دس سال سے زائد عرصہ ہوا پاکستان میں اسلامی بینکاری کا نظام علمائے کرام کی زیرِنگرانی نہایت تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ پاکستان کے پورے بینکاری نظام میں تقریباً دس فیصد حصہ اسلامی بینکاری کا ہے۔ اس تحریر میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ اسلامی بینکاری میں رائج تمویلی سہولیات کا عام فہم انداز میں جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ربا کی تعریف:
آگے بڑھنے سے قبل ربا کی ایک عام فہم تعریف پیش کی جارہی ہے، تا کہ اس کی روشنی میں زیرِبحث تمویلی سہولیات کا جائزلینے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔’’ ربا‘‘ کہتے ہیں: اس منفعت کو جو قرض کے اوپر حاصل کی جائے۔ خواہ وہ فائدہ مالی ہو یا کسی اور شکل میں ہو۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے سودی بینکوں میں جو کرنٹ اکائونٹ پر بہت ساری سہولیات مفت دی جاتی ہیں …جو کہ کسی اور اکاؤ نٹ پر نہیں دی جاتیں…وہ بھی سود ہے، کیونکہ یہ نفع بھی قرض کے بدلے میں حاصل ہوا ہے۔ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے اگر کسی بھی مالی معاملے میں حاصل ہونے والی آمدنی غیر متحرک Fixed)) ہے تو وہ ربا ہے، اگر آمدنی متحرک (Fix)ہے تو یہ معاملہ جائز ہے۔ اسی وجہ سے ایک اکثریت ہے جو سودی بینکوں کے پرافٹ اینڈ لاس والے کھاتوں کو صحیح تصور کرتے ہیں۔ یہ بات صراحتاً غلط ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ سود کا دارومدار آمدنی کے غیر متحرک یا متحرک ہونے پر نہیں ہوتا، بلکہ معاہدے کی نوعیت کو دیکھ کر ربا سے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی معاہدے میں قرض کے اوپر نفع پایا جائے گا تو وہ ایک سودی معاملہ ہوگا ،خواہ وہ نفع غیر متحرک ہو یا متحرک ۔ دوسری بات یہ کہ بہت سے معاملات میں نفع کی تقسیم کے تناسب یا قیمت کو غیر متحرک Fixed))کرنا اس معاہدے کی شرعی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے بغیر وہ معاہدہ شرعاً صحیح نہیں ہوگا، جیسا کہ اجارے یا کرایہ داری کے معاملے کے جائز ہونے کے لیے اجرت کا طے کرنا ضروری ہے ۔ اگر اجرت کو متعین رکھا جائے تو معاملہ فاسد ہوجائے گا۔
اسلامی بینکوں میں رائج بنیادی تمویلی سہولیات سود سے متعلق اس مختصر وضاحت کے بعد اسلامی بینکوں میں رائج بنیادی تمویلی سہولیات کا اختصار کے ساتھ جائزہ پیش کرتے ہیں۔ یہ چار بنیادیں ہیں، جن پر فی الحال اسلامی بینک اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں:
1مرابحہ
2 استصناع
3مشارکہ
4اجارہ
مرابحہ:
شریعت کی اصطلاح میں مرابحہ اس خریدوفروخت کے معاہدے(Sale)کو کہتے ہیں جس میں بیچنے والا گاہک کو مال کی اصل قیمت اور اُس میں رکھا گیا منافع ظاہر کرکے چیز بیچتا ہے۔ قیمتِ خرید اور منافع کے ظاہر کرنے کے علاوہ ایک عام خرید وفروخت اور مرابحہ کے تحت ہونے والی خریدوفروخت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ مرابحہ اسلامی بینکوں میں سب سے کثرت سے استعمال ہونے والی تمویلی سہولت ہے۔ جس کے تحت اسلامی بینک اپنے صارفین کو خام مال اور دیگر تجارتی سامان خریدنے کے لیے تمویلی سہولت فراہم کرتا ہے۔
