سوال: کیا فرماتے ہیں علماٰ کرام اس مسئلہ کے بارے میں
1۔ جن اشیاء کے اندر جیلیٹن ہو ( Geletin ) اسے کھانا جائز ہے ؟ اور اگر ناجائز ہے تو کس بناء پر ؟
جواب: ہماری معلومات کے مطابق ” جلاٹین” جانوروں کی کھال ، ہڈی وغیرہ اور پودوں سے حاصل کردہ ایک لیس دار مادہ ہے ۔ جانوروں کی کھال سے یہ مادہ اس طرح حاصل کیا جاتا ہے کہ اسے پہلے سادہ پانی میں دھوی ا جاتا ہے ۔ پھر چونے کے پانی اور مختلف تیزابوں سے دھویاجاتا ہے ، جس کی وجہ سے کھال سے خون ،بال اور دیگر non collagenous “ اجزا صاف ہوجاتے ہیں ۔ پھر اس کو “لاجین ” کو “جیلاٹین ” میں تبدیل کرنے کے لیے اسے آگ پر تقریباً چھ ہفتے تک پکایاجاتا ہے ، جس کے نتیجے میں ایک محلول تیار ہوتا ہے ، اس محلول کو بار بار فلٹر کر کے اس کے جراثیم مارے جاتے ہیں اور رطوبتیں دور کی جاتی ہیں ، بعد میں اسے ٹھنڈا کر کے ” جلاٹین ” تیار ہوتی ہے ۔ ہڈی سے بھی یہ مادہ ان کیمیاوی مراحل سے گزارنے کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے ۔ ( دیکھئے : فیرو زاللغات اردو : 495 فیروز سنزز، کھانے پینے کی حلال اور حرام چیزیں : 82 ۔ 84 ماریہ اکیڈمی )
ہماری رائے میں اس تمام عمل سے ایک نئی چیز حاصل ہوتی ہے جو اپنے اوصاف ومعانی کے لحاظ سے اپنی پہلی حقیقت کے برعکس بالکل ایک جدا حقیقت ہوتی ہے ۔ اس لیے ہماری رائے میں ” جلاٹین” میں قلب ماہیت ہوچکی ہوتی ہے ۔
لہذا پودوں اور شرعی طریقے سے ذبح شدہ حلال جانوروں سے حاصل کیاجانے والا ” جلاٹین” اور اس سے ملی اشیاء تو حلال ہیں ہی مراد، حرام اور نجس العین جانوروں کی ” جلاٹین ” اور اس سے ملی اشیابھی قلب ماہیت کی بنا پر حلال اور ان کا کھانا جائز ہے ۔ جیسا کہ ذیل کی عبارات سے واضح ہوتا ہے :
1۔۔۔۔فی البدائع : ” منھا الکلب اذا وقع فی الملاحۃ ، و الجمد ، والعذرۃ اذا احرقت بالنار ، وصارت رماداً ،وطین البالوعۃ اذا جف ، وذھب اثرہ، والنجاسۃ اذادفنت فی الارض ، وذھب اثرھا بمروز الزمان ۔۔۔وجہ قول محمد : ان لنجاسۃ لما استحالت وتبدلت اوصافھا، ومعانیھا ۔ خرجت عن کونھا نجاسۃ ، لانھا اسم لذات موصوفۃ، فتنعدم بانعدام الوصف ، وصارت کالخمر اذا تخلت ۔” (1/243 داراحیاء التراث العربی)
2۔فی فتح القدیر : ” قد اختلف فیما لوکان احدھما طاھرا، فقیل : العبرۃ للماء ان کان نجسا ، فالطین ، واکا فطاھر ، وقیل : للتراب ، وقیل :للغالب ۔والکثر علی ان ایھما کان طاھرا، فالطین طاھرا۔۔۔۔وفی الخلاصۃ : ” العبرۃ للنجس منھما، ایھما کان نجسا، فالطین نجس، وبہ اخذ الفقیہ ابو الیث ، وکذا روی عن ابی یوسف ، وقال محمد بن سلام : ایھما کان طاھرا، فالطین طاھر ، ھذاقول محمد بن سلام :ایھما کان طاھرا، فالطین طاھر ، ھذا قول محمد ، حیث صار شیئاآخر ۔” (1/176۔177 داراحیاء التراث )
3۔۔۔فی غنیمۃ المستملی : ” قال ابن الھمام : “والاکثر علی ان ایھما کان طاھرا، فالطین طاھر ، انتھی وھو اختیار ابی نصر محمد بن سلام ، قال البرازی : ” وھو قول محمد ، وقد ذکر ان الفتوی علیہ ۔ انتھی
ووجھہ الخلاصۃ بصیر ورثہ شیئا آخر ، وھو توجیہ ضعیف ، اذیقتضی ان جمیع الاطعمۃ اذا کان مائھا نجسا، اودھنھا،اونحو ذلک ، ان یکون الطعام طاھرا، لصیرواورتہ شیئا اخر ،وعلی ھذا سائر المرکبات اذا کان بعض مفردتھا نجسہ ولا یخفی فسادہ ، فللہ در الفقیہ ابی اللیث ، وللہ در قاضی خان ۔ حیث جعل قولہ ھو الصحیح۔ مشیرا الی ان سائر الاقوال لاصحۃ لھا، بل ھی فاسدۃ، لان النتیجۃ تابعۃ لاخس المقدمتین دائما۔” (ص 188 سھیل اکیڈمی لاہور )
4۔فی الفتاوی القاضی خان :” التراب الطاھر اذا جعل طینا بالماء النجس، او العکس، الصحیح ان الطین نجس ایھما کان نجسا۔” (1/13 حافظ کتب خانہ )
5۔۔وفیہ :” ماء الطابق نجس قیاساً، لیس بنجس استحسانا وصورتہ :اذا حرقت العذرۃ فی بیت ، فاصاب ماء الطابق ثوب النسان ، لایفسدہ استحسانا مالم یضھر اثر النجاسۃ فیہ وکذا لاصطبل اذا کان علیہ طابق، فعرق الطابق، وتقاطر منہ، وکذا الحمام اذا ھریق فیہ النجاسات ، فعرق حیطانھا وکوتھا، وتقاطر منہ ، وکذا لو کان فی الاصطبل کوز معلق فیہ ماء ، فترشح من اسفل الکوز۔” (1/1011)
6۔۔وفیہ :”الحمار اذا وقع فی المصلحۃ ، وصار ملحاً۔کان الکل طاھرا، حل اکلہ فی قول محمد ؒ ۔ وکذآ العدرۃ اذااحرقت فصار رمادا، والطین النجس اذا اجعل منہ الکوز، او القدر ، فطبخ یکون طاھرا۔۔۔۔والمسک حلال علی کل حال ۔ یوکل فی الطعام ، ویجعل فی الاودیۃ۔ ولایقال بان المسک دم ۔ لانھا وان کانت دم، فقد تغیرت ، فصار طاھرا، کرماد العذرۃ ۔” (1/12)
7۔۔ فی البحر الرائق:”والسابع :انقلاب العین ، فان کان فی الخمر ۔ فلاخلاف فی الطھارۃ ۔ وان کان فی غیرہ ، کالخنزیر والمیتۃ، تقع فی المملحۃ۔ فتصیر ملحا، یؤکل ، و السرقین ، والعذرۃ تحترق ، فتصیر رمادا، تطھر عند محمد ، وضم الی محمد ابی حنیفہ فی المحیط ،وکثیر من المشایخ اختار واقول محمد ، وفی الخلاصۃ: وعلیہ الفتوی ، وفیفتح القدیر :انہ المختار ۔
لان الشرع رتب وصف النجاسۃ علی تلک الحقیقۃ،وتنتفی الحقیقۃ ابنتقاء بعض اجزاء مفھومھا۔ فکیف بالکل،فان الملح غیر العظم واللحم ، فاذا صار ملحا ترتب حکم الملح ، ونظیر ہ فی الشرع ، النطفۃ نجسۃ ، وتصیر علقۃ۔ وھی نجسۃ ، وتصیر مضغۃ۔ فتطھر ، والعصیر طاھر ، فیصیر خمرا، فینخس ویصیر خلا، فیطھر ،فعرفنا ان استحالۃ العین تستبع زوال الوصف المرتب علیھا ، و علی قول محمد فرعوا الحکم بطھارۃ صابون من زیت نجس اھ ۔ وفی المجتبیٰ : جعل الدھن النجس فی صابون ، یفتی بطھارتہ لانہ تغیر ، والتغیر یطھر عند محمد ، ویفتی بہ للبلوی۔۔ وادخل فی فتح القدیر التطھیر بالنار فی الاستحالۃ ، ولا ملازمۃ بینھما، فانہ او احرق موضع الدم من راس الشاہ طھر ، والتنویر اذا رش بماء نجس ، لاباس بالخیر فیہ ۔ کذآ فی المجتبی ۔” (1/227۔228 سعید)
8۔۔فی غلبۃ المستملی : وعلی قول محمد فرعوا طھارۃ صابون صنع من دھن نجس، وعلیہ یتفرع مالم وقع انسان م او کلب فی قدر الصابون ، فصار صابونا، یکون طاھرا لتبدل الحقیقۃ۔” ( ص189)
9۔ فی رد المختار :” وقد ذکر ھذہ المسئلۃ العلامۃ قاسم فی فتاواہ ، وکذا ما سیاتی متنا ، وشر حھا من مسائل التطھیر بانقلاب العین ، وذکر الادلۃ علی ذلک بما لا مزید علیہ ، وحقق،وقق کماھو د ابہ رحمہ اللہ ۔۔۔ثم اعلم ان العلۃ عند محمد ھی التغیر ، وانقلاب الحقیقۃ ، وانہ یفتی بہ ، للبلوی کما علم ممامر ، ومقتضاہ عدم اختصاص ذلک الحکم بالصابون ،فیدخل فیہ کل ماکان فیہ تغیر ، و انقلاب حقیقۃ، وکان فیہ بلوی عامۃ، فیقال کذلک فی الدبس المطبوخ اذاکان زبیبہ متنجسا،ولا یسما ان الفار یدخلہ ، فیبول ، ویبغرفیہ ، وقد یموت فیہ ، وقد بحث کذلک بعض شیوخ مشا یخنا، فقال : وعلی ھذا اذا تجس السمسم، ثم صار طحینۃ، یطھر ، خصوصا وقد عمت بہ البلوی ، وقاسہ علی اذا وقع عصفور فی بئر ، حتی صار طینا، لایلزم اخراجہ ، لاستحالتہ ۔
قلت : لکن قد یقال : ان الدبس لیس فیہ انقلاب حقیقۃ، لانہ عصیر جمد بالطبخ ، وکذا السمسم اذا درس، واختلط دھنہ باجزائہ ، بخلاف نحو خمر صار خلا، وحمار وقع فی ملحمۃ ، فصار ملحا وکذا دردی خمر صار طر طیرام وعذرۃ صارت رمادا، او حماۃ ، فان ذلک کلہ انقلاب حقیقۃ الی حقیقۃ اخری ، لا مجرد انقلاب وصف ، کما سیاتی ، واللہ اعلم “۔ (1/315، 316 سعید)
10۔ وفیہ ایضا:” وھذا قول محمد ، وذکر معہ فی الذخیرۃ ، و المحیط ابا حنیفۃ ۔۔۔۔لان الشرع رتب وصف النجاسۃ علی تلک الحقیقۃ ، فکیف بالکل ؟ ( 1/328)
11۔۔۔۔وفی حاشیۃ الطحطاوی علی الدر :” ویطھر زیت تبخس بجعلہ صابونا، بہ یفتی ، ذلک لاستحالۃ العین ، واستحالۃ العین تستبع زوال الوصف المترتب علیھا۔ ” (1/161 دارالمعرفۃ )