ ادا کردیا جائے۔
============
حوالہ جات:
1 ۔”(وهي عبادة بدنية محضة، فلا نيابة فيها أصلا) أي لا بالنفس كما صحت في الصوم بالفدية للفاني؛ لأنها إنما تجوز بإذن الشرع ولم يوجد.
(قوله: لأنها) أي الفدية. وقوله لم يوجد: أي إذن الشرع بالفدية في الصلاة ح وهذا تعليل لعدم جريان النيابة في الصلاة بالمال. وفيه إشارة إلى الفرق بين الصلاة والصوم، فإن كلا منهما عبادة بدنية محضة وقد صحت النيابة في الصوم بالفدية للشيخ الفاني دون الصلاة. ووجه الفرق أن الفدية في الصوم إنما أثبتناها على خلاف القياس اتباعا للنص؛ ولذا سماها الأصوليون قضاء بمثل غير معقول؛ لأن المعقول قضاء الشيء بمثله، ولم نثبتها في الصلاة لعدم النص۔۔الخ ” ۔
(الدر المختار مع رد المحتار : 1 / 355)۔
2۔”(قوله ولو فدى عن صلاته في مرضه لا يصح) في التتارخانية عن التتمة: سئل الحسن بن علي عن الفدية عن الصلاة في مرض الموت هل تجوز؟ فقال لا. وسئل أبو يوسف عن الشيخ الفاني هل تجب عليه الفدية عن الصلوات كما تجب عليه عن الصوم وهو حي؟ فقال لا. اهـ. وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة بخلاف الصوم ” ۔
( الدرالمختار مع ردالمحتار: 74/2)۔
۔”(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبًا ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرًا و إلا فيستغفر الله“۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار: 427/2)۔
4۔”ولأن الفدية لاتجوز إلا عن صوم هو أصل بنفسه لا بدل عن غيره فجازت عن رمضان وقضائه والنذر، حتى لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر، لأنه استيقن أن لايقدر على قضائه وإن لم يقدر على الإطعام لعسرته يستغفر الله تعالی”.
(البحرالرائق : 308/2)۔
فقط والله أعلم
فقط والله أعلم
15 شعبان 1444
7 مارچ 2023۔