سوال : باجی جان! ایک آدمی تھا جسکے دو بیٹے ہیں جو کہ بالغ ہیں ،عرصہ بارہ پندرہ سال سے اس آدمی کے اور اس کی بیوی کے تعلقات انتہائی خراب رہے، مطلب اس کی بیوی الگ گھر میں اپنے بیٹوں کےساتھ رہتی ہے، اور وہ آدمی اپنی بوڑھی ماں کساتھ رہتا رہا ۔
بچوں بیوی کا خرچہ وہ پوری ذمےداری سے پورا کرتا تھا، جبکہ اس کی بیوی اس سے بات تو کرنا دور ،اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔
بیٹے بھی ماں کی روش پہ چلتے ہوئے باپ کو نہیں بلاتے تھے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ وہ ادمی جو وفات پا چکا ہے اس کی جائداد جو کہ اس آدمی کے ہی نام ہے، اس کے وارث تو وہ بیٹے ہی ہیں مگر !
اس آدمی کی بوڑھی ماں جو، ان بچوں کی دادی ہے اس کو کوئی حصہ ملے گا کیا؟
الجواب باسم ملھم الصواب
جی ہاں ! اس آدمی کی وراثت سے اس کی والدہ کو کل مال کا سدس( 1/6) ملے گا۔ اور بیوی کو ثمن(1/8) حصہ ملے گا اور باقی سارا مال اس کے دونوں بیٹوں میں برابر تقسیم ہوگا ۔
حوالہ جات :
1 ۔ وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَـہ وَلَــدٌ ” ۔( النساء : 4)۔
ترجمہ : ’اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے جو اُس نے چھوڑا اگر میت کے اولاد ہو۔‘‘
2 ۔ ” واما للام فاحوال ثلث: السدس مع الولد،او ولد الابن وان سفل “۔(السراجی : ص : 11، سعید)۔
3۔” وھم : کل من لیس لہ سھم مقدر، ویاخذ ما بقی من سہام ذوی الفروض، واذا انفرد اخذ جمیع المال ۔۔۔۔الخ ” ۔
(الفتاوی الھندیہ: 444/6)۔
واللہ اعلم بالصواب۔
20/01/1444
19/08/2022
Load/Hide Comments