مرابحہ کی تمویلی سہولت کے تحت جب کسی گاہک کو کوئی خام مال یا تجارتی سامان خریدنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اسلامی بینک سے مذکورہ مال مرابحہ کے تحت فراہم کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ صارف کی درخواست آنے کے بعد بینک خود یا کسی وکیل کے ذریعے (جو کہ صارف بھی ہو سکتا ہے) بازار سے قیمت کی ادائیگی کے بعد مطلوبہ سامان خرید کر اس پر قبضہ حاصل کرتا ہے۔ مال پر قبضہ کر لینے کے بعداسلامی بینک اس مال کی قیمتِ خرید پر اپنا نفع رکھ کر صارف کو عقد مرابحہ کے تحت ادھار پر فروخت کر دیتا ہے۔ مرابحہ کے تحت تمویلی سہولت میں ربا شامل نہیں ہوتا ،کیونکہ بینک قرض دے کر اس کے اوپر نفع کمانے کے بجائے کوئی مال فروخت کرکے اس پر نفع کماتا ہے۔ اسلامی بینک اور گاہک کے درمیان جو مرابحہ کا عقد کیا جاتا ہے، اس میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے:
1 جو چیزبینک اپنے گاہک کو فروخت کر رہا ہے ،وہ بینک کی ملکیت اور قبضے میں ہو، خواہ یہ قبضہ خود بینک کا ہو یا بینک کے وکیل کا ہو۔
2 عقدمرابحہ کے وقت قیمت(Price)کا متعین ہوجاناضروری ہے۔
3 جو چیز بیچی جارہی ہو اس کا متعین ہونا ضروری ہے۔
استصناع
’’استصناع‘‘ شرعاایسے معاملے کو کہتے ہیں جس میں ایک فریق دوسرے فریق کو کوئی چیز بنانے کا آرڈر دے اورمال بھی بنانے والے کا ہی استعمال ہو ۔ اسلامی بینکوں میں یہ طریقہ تمویل تاجروں، بالخصوص ان صنعتی اداروں کو سرمایہ فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کو سامان تجارت کی صنعت اور فروخت سے متعلق اخراجات کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے۔
استصناع کی تمویلی سہولت کے تحت بینک گاہک کو کوئی مخصوص چیز بنانے کا آرڈر کرتا ہے اور اس کی قیمت کی ادائیگی معاہدے کے وقت گاہک کو کردیتا ہے۔ گاہک مال تیار کرنے کے بعد بینک کو اس مال کا قبضہ فراہم کرتا ہے۔ قبضہ ملنے کے بعد بینک اس مال کو خود یا کسی وکیل (جو کہ گاہک بھی ہو سکتا ہے)بازار میں نفع رکھ کر فروخت کر دیتا ہے۔ استصناع کے تحت تمویلی سہولت میں ربا شامل نہیں ہوتا، کیونکہ بینک قرض دے کر اس کے اوپر نفع کمانے کے بجائے کوئی مال تیار کروا کر اور پھر اس کو فروخت کرکے اس پر نفع کماتا ہے۔ اسلامی بینکوں اور گاہک کے درمیان جو استصناع کاعقد کیا جاتا ہے، اس میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے:
1 عقد استصناع میں قیمت متعین ہو۔
2 بنائی جانے والی شے میں جو اوصاف مطلوب ہیں وہ استصناع کے معاہدے میں واضح طور پر بیان ہوں ۔
3 بنائی جانے والی شے ان اشیا میں سے ہو جنہیں فروخت شدہ حالت میں لانے کے لیے صانع (Manufacturer)کو کوئی نہ کوئی صنعتی عمل) (processingکرنا پڑے۔
4 بنانے والاجب تک مطلوبہ اوصاف کے مطابق شے تیار کرکے بنوانے والے کے حوالے نہ کردے، اس وقت تک مال کی ملکیت بنانے والے ہی کی رہتی ہے ۔
مشارکہ:
اسلامی بینک شرکت العقد کی بنیاد پر بھی تمویلی سہولیات فراہم کرتے ہیں جس کے تحت بینک اور گاہک مل کر، کسی کاروباریا کسی مخصوص تجارتی معاملے میں حصے داری اختیار کرکے، اس کے نفع یا نقصان میں شراکت داری اختیار کرتے ہیں۔اس کے تحت بینک یا تو کسی خاص تجارتی معاملے میں شرکت کرتا ہے، مثلاً: کسی درآمدی آرڈر کی تکمیل کے لیے یا کسی گاہک کو سرمایہ فراہم کرکے اس کے کاروبار میں حصے داری اختیار کرلیتا ہے اور سال کے آخر میں یا مشارکہ کی تکمیل کے وقت جو اس مشارکہ کے اثاثہ جات کی مالیت ہوتی ہے، اس کے مطابق نفع یا نقصان کا تعین ہوتاہے۔ مشارکہ کے تحت تمویلی سہولیات کا استعمال دیگر بیان کی گئی تمویلی سہولیات سے کافی کم ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ جن میں اکائونٹس کی تیاری میں بے ضابطگیاں،دوہری اکائونٹنگ ، زیادہ نفع حاصل ہونے پر گاہک کی طرف سے شرکت سے گریز کرنا سرِفہرست ہیں۔
اجارہ:
اجارہ جسے کرایہ داری کا معاہدہ کہا جاتاہے، اس کی تعریف یہ ہے کہ کسی چیز کے منافع کو روپے کے عوض دینا، جیسے: مکان یا مشینری کے منافع کو ایک معینہ کرائے پر دینا۔ اسلامی بینکوں میں اجارہ ایک طویل المدتی تمویلی سہولت ہے۔ جس میں گاہک کو ایک سال سے زائد عرصے کے لیے تمویلی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اجارہ کی تمویلی سہولت کے تحت جب گاہک کو کسی جامد اثاثے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس گاہک کو قرض دینے کے بجائے بینک وہ اثاثہ خود یا کسی وکیل کے ذریعے (بینک گاہک کو بھی اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے)بازار سے خرید کر اسے استعمال کے قابل حالت میں گاہک کو عقد اجارہ کر کے ایک معینہ مدت کے لیے معینہ کرائے پر دے دیتا ہے۔ مدت اجارہ کے دوران اثاثے کا مالک بینک ہی ہوتا ہے اور گاہک کے پاس صرف اس کے استعمال کرنے کا حق ہوتا ہے، لہٰذا ملکیت سے متعلق تمام اخراجات کی ذمہ داری بینک کی ہوتی ہے اور استعمال سے متعلق تمام اخراجات کی ذمہ داری گاہک کی ہوتی ہے۔ مدت ِاجارہ کے اختتام پر عقدِاجارہ منسوخ ہو جاتا ہے اور گاہک کی درخواست پر بینک وہ اثاثہ گاہک کو ایک علیحدہ عقد بیع کرکے ایک معمولی قیمت پر فروخت یا ہبہ کر دیتا ہے۔چونکہ اجارہ اور سودی بینکوں میں رائج لیز میں کافی ظاہری مماثلت پائی جاتی ہے، لہٰذا یہ بات ضروری سمجھی جاتی ہے کہ سودی لیز اور اجارہ کے درمیان بنیادی فرق کی وضاحت کر دی جائے۔
اجارہ اور سودی بینکوں میں رائج لیزنگ یکسر مختلف معاملات ہیں اور سودی لیز میں اجارہ کی حقیقت موجود نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اجارہ میں اثاثے کی ملکیت اور اس سے ملحقہ تمام حقوق بینک کے پاس ہوتے ہیں، جبکہ سودی لیز میں عملاً ایسا نہیں ہوتااور اثاثے کی تمام تر ذمہ داری گاہک کے اوپر ڈال دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ اثاثہ کسی ناگہانی آفت یا حادثے کی وجہ سے تباہ ہو جائے یا اس کی منفعت ختم ہو جائے، تب بھی گاہک کرایہ دینے کا پابند ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سودی لیز میں کرائے کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں مالی تعزیر اور لیز کے اختتام پر ملکیت کی خود بخود منتقلی کی نا جائز شقیں بھی موجود ہوتی ہیں۔