فتویٰ نمبر:532
مفتی صاحب ایک عورت کو درج ذیل مسئلہ درپیش ہے
میرے سسر دوکان کے کاروبار کے علاوہ بونڑز وغیرہ بھی لیتے ہیں جو ناجائز کمائی ہے اب مجھے یہ علم نہیں کہ گهر کھانے وغیرہ میں کونسا پیسہ استعمال ہوتا ہے اب شوہر کے بیرون ملک جانے کے بعد میں اور بچیاں اس گھر کا کھاتے ہیں تومعلوم کرنا تھا ہمارے لیے اس گھر کا کھانا جائز ہے جیسا کہ اب میرے شوہر تو موجود نہیں ہے تو اس معاملے میں کیا حکم ہے حوالے کے ساتھ تحریر کریں
الجواب حامداً ومصلیا
اگر بانڈز لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بانڈز خریدتے ہیں اور اس پر نکلنے ولالا نعام قصول کرتے ہیں تو اس کا حکم یہ ہے جتنی قیمت کا بانڈ لیا ہے صرف اتنی قیمت تو وصول کرنا جائز ہے باقی رقم سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے،آب آیا جس گھر کی سربراہ کی آمدنی ایسی ہو تو اس صورت میں درجِ ذیل تفصیل ہے:
جس شخص کی کچھ آمدنی حلال ہو اور کچھ آمدنی حرام،تو شرعاً اُس پر لازم ہے کہ وہ حرام مال اصل مالکوں تک پہنچائے،حرام مال خود استعمال کرنا حرام ہے اور اگر وہ کسی کو اپنے مال میں سے کچھ ہدیہ،تحفہ وغیرہ دےدیں تو لینے والے کے لیے اُس کے جواز اور عدمِ جواز کے بارے میں تین صورتیں بنتی ہیں:
(۱)پہلی صورت یہ ہے کہ لینے والے کو معلوم ہو کہ یہ ہدیہ وغیرہ اُس نے اپنے حلال مال سے دیا ہے یا حرام مال سے،تو ایسی صورت میں اگر وہ چیز حلال مال سے دی گئی ہو تو اس کا لینا جائز ہے اور اگر حرام مال سے دی گئی ہو تو اس کا لینا جائز نہیں۔
(۲)دوسری صورت یہ ہے کہ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ ہدیہ وغیرہ اُس شخص نے اپنی حلال آمدنی سے دیا ہے یا حرام آمدنی سے؟تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے کہ اُس شخص کی حلال آمدنی زیادہ ہے یا حرام آمدنی،یا دونوں برابر ہیں؟ اگر اُس شخص کی حلال آمدنی زیادہ ہو اورحرام آمدنی کم ،تو ایسے شخص کا ہدیہ اور دعوت وغیرہ قبول کرنا یا اُس سے کوئی مالی تعاون حاصل کرنا جائز ہے، اور اگر اُس کی حرام آمدنی زیادہ ہو اور حلال آمدنی کم ،یا دونوں برابر ہوں، تو ایسے شخص کا ہدیہ اور دعوت وغیرہ قبول کرنا یا اُس سے کوئی مالی تعاون حاصل کرنا جائز نہیں، البتہ اِ س صورت میں اگر وہ شخص اپنے گھر والوں کو بعینہ پیسے نہ دے،بلکہ اُن پیسوں سے کوئی چیز خرید کر گھر والوں کو بطورِنفقہ دےدیں تو اس چیزکے استعمال کی گنجائش ہے۔
(۳)تیسری صورت یہ ہے کہ لینے والے کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اُس شخص کے پاس زیادہ آمدنی حلال کی ہے یا حرام کی؟، تو پھر غور اور تحرّی کرے کہ اس شخص کے پاس حلال آمدنی زیادہ ہوگی یا حرام آمدنی؟، جس جانب غالب گمان ہو اس کے مطابق عمل کریں۔
واللہ اعلم بالصواب