سوال:اگر کوئی گونگا اسلامی ریاست میں جہاں شریعت نافذ ہو،چوری کرتا ہے تو کیا حد میں اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے؟
سائل:عبداللہ
اسلام آباد
الجواب بعون الملک الوھاب
کسی جرم کے لیے قرآن و حدیث میں مقرر کی گئی سزا جو اللہ کے حق کے طور پر نافذ کی جاتی ہے حد کہلاتی ہے۔جس کے لیے مجرم کا ایسا ہونا جو عبرت پکڑ سکے،صحیح العقل اور سلیم البدن ہونا شرط ہے۔
ان حدود میں سے ایک حد ،حد سرقہ:یعنی چوری کی سزا بھی ہے جس میں قطع ید یعنی چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔جو کہ ایک سخت سزا ہے لیکن حدود میں ایک عام قانون یہ ہے کہ “ادرؤوا الحدود بالشبھات۔” ( اگر کسی معاملے میں شک پڑ جائے تو حد کو ساقط کردو) ۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ حد کے جاری ہونے کے لیے قطعی ثبوت کا ہونا لازم ہے،اگر زرہ سا بھی شبہ ہو گا تو حد جاری نہیں کی جائے گی۔
جب گونگے پر چوری کا الزام لگتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:یا تو کسی نے اس پر تہمت لگائی ہوگی،یا کسی نے اس کو چوری کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔پہلی صورت میں چونکہ وہ اپنے اوپر لگے تہمت کی زبان سے تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا،لہٰذا یقینی طور پر یہ بات ثابت نہیں کی جا سکتی کہ چوری اسی نے ہی کی ہوگی۔جبکہ دوسری صورت میں ،جو مال اس نے اٹھایا تھا اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ اس کا اپنا مال ہو اور یہ بھی کہ کسی اور کا مال ہو۔اور وہ زبان سے یہ تفصیل بتانے پر قادر نہیں ہوتا۔جس سے ایک معمولی شبہ پیدا ہو رہا ہے ۔اور یہ شبہ حد کو ساقط کر دیتا ہے۔
“وباعتبار القطع (أخذ مكلف) ولو أنثى أو عبدا أو كافرا أو مجنونا حال إفاقته (ناطق بصير) فلا يقطع أخرس لاحتمال نطقه بشبهة، ولا أعمى لجهله بمال غيره “
(الدر المختار شرح تنویر الابصار:کتاب السرقہ،ص11)
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدودشبہات سے ساقط ہو جاتے ہیں۔اور کلام پر قدرت نہ ہونا شبہ کو جنم دیتا ہے ۔لہٰذا اس شبہ کی وجہ سے گونگے پر حد سرقہ جاری نہیں کی جا سکتی۔تاہم قاضی ثبوتوں کو دیکھ کر ،حالات و واقعات کے مطابق کوئی تعزیری سزا دے سکتا ہے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
بنت ممتاز عفی عنھا
صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی
5-5-1439ھ/22-1-2018ء