فتویٰ نمبر:943
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
کیا غیر مسلمان عورت سے پردہ ایسے ہی ہے جیسے نامحرم مرد سے؟
پارلر میں کام کرنے والی ہندو یا کرسچن عورتون سے سروسز لے سکتے ہیں؟
غیر مسلم ممالک میں اکثر تفریحی مقامات پہ غیر مسلم عورتوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ کیا ان کا ہمیں چھونا جائز ہے؟
والسلام
سائل کا نام:سارہ رحمن
تنقیح:کس قسم کی خدمات درکار ہیں۔
جواب :جیسے کوئی خاص لباس یا بیلٹ پہننا ہو تو وہ خود پہناتے ہیں اگر اونچائی پہ یا پانی کے اندر جانا ہو تو ساتھ میں ان کا کوئی نمائندہ ضرور ہوتا ہے مثلا سمندر کی سیر یا آسمان کی سیر یا پہاڑوں پہ چڑھنا اور اسی طرح کی دیگر تفریحات
الجواب حامدۃو مصلية
اس طرح کے کاموں کے لیے اگر مسلمان خاتون کا بندوبست ہو سکے تو بہتر ہے، ورنہ غیر مسلم عورت کے سامنے ستر اور سر کھولے بغیر اس طرح کی دیگر خدمات لی جاسکتی ہیں۔
البتہ پارلر میں عموما جو خدمات لی جاتی ہیں اس میں سر اور ستر کھولا جاتا ہے اس سے اجتناب لازم ہے۔
غیر مسلم عورت کا حکم اجنبی مرد کے قریب قریب ہے، لہٰذا اس کے سامنے بدن نہ کھولا جائے، دوپٹے اور اوڑھنی کااہتمام کیا جائے، البتہ کام کاج میں ہاتھ اور چہرہ کھول کر کام لینے کی گنجائش ہے۔
ان کے سامنے چہرہ ہاتھ اور پاؤں کھول سکتی ہے باقی پورا وجود ڈھکا رہنا چاہیے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:٨،ص:٦٥)
و الذمیة کالرجل الاجنبی فی الاصح فلا تنظر الی بدن المسلم۔
(درمختار)
لانہ لیس للمؤمنةان تتجرد بین یدی مشرکة او کتابیة۔
(شامی ج:٦،ص:٣٧١)
و اللہ سبحانہ اعلم
✍بقلم : بنت سبطین
قمری تاریخ :٢٥شوال ١٤٣٩
عیسوی تاریخ:٩جولائی ٢٠١٨
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: