محمد انس عبدالرحیم
گزشتہ دنوں ایک تحریر نظر سے گزری جس میں فرقہ واریت کے خاتمے کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام نے تجاویز دی ہیں۔ خیال آیا کہ اسے سلسلہ وار مضمون ’’مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان‘‘ کا حصہ بنادیا جائے۔ سو حذف و ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے ۔ تبصرہ کے عنوان سے اور قوسین میں جو عبارات دی گئیں ہیں وہ ناچیز کا تصرف ہے۔ ان کے علاوہ بھی مختلف ترامیم کی گئیں ہیں۔
’’مملکت پاکستان کو یوں تو بے شمار مسائل کا سامنا ہے لیکن فرقہ ورانہ دہشت گردی نے پورے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔
کراچی سے لے کر خیبر تک ہرچھوٹے بڑے شہر میں فرقوں کے نام پر دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں، ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں نے صورتحال کو بے انتہا خراب کردیا ہے۔ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا فرد دوسرے مکتب فکر کی مساجد کے پاس سے گزرنے سے بھی جھجکتا ہے۔ حکومت دہشت گردوں کو پکڑنے کے دعوے کرتی ہے، سیاسی و مذہبی تنظیمیں اتحاد کی اپیلیں کرتی ہیں لیکن روزانہ کوئی نہ کوئی واردات ثابت کررہی ہے کہ ملک دشمن اور اسلام دشمن اپنا کام جامع منصوبہ بندی کے تحت کیے جارہے ہیں۔ اس صورتحال کاتدارک کیسے ہو؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے اور موجودہ صورتحال میں مختلف مکاتب فکر اور مسالک کے علمائے کرام کی رائے جاننے کے لیے کراچی میں ایکسپریس فورم کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع ’’فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مذہبی ہم آہنگی، وقت کی اہم ضرورت‘‘ تھا، اس موضوع پرمختلف شخصیات اور علمائے کرام نے اظہار خیال کیا اور تجاویز پیش کیں۔ ایکسپریس فورم کی رودادنذر قارئین ہے۔(مکمل روداد ایکسپریس نیوز 19؍ ستمبر فیس بک پر دیکھیے)
مولانا عبدالکریم عابد (جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے سرپرست کی تجاویز:
۱۔ علما میں اختلافات تو ہردور میں رہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی وجہ تنازع نہیں بنے۔ علمی اختلافات کو تو رحمت کہا جاتا ہے تاہم محض مخالفت برائے مخالفت اور کسی کو نیچا دکھانے کے لیے اختلاف کو اسلام نے شدت سے ممنوع قرار دیا ہے۔ (تبصرہ: اس لیے اختلاف کے جو دائرہ کار اور حدود اسلاف نے طے کر دیے ہیں ان حدود میں رہ کر اختلاف ہونا چاہیے۔)
۲۔صورتحال کی خرابی کا سبب یہ ہے کہ ہر داڑھی والے کو (اور ہر دینی معلومات کے حامل شخص کو)عالم سمجھا جارہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ فرقہ واریت کے ذمے دار وہ عناصر ہیں جنھوں نے علماکا روپ دھار رکھا ہے۔(لیکن در حقیقت وہ علماء نہیں ہیں)
۳۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ کوئی قاتل پکڑا نہ جائے، انتظامیہ صحیح کردار ادا نہیں کر رہی اور حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ سے کچھ نہیں چھپ سکتا، موجودہ صورتحال میں یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ (تبصرہ: جب عمل درآمد ہوگا اور مجرموں کو سزائیں ملیں گی تو فرقہ واریت میں نمایاں کمی آئے گی)
۴۔ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک دوسرے کی مساجد میں نماز نہ پڑھنا علمائے کرام اور مذہبی تنظیموں کی کمزوری ہے، اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
مولانا شاہ اویس نورانی مرکزی سیکریٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان کی تجاویز :
۱۔ فسادی اور فاشسٹ لٹریچرکی اشاعت اور اس کی تقسیم پر سرکاری سطح پر پابندی ہونی چاہیے، یہی فساد کی اصل جڑ ہے اور اس کی روک تھام میں حکومت کا کردار سب سے اہم ہے کیونکہ نفرت پھیلانے والے، تنگ نظری اور منافرت پر مبنی لٹریچر اور اسے پھیلانے والوں کو نہ روکا گیا تو صورتحال بہت خراب ہوجائے گی۔مذہبی بنیاد پر اختلافات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن اس وقت ایک تہذیب بھی ہوتی تھی۔ آج یہ کون سی قوت ہے جو معمولی معمولی بات پر قتل کو تیار بیٹھی ہے، درحقیقت یہ تیسری قوت ہے جو مغربی ایجنڈے پر گامزن ہے۔
۲۔ اگر فرقہ واریت کا زہر ہماری رگوں میں ہوتا تو آج سارے علمائے کرام ایک جگہ موجود نہیں ہوتے، فرقہ واریت ٹاپ لیول پر نہیں بلکہ نچلی سطح پر ہے۔ آج ایک طرف علامہ عباس کمیلی کے بیٹے کو تو دوسری طرف مفتی محمد نعیم کے داماد کو شہید کردیا جاتا ہے، یہ کونسی قوت ہے جو جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے کرام اپنے لوگوں کو کنٹرول کریں ۔
