گانے کی حرمت کے دلائل

سوال: ہم کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ اسلام میں گانا حرام ہے؟ براہ کرم مجھے کتاب، جلد، صفحہ و حدیث نمبر فراہم کردیں، یہ میں ایک غیرمقلد کودکھانا چاہتا ہوں، اس کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں۔

عمر، لاہور-

الجواب حامدۃ و مصلیۃ

موسیقی ، گانا سُننا ، سُنانا ، آلات موسیقی کا اِستعمال اور خرید و فروخت وغیرہ اِسلام میں حرام قرار دیے گئے ہیں-اس سلسلے میں پہلے چند آیات قرآنیہ ذکر کی جاتی ہیں:

اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ فرماتا ہے :(وَمِن النَّاسِ مَن یَشتَرِی لَہوَ الحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیلِ اللَّہِ بِغَیرِ عِلمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُواً اُولَٰۤئک لَھُم عَذَابٌ مُّھِینٌ)

(اورلوگوں میں ایسے بھی ہیں جوایسی چیزوں کو خریدتے ہیں جِن کے ذریعے بے عِلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اِسے ( اللہ کی راہ کو ) مذاق بنائیں یہی ہیں وہ لوگ جِن کے لیے رسوا کر دینے والاعذاب ہے ) 

(سورت لُقمان / آیت 6)

اِس آیت میں فرمائے گئے الفاظ ” لَہوَالحَدِیث” کی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ نے تین بار فرمایا:

 ” ھُو الغناء والذی لا إِلہ إِلَّا ھُو”

(اللہ کی قسم جِس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اِس کا مطلب گانا ہے) ”

(مُستدرک الحاکم /حدیث 3542)

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما کا فرمان ہے ”’ ھُو الغِنَا و اشباھہ”

( اِس کا مطلب گانا اور اُس جیسے دیگر کام ہیں) 

( مُصنف ابن ابی شیبہ /کتاب التفسیر )

اِس باب میں اِن دو صحابیوں کے عِلاوہ تابعین کی طرف سے بھی یہی تفسیر بیان ہوئی ہے۔

جب شیطان نےاولاد آدم کو بھٹکانے کےلیے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک مہلت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 ( قَالَ اذْھب فَمَن تَبِعَکَ مِنہُم فَإِنَّ جَہَنَّمَ جَزَآؤُکُم جَزَاء مَّوفُوراًوَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنہُم بِصَوتِکَ وَأَجلِب عَلَیہِم بِخَیلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکہُم فِی الأَموَالِ وَالأَولادِ وَعِدہُم وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیطَانُ إِلاَّ غُرُوراً إِنَّ عِبَادِی لَیسَ لَکَ عَلَیہِم سُلطَانٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیلo)

( اللہ نے فرمایا ،جاؤ اِنسانوں میں سے جو تمہاری تابعداری کرے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو ( تم سب کے کیے کا )پورا پورا بدلہ ہے  اِن میں سے جِسے بھی تُم اپنی آواز سے بہکا سکو بہکا لو،اور اِن پر اپنے سوار و پیدل سب (ساتھیوں) کے ساتھ چڑھائی کر لو ، اور اِنکے مال اور اولاد میں بھی اپنی شراکت بنا لو ، اور اُن سے وعدے کر لو، اور شیطان اِنسانوں سے جتنے بھی وعدے کرتا ہے سب کے سب فریب ہوتے ہیں میرے ( سچے اِیمان والے ) بندوں پر تیرا کوئی قابو اوربس نہیں ، اور تیرا رب کار سازی کرنے والا کافی ہے  )

 (سورۃ بنی إسرائیل آیات ٦٣ تا ٦٥ )

اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی آواز کا ذِکر فرمایا ،اِمام القُرطبی نے اپنی تفسیر ”’ الجامعُ لِاحکام القُرآن  میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام مُجاھد ( تابعی ) رحمہ اللہ کی بیان کردہ تفسیر لکھی کہ ” شیطان کی آواز ، گانا ، بانسُری اور آلاتِ موسیقی ہیں ‘ اور اِمام ضحاک رحمہ اللہ نے کہا ”’ باجوں کی آواز ”’ ، اور اِمام آلوسی البغدادی نے اپنی تفسیر” روحُ المَعانی ”میں اِمام ابن المنذر اور اِمام ابن جریر کے حوالے سے اِمام مُجاھد کی یہی تفسیر نقل کی ۔

