سوال: السلام علیکم!
اگر کسی نے پاکی کےلیے غسل کیا، مگر دوسرے دن دیکھا تو قطرہ سا نیل پالش کا رنگ لگا تھا تو اب کیا صرف وضو کرنا ہو گا یا پھر غسل دوبارہ سے کرنا ہو گا ؟مہربانی فرما کر جلد راہنمائی کیجیے!
الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ!
مذکورہ صورت میں اگر یقینی طور پر معلوم ہے کہ نیل پالش کا رنگ غسل کے وقت لگا ہوا تھا تو پھر غسل نہیں ہوا۔اب نیل پالش چھڑا کر صرف اسی جگہ پر پانی بہانے سے غسل ہوجائے گا،دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔اس دوران جو نمازیں پڑھی ہیں ان کی بھی قضا کی جائے گی۔یہ بھی یاد رہے کہ بعض لوگ خشک جگہ پر صرف گیلا ہاتھ پھیر لیتے ہیں،یہ طریقہ درست نہیں۔درست طریقہ یہ ہے کہ خشک جگہ پر اتنا پانی بہایا جائے کہ دو تین قطرے ٹپک جائیں۔
===============
حوالہ جات:-
1۔اذا توضاء او اغتسل وبقی علی یدہ لمعة فاخذ البلل منھا فی الوضوء او من ای عضو کان فی الغسل،وغسل اللمعة یجوز۔
(البحر الرائق:93/1،ط:سعید)
2۔( الھندیہ:29/1)
جنب اغتسل وبقی لمعۃ وفنی ماءہ یتیمم لبقاء الجنابۃ فان أحدث تیمم للحدث فان وجد ماء یکفیھما صرفہ الیھما۔
3۔(الشامیۃ:256/1):
(قولہ ولمعۃ و جنابۃ) ای لواغتسل وبقیت علی بدنہ لمعۃ لم یصبھا الماء فتیمم لھا“۔
4۔مافی الھندیۃ(3/1)
کتاب الطھارۃ: الفصل الأول في فرائض الوضوء قال الله تبارك وتعالى يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم إلى المرافق وامسحوا برءوسكم وأرجلكم إلى الكعبين وهي أربع الأول غسل الوجه الغسل هو الاسالة والمسح هو الإصابة كذا في الهداية وفي شرح الطحاوي أن تسييل الماء شرط في الوضوء في ظاهر الرواية فلا يجوز الوضوء ما لم يتقاطر الماء وعن أبي يوسف رحمه الله أن التقاطر ليس بشرط ففي مسألة الثلج إذا توضأ به ان قطر قطرتان فصاعدا يجوز اجماعا وان كان بخلافه فهو على قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى لا يجوز وعلى قول أبي يوسف رحمه الله تعالى يجوز كذا في الذخيرة والصحيح قولهما كذا في المضمرات۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
7فروری 2022ء
5رجب 1443ھ