۳۔80 سے 90فیصد علما نے بہت محنت سے فرقہ واریت کو کنٹرول کیا ہے ، دکھ کی بات یہ ہے کہ جب کوئٹہ کا واقعہ ہوتا ہے تو اس کے فوری بعد راولپنڈی کا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔امام بارگاہ میں دہشت گردی ہوتے ہی دوسرے مکتب فکر کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ایسی صورتحال میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ سختی سے کفر کے فتووں کی مذمت کریں۔
۴۔ کچھ عناصر ملک میں عسکری قوتوں کو بھی مضبوط کررہے ہیں تاکہ فساد کے ذریعے ملک و قوم کو کمزور کیا جاسکے، یہ مغرب کا ایجنڈا ہے۔
ہمیں ان لوگوں کو بے نقاب کرنا ہوگا …
۵۔ وزیرستان کی ویڈیو تو سارے ملک میں دکھائی جاتی ہے لیکن کیا پاکستان کے دوسرے شہروں میں ایک دوسرے کے گلے نہیں کاٹے جارہے؟مسلمانوں کے ساتھ ساری دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مختلف انداز میں ہمارے صبر کا امتحان لیا جارہا ہے۔(تبصرہ: یعنی یکسانیت اور مساوات ہونی چاہیے تاکہ جذبات برانگیختہ نہ ہوں)
اشرف قریشی (چیئرمین اہلحدیث ایکشن کمیٹی) کی تجاویز :
۱۔ فرقہ واریت کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں صبر و برداشت ختم ہوگئی ہے، اس کی بنیادی وجہ نظام تعلیم ہے چاہے وہ عصری ہو یا دینی۔
۲۔ حکومت فرقہ واریت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن حکومت ہمیشہ جانبداری کا مظاہرہ کرتی ہے اور شرپسند عناصر کو پروموٹ کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں موجود اچھی روایات دم توڑرہی ہیں۔
(۳) فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ایک ایسے ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہونا چاہیے جس پر سب مسالک اور مکاتب فکر عمل کریں۔
۴۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مدارس کے نصاب میں بھی احکام خداوندی اورتعلیمات رسول ﷺ سے زیادہ فقہی و فروعی معاملات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اختلافات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن ایسی سنگین صورتحال اور کشیدہ ماحول نہیں ہوتا تھا جیسا آج کل دیکھنے میں آتا ہے۔ پہلے اختلافات کو علمی مناظروں سے طے کیا جاتا تھا لیکن جب مناظرے ختم ہوگئے تو ان کی جگہ تشدد نے لے لی۔
۵۔ فرقہ واریت میں بیرونی عناصر کا بھی بڑا کردار ہے۔
۶۔ ایک ایسے امن معاہدے کی ضرورت ہے جسے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام مل کر تیار کریں اور اسے آئینی تحفظ بھی حاصل ہو۔ پھر اس کے بعد اگر کوئی اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو اسے سزائیں دی جائیں۔
علامہ عون نقوی (سربراہ ادارہ تبلیغ تعلیمات اسلامی پاکستان)کی تجاویز:
۱۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہم ہر فورم اور مختلف محافل میں بیٹھ کر تو فرقہ واریت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، میڈیا پر اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ ہوتا ہے مگر جب ہم تمام علماء اپنے عوام میں جاتے ہیں تو ان میں فرقہ واریت کے حوالے سے شعور بیدار نہیں کرتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام علمائے کرام حضرات کو اپنی اپنی کمیونٹی میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المسالک کی تعلیم عام کرنی چاہیے کیونکہ جن علما کے پاس منبر و محراب کی ذمے داری ہے وہ اپنے اپنے زیر اثر علاقوں اور لوگوں کو جو بات کہیں گے، اس پر عمل یقینی طور پر زیادہ ہوگا۔‘‘
۲۔ہمارا شروع سے موقف رہا ہے کہ ہاتھ کھول کر یا ہاتھ باندھ کرنماز پڑھنے کی وجہ سے کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا۔ (تبصرہ: فروعی اختلافات میں تشدد اور حدود سے بڑھنا جائز نہیں ہے۔ عقیدہ کا اختلاف حقیقی اختلاف ہوتا ہے اس میں بھی حدود کی رعایت ضروری ہے)
(۳)مظاہروں اور احتجاجی جلوسوں میں تشدد کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں بھی بڑے بڑے احتجاجی جلوس اور مظاہرے ہوتے ہیں لیکن وہاں کوئی بدمزگی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ خفیہ ہاتھ فساد پھیلا رہا ہے اور وہ احتجاج اور مظاہروں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرلیتا ہے۔ان عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے!
علماء کرام کی تجاویز آپ نے ملاحظہ کیں۔ یقینا ان میں سے اکثر تجاویز نہایت مفید اور کار آمد ہیں۔ علماء ، عوام، سیاست دانوں، میڈیا اور حکمرانوں کا غرض تمام نقطۂ نظر کے لوگوں کو ان سے استفادہ کرنا چاہیے! قربتیں بڑھنی چاہئیں! نفرتیں ختم ہونی چاہیے!