میڈیا سے چند گزارشات
محمد انس عبدالرحیم:
تحریر و تقریر ،ماضی اور حال:
لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے حوالے سے انسان اگر اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کرے تو اسے نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ گزشتہ زمانوں میں اس مقصد کے لیے صرف خطاب و تقریر اور خطوط کی سہولتیں میسر تھیں۔ جبکہ موجودہ دور میں یہ دونوں چیزیں چلے ہوئے کارتوس، سست رفتار اور ابلاغ کے تھکے ہوئے ذرائع قرار دیدیے گئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں موبائل، انٹرنیٹ اور میڈیا، پیغام رسانی کے نہایت تیز رفتار ذرائع شمار کیے جاتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ جدید ذرائع ابلاغ تحریر و تقریر ہی کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔
ایک روشن حقیقت:
لیکن بہرحال! اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تحریر و خطابت کی قدیم صورتیں ہوں یا جدید ترقی یافتہ شکلیں، دونوں ہی اپنے اپنے دور میں ’’دو دھاری تلوار‘‘ ثابت ہوئیں۔ انسانوں نے ان کا صحیح اور مثبت کاموں میں بھی استعمال کیا اور غلط اور منفی کاموں میں بھی۔ نیکی کی طاقتوں نے سچائی اور نیکی کے پرچار کے لیے ان کو کارآمد بنایا جبکہ بدی کی قوتوں نے انہیں جھوٹ اور بدی کی اشاعت و ترویج کا وسیلہ ۔اس کے باوجود ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غلط استعمال کی وجہ سے ان کی راہیں مکمل طور پر مسدود کر دی گئیں ہوں۔ درحقیقت یہ بھی نیکی اور بدی کی قوتوں کی باہمی جنگ ہے جو اس میں آگے بڑھ جائے جیت اس کی ہوگی۔
ذہنوں کوفتح کرنے کا حربہ:
گزشتہ دور اونٹوں اور گھوڑوں کا تھا موجودہ دور ہوائی جہاز اور ٹینک توپوں کا ہے۔ پچھلے ادوار میں تیر و تلوار میں مہارت قوت کا معیار تھا دور حاضر میں ایٹمی طاقت ہونا قوت اور مضبوط دفاع کی علامت ہے۔ ماضی میں تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا دار و مدار جن علوم و فنون پر تھا عصر حاضر میں ان علوم و فنون کی وہ اہمیت نہیں رہی۔ آج کے دور میں سائنس، ٹیکنالوجی اور فنون جدیدہ کے حصول کو علم و تہذیب کی کسوٹی اور معیار قرار دے دیا گیا ہے۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جن سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ یہی صورت حال جدید ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی ہے۔ عصر حاضر میں ترقی یافتہ اقوام کی دوڑ میں داخل ہونے اور علم و تہذیب کا شہ سوار بننے کے لیے میڈیا اور پیغام رسانی کے جدید ذرائع کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی حاصل کرکے ہم کچھ بھی بن جائیں لیکن ہمارے خیالات و نظریات ، ہماری فکر اور پیغام دوسری قوموں میں تب ہی سرایت کریں گے جب رفتار ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے ہم اقوام عالم کے عوام و خواص اور گھر گھر تک انہیں پہنچانے کے اقدامات کریں گے۔ مغربی تہذیب کے افکار کی مثال سب کے سامنے ہے کہ وہ کس تیزی سے دنیا کے ذہنوں میں جگہ بنا کر انہیں متاثر کر رہے ہیں۔ جو جس قدر میڈیا کو طریقے سے استعمال کر رہا ہے وہ اس قدر لوگوں کے دل و دماغ کو اپنے خیالات و افکار کے تابع بنا رہا ہے۔ الغرض جدید میڈیا ایک جنگ (war) ہے جس کے ذریعے آپ لوگوں کے ذہنوں کو فتح کر سکتے ہیں۔
