مسلمانوں میں جو نظریاتیارتداد آیا ہے، اس کے چند اسباب یہ ہیں:
استشراق ، مغربی ممالک نے اسلام کے اصل ورثہ کو مخدوش کرنے کی کوشش کی۔ یعنی الٰہیات، رسالت کے متعلقات، مغیبات وغیرہ کے بارے میں تشکیک پھیلانا.
استعمار، یہ بھی نظریاتی ارتداد پھیلنے کا سبب بنا.
عالمگیریت، جس کے تحت چند ممالک کی تہذیب کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔
مغرب نے نظام تعلیم میں یہ خرابیاں پیدا کیں:
ایک اسلام و مسلمان کی اصطلاح کا اصل مفہوم کا پتہ نہیں۔
یونیورسٹی اور مدارس کے نظام تعلیم میں فرق۔
نوخیز نسل مغربی اداروں میں تعلیم پاتی ہے، ان کے ذہنوں میں اسلام کی درست تصویر ہی موجود نہیں ہے.
99 فیصد لوگ اصطلاح کے مطلب کو نہیں جانتے جب جانتے نہیں تو اس میں خود کو ڈھالیں گے کیسے۔
دنیا میں چار قسم کے لوگ ہیں:
1۔ وہ جو ہر چیز میں اپنی عقل اور رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں. وہ ہر فیصلہ اپنے ذہن سے کرنا چاہتے ہیں. کسی خارجی رہنمائی کے قائل نہیں. وان الظن لا یغنی من الحق شیئا.
2۔ جو مذہب کو مانتے ہیں، مگر برائے نام.وہ اپنی من پسند چیزوں کو بھی دین کا نام دیتے ہیں. گویا انہوں نے مذہب کا اپنا تابع بنا لیا ہے. زمانہ نبوت میں ان کی نمائندگی بنی اسرائیل کر رہے تھے.
3۔ جو تقلید کے قائل ہیں. وہ اپنے آباؤ اجداد پر اپنا مدار رکھتے ہیں. وہ غالب اقوام کے رنگ میں رنگ جاتے جاتے ہیں.
4. چوتھے نمبر پر اسلام ہے. اسلام میں یہ تین چیزیں نہیں ہیں.
اسلام اعتدال اور وسطیت کا نام ہے.
اسلام کے نزدیک عقل کا استعمال وہاں کیا جائے گا، جہاں عقل کی جگہ ہے. اس کے بعد نقل یعنی قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیا جائے گا.
عقل جیسی نعمت کو صحیح استعمال کرنے کی سمت کیا ہے ، اعتدال کا راستہ کیا ہے؟
اعتدال کا راستہ اسلام ہے۔
اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ پہلے آپ اپنی روایتی تقلید سے آزاد ہو جائیں۔ پھر اپنی عقل سے اس میں غور کریں کہ خدا موجود ہے یا نہیں ۔
انبیاء کے اقوال ، اعمال ،کردار کیسے تھے۔
قرآن اللہ کی کتاب ہے یا نہیں؟ یہ ہماری رہنمائی کر سکتی ہے یا نہیں ۔
بنیادی عقائد میں عقل کو استعمال کریں۔
جب آپ نے یہ چیزیں عقل سے چانچ لیں اب آپ عقل کو خیر آباد کہ دیں ۔
کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد اسلام کے احکام میں عقل کے گھوڑے مت دوڑائیں کہ میں یہ عمل تب کروں گا جب میری عقل مانے گی۔ یہ اصول دنیا میں بھی نہیں چلتا۔ جیسے ایک ماہر ڈاکٹر کے پاس جا کر آپ اس سے ہر بات پر دلیل نہیں مانگتے بلکہ اس کی ہر بات کو مانتے ہیں۔
عقل کا استعمال دو جگہ پر کریں:
1۔ کیاواقعی یہ اللہ و رسول کا حکم ہے یا نہیں ۔
2۔عقائد میں بھی تحقیق کر لیں کہ یہ قرآن و سنت کے مطابق ہیں یا نہیں لیکن یہ بھی اطاعت کے جزبے سےکریں شکوک شبہات کی بنیاد پر نہیں۔
اسلام قرآن ہے اور قرآن کلام اللہ ہے اور سائنس فعل اللہ ہے۔
پیورسائنس نہ مذہب کے خلاف ہے اور نہ ہی اسلام مذہب کے خلاف ہے۔ بلکہ وہ مذہب کا تقاضا ہے کہ ہر انسان دنیا کی تعمیر کرے۔ اور یہ تعمیر سائنس سے ہو سکتی ہے۔
اسلام سے متصادم چیز فلسفیات اور وہ اصول ہیں جو فلسفیوں نے محض اپنی عقل سے گھڑ لیے تھے ۔جس کی آڑ میں انہوں نے اپنے عقائد پھیلائے ہیں۔ پھر اس فلسفے کو انہوں نے نصاب کا ایسا لازمی حصہ بنایا جیسے آٹے کے لیے پانی۔
آج ہمیں ایسے افراد تیار کرنے ہیں جو دینی علوم اور سائنسی علوم کے ماہر ہوں کیونکہ فعل اللہ اور کلام اللہ میں کوئی تضاد نہیں ہو سکتا۔
جامعة الرشید میں اس پر کام کر رہا ہے، تاکہ ان دونوں علوم کو یکجا حاصل کیا جائے جس سے دنیا میں ارتداد و الحاد کا خاتمہ ہو جائے۔
دینی و عصری نصاب میں خامیاں:
بنیادی خامی
مطابقت و ہم آہنگی نہیں پیش کی گئی۔ اس نصاب میں متضاد چیزوں کو جمع کی گیا ۔
دینی نصاب تو اس ایک طرف لے جا رہا ہے اور عصری نصاب دوسری طرف لے جا رہا ہے۔
اس سے کوئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان پروان نہیں چڑھا۔ اسلام لوگوں کے دلوں میں تب بیٹھے گا جب ہم بالفعل اس پر عمل کر کے دکھائیں گے ۔
دینی و عصری نظام تعلیم میں فرق
کالجز و یونیورسٹیز جن میں اسلامی علوم شامل نہیں یہ تو نہایت قابل افسوس ہے۔
وہ نظریات جن سے الحاد بڑھتا ہے:
1 مذہب کے تین اجزاءعقائد عبادات اخلاقیات ان کو اہمیت کے ساتھ بیان نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں ایک حقیر سی چیز بنا کر پیش کیا گیا۔
2 یہ تاثر دینا کہ انسانی زندگی صرف مادی زندگی میں محدود ہے۔ دوسرے الفاظ میں مذہب انسان کے لیے ہے لیکن انسان مذھب کے لیے نہیں ہے۔
3 ہر نیکی و فائدہ کو ہم میجر کریں جانچیں جو چیز عقل قبول کرے اس کو مان لیں باقی کو نہیں۔
4 جو چیز عقل عام میں آسکے وہ ٹھیک ہے جو نہ آئے وہ ٹھیک نہیں ۔خدا کا وجود ,وحی ,فطرت اور اسلامی تعلیمات انسان کی عقل میں نہیں آ سکتے اسی لیے ان کا انکار کرنا۔
5 فقہ، اسلام، سیرت نبویہﷺ وغیرہ کو آج کی زندگی میں نہیں اپنایا جا سکتا چونکہ یہ گزر گیا جو گزر جائے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔
6 نظریہ ارتقاء
7 آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یہ طبیعات میں تو ٹھیک ہے لیکن مذہب میں نہیں۔
8 نظریہ بعد رابع
جب پرانے زمانے کی چیزوں کا زمانہ چلا گیا لہذا وہ ختم ہو گئیں اسی لیے مذہب بھی ختم۔
وقت کی اہم ضرورت:
دینی و عصری نصاب تعلیم کی نظر ثانی ماہرین کریں جو دونوں علوم میں ماہر ہوں۔
اب یہ ذمہ دینی و عصری تعلیم کے اختلاط سے پوری ہو گی ۔
دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی ہو ان میں عصری تعلیم کو شامل کیا جائے۔
اسلام ہمیں جو طاقت کا عقیدہ دیتا ہے وہ کسی قوم کے پاس نہیں ہے۔ ہم اس سے دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹنگ ٹیم فضلاء تربیتی اجتماع 2019ء
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
سینئر مفتی جامعۃ الرشید