اب کچھ احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

1-حضرت ابو مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا :

( لَیَکُونَنَّ مِن اُمَّتِی اَقوامٌ یَستَحَلُّونَ الحِرَ و الحَرِیرَ و الخَمرَو المَعازِفَ )

( ضرور میری اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو زِنا، ریشم اور شراب اور باجوں کوحلال کرنے کی کوشش کریں گے )

( صحیح البُخاری / حدیث٥٥٩٠/ کتاب الأشربہ /باب ٦ )

اِس حدیث مُبارک سے دو باتیں بالکل صاف ظاہر ہو رہی ہیں :

( ١ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام باجوں کا ذِکر فرمایا ہے ، اِس میں سے کِسی ایک کو بھی نکالنے کی گُنجائش نہیں –

(٢ ) یہ کہ تمام باجے ،شراب ، زنا اور ریشم کی طرح حرام ہیں ، کیونکہ اگر وہ حرام نہ ہوتے تو یہ نہ کہا جاتا کہ لوگ اُنہیں حلال کرنے کی کوشش کریں گے ، پس اِس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی وضاحت کے ساتھ تمام تر آلاتِ موسیقی کو حرام قرار فرمایا ہے –

عام طور پر ”’ معازف ”’ اُن باجوں کو کہا جاتا ہے جِنکو چوٹ مار کر بجایا جاتا ہے ، جیسے دف ، ڈھول ، طبلہ طنبور وغیرہ ، ( لِسان العرب ) اور ،ملاہی کھلونوں اور موسیقی کے تمام آلات کو کہا جاتا ہے ( مُختار الصحاح ، غریب الحدیث لابن سلام، لِسان العرب ) 

اگر کِسی کے دِل میں اِس لفظی معنی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہو کہ ”’ حرام تو صرف معازِف کو کہا گیا ہے ، یعنی مار کر بجائے جانے والے آلاتِ موسیقی کو ، دوسری چیزوں کو تونہیں ، لہذا کچھ کی گُنجائش رہ ہی جاتی ہے ”’ بلکہ کچھ کو تو یہ کہتے سُنا گیا ہے کہ ”’ اُس وقت کے آلات تو اور تھے اُن سے منع کیا گیا تھا ، اب تو وہ آلات کہاں ، کِسی کا نام تو نہیں لیا گیا کہ فُلان آلہءِ موسیقی حرام ہے ”’ تو ایسے مُسلمان بھائی بہنیں مندرجہ ذیل أحادیث ملاحظہ فرمائیں :

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(إ ِنَّ اللَّہ َ قَد حَرَّمَ عَلیٰ اُمتِی الخَمر و المَیسَر و المزر والکُوبَۃَ و القَنِینَ و زادنی صلاۃ الوِتر ) ( بے شک اللہ تعالیٰ نے میری اُمت پر شراب اور جُوا اور مکئی کی نبیذ اور طبل (ڈھول ) اور قنین حرام کر دئیے ہیں اور “الکوبہ” طبل یعنی ڈھول کو کہا جاتا ہے ، اب اِس ڈھول کو کوئی بھی شکل دے دیجیئے وہ اصل میں رہے گا تو ڈھول ہی ، کوئی بھی نام دیجیے اُس کی حقیقت تو نہیں بدلے گی ، اُسے ڈھول کہیے یا ڈھولکی ، طبلہ کہیے یا طبلی ، ڈرم کہیے یا باس بیٹر ، ہے تو وہ ”’ الکُوبَۃ ”’

اور ”’ القَنِین”’ ہر اُس آلہءِ موسیقی کو کہا جاتا ہے جِس کا اُوپر والا حصہ ایک ڈنڈے کی صورت میں ہوتا ہے ، لکڑی کا ہو یا کِسی دھات کا اور نیچے والا حصہ کھوکھلا اورگول یا بیضوی شکل میں ہوتا ہے اور اوپر والے حصے کے آغاز سے نیچے والے حصے کے درمیان تک ایک یا زیادہ تاریں بندھی ہوتی ہیں، اس تشریح سے یہ معلوم ہوا کہ ہر طرح کا گانا باجا اسلام کی نظر میں حرام ہے-

اللہ تعالی ہر مسلمان کو تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے! 

واللہ الموفق

اہلیہ محمود الحسن

صفہ آن لائن کورسز

اپنا تبصرہ بھیجیں