دو سوالات :
یہاں پہنچ کر میں اہل علم و دانش کے سامنے دو سوالات اٹھانا چاہتا ہوں:
۱۔ آزادی یا غلامی؟
الحمدﷲ ! ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان دنیا میں اپنے مقصد تخلیق سے واقف ہوتا ہے۔ اپنے مقصد تخلیق کے ناطے ہم مسلمان اپنے روزگار و معاش کی فکر کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اشاعت اسلام کا وژن بھی رکھتے ہیں۔ میڈیا کے طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلم صحافیوں اور ٹی وی چینل مالکان سے میرا سوال ہے کہ قوم کو بتایا جائے کہ وہ جو انداز ابلاغ اور نکت¢ۂ صحافت اختیار کیے ہوئے ہیں وہ اسلام کے وژن کو پورا کر رہا ہے یا مغربی اقوام کے منشاء اور مقصد کو؟ اگر ہمارے اور مغربی میڈیا کے انداز ابلاغ (فحاشی کا فروغ) میں یکسانیت ہے تو یہ آزادی کہاں؟ یہ تو سراسر دوسروں کے وژن کی غلامی ہے!!! اﷲ کی غلام سے نکل کر باطل کی غلامی!!! سچائی کا ساتھ چھوڑ کر جھوٹ کے ساتھ یاری!!!
۲۔ کہیں ہم مجرم تو نہیں؟
میرا دوسرا سوال علماء کرام کے طبقے سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم چاہتے یہ ہیں کہ دنیا کی تمام قوموں میں، بستی بستی، گلی گلی اور گھر گھر میں اسلام کا نور پھیلے جبکہ جانتے بھی ہیں کہ ہمارا حریف اپنا منفی پیغام اور اپنے مکروہ افکار و خیالات کو گھر گھر پہنچانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگیا ہے بلکہ خود ہمارے گھر بہت برے طریقے سے ان کی یلغار کی لپیٹ میں آچکے ہیں کیا پھر بھی ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے ؟ ہم ان کو منہ توڑ جواب انہیں کی سطح پر کیوں نہیں دیتے؟ ہم اپنے پیغام کو جدید ذرائع کی مدد سے اپنے حریف کسے بھی آگے بڑھ کر گھر گھر کیوں نہیں پہنچا رہے؟ کہیں کل ہم سے یہ سوال تو نہیں ہوگا کہ تم نے دنیا کو اسلام کے بارے میں درست معلومات کیوں نہیں پہنچائیں؟ کہیں ہم بارگاہ الٰہی میں مجرم تو ٹھہریں گے؟ کیا ہم اپنے دشمنوں کو یوں ہی بے مہار چھوڑ دیں کہ وہ جس طرح چاہیں دنیا کو بے وقوف بناتے رہیں۔ کیا ہم دنیا کے لوگوں کو بلا روک ٹوک باطل کے نرغے میں پھنسنے دیں؟
یاد رہنا چاہیے کہ تلوار کو تلوار ہی کاٹتی ہے اور لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔
افسوس کی بات:
دنیا میں ہمیشہ وہ قومیں اپنا سر فخر سے بلند رکھتی ہیں جو ایک مقصد، وژن (Vision)اور فریم ورک کے تحت کام کرتی ہیں۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت کو اپنا مقصد تخلیق ہی نہیں معلوم جس میں میرا خیال ہے کہ ہمارا میڈیا بھی شامل ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف پیسہ اور کاروباری مسابقت ہے جس کے لیے ہم ’’سب کچھ ‘‘ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ہم آزادی کے نعرے لگاتے ہیں لیکن حقیقت میں غلامی کی زنجیروں میں بڑی طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شاہ عرب حضرت محمد ﷺ کے امتی ہونے کے ناطے دوسری قومیں ہماری اسیر اور غلام ہوتیں!
فرض کر لیتے ہیں کہ آپ کے پاس مال و دولت کا انبار لگ گیا۔ آپ دنیا کے سب سے دولتمند شخص ہوگئے۔ اس کے بعد کیا؟ کیا یہ ہی ایک مقصد تھا آپ کی زندگی کا؟ کیا یہی آپ کا مقصد تخلیق ہے؟ اتنی ساری دولت آپ کے کیا کام آئے گی؟ اس دولت سے کب تک آپ فائدہ اٹھا لیں گے؟ کسی کے پاس ان سوالوں کے بامعنی جواب نہیں۔ کیونکہ یہ ساری دوڑ دھوپ آپ اپنے حقیقی مشن سے ہٹ کر کر رہے ہیں۔
گذارشات:
اس لیے میڈیا سے ہماری چند گزارشات ہیں۔ امید ہے کہ صحافتی حلقے ان کو میڈیا کے ارباب حل و عقد تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں گے۔ کیوں کہ یہ صرف ہماری ہی نہیں پوری مسلم امہ کی آواز ہے۔
۱۔ اپنا مقصد تخلیق پہچانیں!
اپنے مقصد تخلیق کو پہچانیں۔ ریسرچ کریں۔ مطالعہ کریں، اپنے ضمیر کو ٹٹولیں اور یہ جواب حاصل کریں کہ اس دنیا میں انسانوں کو کیوں پیدا کیا گیا ہے؟
۲۔ اپنا وژن بنائیں!
جب آپ اپنا مقصد تخلیق دریافت کر لیں توپھراسی کے مطابق دور حاضر کے تمام پہلوؤں اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اپنا وژن اور فریم ورک سیٹ کریں۔ یقیناًآپ کا وژن اسلام اور سچائی کی ترویج ہوگا۔
۳۔ فحاشی پر مبنی چیزیں پیش نہ کریں!
اپنے طرز صحافت سے فحاشی، عریانی پر مبنی چیزیں نکال دیجیے! فحاشی اور عریانیت مسلم معاشرے بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن اور تکلیف دہ ہے۔
اسے آپ ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ دو قیدی ہوں۔ دونوں بھوکے ہوں۔ ایک کے لاک اپ سامنے بہترین کھانے اور مٹھائیاں رکھی ہوئی ہوں لیکن لاک اپ میں بند ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھ وہاں نہیں پہنچ پا رہے۔ جبکہ دوسرے قیدی کے لاک اپ کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ بتائیے کہ دونوں قیدیوں میں سے کون زیادہ تکلیف میں ہوگا؟ یقیناًوہ جس کے لاک اپ کے سامنے طرح طرح کے کھانے اورمٹھائیاں سجائی ہوئی ہیں لیکن وہ ان کے حصول سے قاصر ہے وہ بے حد کرب و اذیت کی حالت میں ہوگا۔
قابل قدر دوست جناب محمد عرفان راز صاحب نے ایک شعر کہا ہے جو اس موقع کے لیے موزوں معلوم ہورہا ہے۔
تیرا جلوہ اگر ظاہر نہ ہوتا
تو دل میرا کبھی کافر نہ ہوتا
۴۔ اسلام کا دفاع کریں!
اپنی تمام تر صلاحیتوں کا رخ اسلامی اخلاق و اقدار اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت کی طرف موڑدیں۔ مغرب اور بدی کی قوتیں جس طرح ملفوف اور ڈھکے چھپے پیرایوں میں اسلام کا مذاق اڑا رہی ہیں اور اسلام کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہی ہیں میڈیا وار میں ان کا انہیں کے پیرایے میں دندان شکن جواب آپ کے ذمہ قرض ہے۔
۵۔ مستند اسلامی اسکالرز کو دعوت دیں!
صاف نظر آتا ہے کہ اسلامی امور پر بحث و مباحثہ کے لیے ایسے اسکالرز کو پروگرام میں دعوت دی جاتی ہے جو خود متنازعہ ہیں اور اجماع امت سے مختلف سوچ رکھتے ہیں، مثلاً: غامدی صاحب، زید حامد وغیرہ۔ اس سے فرقہ واریت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور نئے فرقے وجود میں آسکتے ہیں۔ اس لیے میڈیا کو چاہیے کہ وہ اجتماعی حیثیت رکھنے والے علمائے کرام کو دعوت فکر دیں۔ ساتھ ساتھ اس کا بھی پورا خیال رکھا جائے کہ دونوں طرف مساوی علمیت رکھنے والے اسکالرز ہوں ۔ توازن اور مساوات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
۶۔ غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں!
میڈیا اگر چاہتا ہے کہ وہ فرقہ واریت پھیلانے میں حصہ دار نہ بنے تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ وہ ہر سال مسلکی ایام میں کسی بھی فرقہ کی جانبداری نہ کرے۔ بلکہ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے عوام میں بیداری اور شعور پیدا کرے۔
۷۔ اسلامی تحریکوں کو نظر انداز نہ کریں!
میڈیا کا یہ رویہ نہایت افسوس ناک بھی ہے اور حیران کن بھی کہ وہ ایک کتے اور بلی کی موت کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اسے خوب کوریج دیتا ہے لیکن جب بات آتی ہے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی ، سامراج اور اہل مغرب کی طرف سے کی جانے والی نا انصافیوں اور مظالم کی تو گویا لبوں پر تالے پڑ جاتے ہیں۔ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے حق میں دو بول بھی کوئی بولنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایک اسکول پر یا انگریزی دان ملالہ پر حملہ ہوتا ہے تو پوری دنیا میں گویا کہرام مچ جاتا ہے اوراسے تعلیم پر حملہ گردانا جاتا ہے لیکن آئے روز مساجد مدارس اور علماء طلبہ پر حملے ہوتے ہیں، معصوم بچوں کو تلاوت قرآن کے دوران شہید کردیا جاتا ہے اسے تعلیم پر حملہ قرار نہیں دیا جاتا۔ ان کے حق میں کوئی لب کشائی نہیں کرتا۔ کیوں؟؟؟ شاید اسلام اور دین کی بات کرنے والے انسان نہیں بلکہ کوئی ایسی مخلوق ہیں جن کی موت پر اظہار افسوس کی کوئی ضرورت نہیں!!!
۸۔ سورۃ الحجرات کو اپنا آئین بنائیں!
اسلامی میڈیا کن قواعد و ضوابط کی روشنی میں اپنا کردار اور فریم ورک تشکیل دے اس کے لیے میری اپنے تمام صحافی بھائیوں اور ٹی وی چینل مالکان سے درمندانہ اپیل ہے کہ وہ قرآن کریم پارہ نمبر 26 کی سورۃ الحجرات کا بغور مطالعہ کریں! ایک بار نہیں بار بار اس کے مندرجات کا جائزہ لیں اور اس سے ماخوذ اصولوں سے اپنا وژن اور فریم ورک ترتیب دیں۔ آسانی کی خاطر چند اہم اصول مختصراً پیش خدمت ہیں:
۱۔ اپنے اندر خوف خدا پیدا کریں۔ یہی تمام نیکیوں اور بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔
۲۔ فرق مراتب کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔ حق گوئی ضروری ہے لیکن خوا مخواہ میں حکام وقت اور علمائے امت کی توہین نہیں کرنی چاہیے!
۳۔ بلا تحقیق کسی خبر یا رپورٹ کو نشر نہ کیا جائے ورنہ عظیم خرابیاں اور فتنے جنم لے سکتے ہیں۔
۴۔ مسلمانوں کے تنازعات کو بھڑکانے کی بجائے انہیں ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ قتل و قتال کے بجائے مصالحت اور مذاکرات کو ترجیح دی جائے۔
۵۔ بلیک میلنگ، نام بگاڑنا، غیبت، تجسس، بدگمانی، خوامخواہ کے مفروضے قائم کرنا، قومیت اور عصبیت کے نعرے بلند کرنا ان سب عناصر سے بچنے کی کوشش کی جائے۔
خدا کرے یہ باتیں صحافیوں اور میڈیا والوں کے لیے مفید ثابت ہوں۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اترجائے ترے دل میں میری بات