گزرگاہ میں نماز پڑھنے کی صورت میں آڑ کا حکم

فتویٰ نمبر:5025

 گزرگاہ میں نماز پڑھنے کی صورت میں آڑ کا حکم

پلنگ پر سوئے ہوئے شخص کے آگے نماز پڑھنا۔

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

میرا سوال یہ ہے جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو کچھ لوگ سامنے سٹول یا کرسی وغیرہ رکھ لیتے ہیں تاکہ اس کے پیچھے سے لوگ گزرسکیں تو ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ اس کے اوپر سے گزرسکتے ہیں؟اور اگر درست ہے تو سامنے رکھی جانے والی چیز کی لمبائی کتنی ہونی چاہیئے؟ نیز میری نماز کی جگہ کے سامنے پلنگ ہے کبھی اس پر بچے سوئے ہوئے ہوتے ہیں تو کیا میرا وہاں نماز پڑھنا درست ہوگا؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

1)اگر نماز پڑھنے والا ایسی جگہ نماز پڑھ رہا ہے جو لوگوں کے گزرنے کی جگہ ہے تو اس کے لیے اپنے آگے آڑ کھڑی کرنی چاہیے، ایسا نہ کرے تو گناہ گار ہوگا۔ اب یہ آڑ کوئی لکڑی وغیرہ بھی ہوسکتی ہے جس کی لمبائی تقریبا ڈیڑھ فٹ ہو اور انگلی کی موٹائی کے برابر ہو، اگر کچی زمین ہو تو گاڑدے لیکن اگر پختہ فرش ہو تو میز کرسی وغیرہ بھی رکھ لے تو بھی درست ہے۔گزرنے والے کے لیےحکم ہے کہ اس آڑ کے پیچھے سے گزرے 2)  اگر پلنگ کے سامنے نماز پڑھ رہے ہیں اور پلنگ پر کوئی لیٹا ہو تو شرعا اس کی اجازت ہے۔ جیسا کہ روایت میں آتا ہے ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بچھونے پر نماز پڑھتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان اس طرح لیٹی ہوتیں جیسے (نماز کے لیے) جنازہ رکھا جاتا ہے۔”

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَل إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا، وَلاَ يَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ (أخرجه ابن ماجه (1 / 307 – ط الحلبي) وأصله في البخاري (الفتح 1 / 582 ط السلفية) ومسلم (1 / 363 – ط الحلبي)

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «إذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إلَى سُتْرَةٍ وَلَا يَدَعُ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ (رَوَاهُ الْحَاكِمُ وَأَحْمَدُ وَغَيْرُهُمَا)

وَفِي مُنْيَةِ الْمُصَلِّي وَتُكْرَهُ الصَّلَاةُ فِي الصَّحْرَاءِ مِنْ غَيْرِ سُتْرَةٍ إذَا خَافَ الْمُرُورَ بَيْنَ يَدَيْهِ وَيَنْبَغِي أَنْ تَكُونَ كَرَاهَةَ تَحْرِيمٍ لِمُخَالَفَةِ الْأَمْرِ الْمَذْكُورِ لَكِنْ فِي الْبَدَائِعِ وَالْمُسْتَحَبُّ لِمَنْ يُصَلِّي فِي الصَّحْرَاءِ إنْ يَنْصِبَ شَيْئًا وَيَسْتَتِرَ فَأَفَادَ أَنَّ الْكَرَاهَةَ تَنْزِيهِيَّةٌ فَحِينَئِذٍ كَانَ الْأَمْرُ لِلنَّدَبِ لَكِنَّهُ يَحْتَاجُ إلَى صَارِفٍ عَنْ الْحَقِيقَةِ قَالَ الْعَلَّامَةُ الْحَلَبِيُّ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ إنَّمَا قَيَّدَ بِقَوْلِهِ فِي الصَّحْرَاءِ لِأَنَّهَا الْمَحَلُّ الَّذِي يَقَعُ فِيهِ الْمُرُورُ غَالِبًا وَإِلَّا فَالظَّاهِرُ كَرَاهَةُ تَرْكِ السُّتْرَةِ فِيمَا يُخَافُ فِيهِ الْمُرُورُ أَيُّ مَوْضِعٍ كَانَ

(ص18 – كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري – الأكل والشرب في الصلاة – المكتبة الشاملة الحديثة)

أَنَّ الْمُسْتَحَبَّ أَنْ يَكُونَ مِقْدَارُهَا ذِرَاعًا فَصَاعِدًا لِحَدِيثِ مُسْلِمٍ عَنْ عَائِشَةَ «سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَنْ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي فَقَالَ بِقَدْرِ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ» وَمُؤَخِّرَةٌ بِضَمِّ الْمِيمِ وَهَمْزَةٍ سَاكِنَةٍ وَكَسْرِ الْخَاءِ الْمُعْجَمَةِ الْعُودُ الَّذِي فِي آخِرِ الرَّحْلِ مِنْ كَوْرِ الْبَعِيرِ وَفَسَّرَهَا عَطَاءٌ بِأَنَّهَا ذِرَاعٌ فَمَا فَوْقَهُ كَمَا أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُد السَّادِسُ اخْتَلَفُوا فِي مِقْدَارِ غِلَظِهَا فَفِي الْهِدَايَةِ وَيَنْبَغِي أَنْ تَكُونَ فِي غِلَظِ الْإِصْبَعِ أَنَّ مَا دُونَهُ لَا يَبْدُو لِلنَّاظِرِ

(ص18 – كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري – الأكل والشرب في الصلاة)

فإن مر وراء السترة فهو ليس بمكروه

(ص432 – كتاب المحيط البرهاني في الفقه النعماني – الفصل التاسع عشر في المرور بين يدي المصلي وفي دفع المصلي المار واتخاذ السترة ومسائلها)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ،” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهِيَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى فِرَاشِ أَهْلِهِ اعْتِرَاضَ الْجَنَازَةِ”. (صحيح مسلم 1/ 366)

وَأَمَّا الصَّلاَةُ إِلَى وَجْهِ الإْنْسَانِ فَتُكْرَهُ عِنْدَ الْجَمِيعِ، لِمَا وَرَدَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَسَطَ السَّرِيرِ وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، تَكُونُ لِيَ الْحَاجَةُ فَأَكْرَهُ أَنْ أَقُومَ فَأَسْتَقْبِلَهُ، فَأَنْسَل انْسِلاَلاً

(ص179 – كتاب الموسوعة الفقهية الكويتية – الاستتار بالآدمي)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:20/10/1440

عیسوی تاریخ:23/6/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں