فضائل نماز
دوسری قسط
نماز چوری سے روک دے گی
حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے (یعنی شب بیدار اور عبادت گذار ہے) پھر جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ آپﷺنے فرمایا: ’’بیشک عنقریب نماز اس کو اس کام سے روک دے گی جو آپ بتا رہے ہیں۔‘‘ (یعنی چوری کرنا چھوڑ دے گا اور گناہ سے باز آجائے گا) ۔
نماز کا دعا یا بددعا کرنا
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’جس وقت آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے (یعنی سنت کے مطابق اچھی طرح وضو کرتا ہے) پھر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور اچھے طریقے سے نماز کا رکوع کرتا ہے اور خوب اچھی طرح نمازکا سجدہ کرتا ہے اور صحیح طریقے سے نماز میں قرآن پڑھتا ہے (یعنی رکوع، سجدہ،قراء ت اچھی طرح اداکرتاہے) تو نمازکہتی ہے: ’’اللہ تعالیٰ تیری ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تونے میری حفاظت کی۔‘‘ (یعنی میرا حق ادا کیا، مجھے ضائع نہیں کیا) پھر وہ نماز آسمان کی طرف اس حال میں اٹھائی جاتی ہے کہ اس میں چمک اور روشنی ہوتی ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (تاکہ اندر پہنچ جائے اور مقبول ہوجائے) اور اگر آدمی اچھی طرح وضو نہیں کرتا اور رکوع، سجدہ، قراء ت اچھی طرح ادا نہیں کرتا تو وہ نماز کہتی ہے: ’’خدا تجھے ضائع کرے جیسے تو نے مجھے ضائع کیا۔‘‘ پھر وہ آسمان کی طرف اس حال میں اٹھائی جاتی ہے کہ اس پر اندھیرا ہوتا ہے اور آسمان کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں (تاکہ وہاں نہ پہنچے اور مقبول نہ ہو) پھر پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔‘‘ (یعنی قبول نہیں ہوتی اور اس کا ثواب نہیں ملتا)۔
بڑا چور
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’چوروں میں بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔‘‘ عرض کیا گیا:’’یا رسول اللہﷺ! کس طرح اپنی نماز چراتا ہے؟‘‘ فرمایا:’’پوری طرح اس کا رکوع اور سجدہ ادا نہیں کرتا ۔اوربخیلوں میں بڑا بخیل وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔‘‘( رواہ الطبرانی فی الثلثۃ ورجالہ ثقات کذا فی مجمع الزوائد )
غرضیکہ نماز جیسی آسان اور بہترین عبادت کا حق ادا نہ کرنا بڑی چوری ہے، جس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔ مسلمانوں کو غیرت کرنی چاہیے کہ نماز صحیح طریقہ سے ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان کو ایسا برا خطاب دیا گیا۔
رکوع و سجدہ صحیح نہ کرنے والے کی نماز قبول نہیں:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺایک مرتبہ اپنے حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لائے تو ایک شخص کو مسجد میں دیکھا جو نماز میں رکوع وسجدہ اچھی طرح ادا نہیں کررہا تھا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اس شخص کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو رکوع و سجدہ اچھی طرح ادا نہیں کرتا۔‘‘( رواہ الطبرانی فی الأوسط والصغیر وفیہ إبراہیم بن عباد الکرمانی ولم أجد من ذکرہ کذا فی الزوائد )
اللہ تعالیٰ صرف کامل چیزوں کو قبول کرتا ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’اگر تم میں سے کسی کی ملکیت میں یہ ستون ہوتا تو وہ اس بات کو برا سمجھتا کہ اس ستون کو خراب کردیا جائے۔ تو تم میں سے کوئی ایسا کام کیوں کرتا ہے جس سے اس کی نماز خراب ہوجاتی ہے۔ پس تم باقاعدہ پابندی کے ساتھ اچھی طرح سے نماز ادا کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ صرف کامل چیز کو قبول کرتا ہے۔‘‘(یعنی ناقص عبادتیں مقبول نہیں ہوتیں) ( رواہ الطبرانی فی الأوسط بأسناد حسن )
افضل ترین عمل:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ایک شخص حضور سرورِ عالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا: ’’ایمان کے بعد سب سے افضل عمل کون سا ہے؟‘‘ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’نماز‘‘ اس نے عرض کیا : ’’اس کے بعد کو نسا (عمل افضل ہے)؟‘‘ فرمایا: ’’نماز‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ پھر کون سا (عمل افضل ہے)؟‘‘ فرمایا: ’’نماز‘‘۔ (یہ ارشاد) تین بار فرمایا۔
اس قدر تاکید سے نماز کی فضیلت نماز کے عظیم الشان ہونے کی وجہ سے آپ نے بیان فرمائی تاکہ لوگ اس کا خوب اہتمام کریں اور اسے کسی حال میں نہ چھوڑیں)۔
گناہوں کو مٹادینے والی چیز:
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’بے شک ہر نماز (نمازی کے) ان گناہوں کو جو اس نماز سے پہلے کیے ہیں مٹادیتی ہے۔‘‘ ( رواہ أحمد بأسناد حسن )مطلب یہ ہے کہ ہر نماز پڑھنے سے وہ گناہ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں جو اس نماز سے دوسری نماز پڑھنے تک ہوئے ہوں۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے ہوئے سنا: ’’ ایک فرض نماز دوسری نماز کے ساتھ مل کر(ان گناہوں کو) مٹادیتی ہے جو اس (نماز) سے پہلے ہوئے۔ ( یعنی اس نماز سے پہلے جو گناہ صغیرہ ہوئے وہ معاف ہوگئے۔ اسی طرح دوسری نماز تک جتنے صغیرہ گناہ ہوئے وہ اس سے معاف ہوگئے) اور (نماز) جمعہ ان گناہوں کو مٹادیتی ہے جو اس (جمعہ) سے پہلے ہوئے، یہاں تک کہ دوسرا جمعہ پڑھے (اور بعض حدیثوں میں اس سے تین دن آگے تک گناہ معاف ہوجانا آیا ہے، یعنی جمعہ کی نماز سے تین دن آگے کے صغیرہ گناہ معاف کیے جاتے ہیں) اور ماہِ رمضان کا روزہ ان گناہوں کو مٹادیتا ہے جو اس رمضان سے پہلے ہوئے، یہاں تک کہ دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور حج ان (گناہوں) کو مٹادیتا ہے جو اس سے پہلے ہوئے، یہاں تک کہ دوسرا حج کرے، پھر رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’کسی مسلمان عورت کو حج کرنا جائز نہیں، مگر خاوند یا ذی رحم محرم کے ہمراہ۔‘‘ ( رواہ الطبرانی فی الکبیر وفیہ المفضل بن صدقۃ وھو متروک الحدیث )
اگر کوئی کہے کہ جس شخص سے صغیرہ گناہ نہ ہوں، اس کو کیا فضیلت حاصل ہوگی؟ پھر یہ کہ جب نمازوں سے ادھر ادھر کے سب گناہ معاف ہوگئے تو جمعہ وغیرہ سے کون سے گناہ معاف ہوں گے؟ اب تو کوئی صغیرہ گناہ رہا ہی نہیں جو معاف ہو، تو جواب یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں درجے بلند ہوں گے۔
پانچوں نمازوں کی مثال
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’پنچ وقتہ نمازوں کی مثال ایسی ہے جیسے میٹھے پانی کی نہر جو تم میں سے کسی کے دروازے پر جاری ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ بار نہائے، تو کیا اس پر کچھ میل باقی رہے گا؟‘‘( رواہ الطبرانی فی الکبیر وفیہ عفیر بن معدان وھو ضعیف جداً کذا فی مجمع الزوائد )