فضائل حج

فضائل حج

1- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

” جس نے حج کیا اور اس نے (اس میں) نہ تو شہوت کی باتیں کیں اور نہ گناہوں کا ارتکاب کیا تو وہ (گناہوں سے پاک ہو کر اس طرح اپنے گھر) لوٹے گا جیسا کہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔”(بخاری و مسلم )

2-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

“یکے بعد دیگرے حج و عمرہ کیا کرو کیوں کہ وہ دونوں یقینا تنگدستی اور گناہوں کو ختم کر دیتے ہیں جیسا کہ آگ کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے زنگ اور میل کچیل کو دُور کردیتی ہے اور مقبول حج کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں ہے۔( سنن الترمذي)

3- حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

” حاجی کا اونٹ (یعنی سواری کا جانور) جو بھی قدم اٹھاتا ہے اور جو بھی قدم رکھتا ہے (ہر ایک کے بدلے) اللہ تعالیٰ اس حاجی کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں یا اس کا ایک گناہ معاف فرمادیتے ہیں، یا اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں۔( رواه البيهقي في شعب الإيمان)

4- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:

” حاجی کی اور جس کے لیے حاجی استغفار کرے مغفرت کر دی جاتی ہے۔ یہ بزار کی روایت ہے، ابن خزیمہ اور حاکم کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺنے فرمایا کہ اے اللہ! حاجی کی اور جس کے لیے حاجی استغفار کرے مغفرت فرما دیجیے۔( لمستدرك للحاكم )

5- زاذان رحمہ اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما شدید بیمار ہو گئے، پس انہوں نے اپنی اولاد کو بلایا اور ان سب کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ :

” جو مکہ سے پیدل حج کرے یہاں تک کہ مکہ واپس لوٹ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم پر سات سو نیکیاں لکھتے ہیں ہر نیکی حرم کی نیکیوں کے برابر ہے۔ کہا گیا : حرم کی نیکیاں کیا ہیں؟ فرمایا: ہر ایک نیکی کے بدلہ ایک لاکھ نیکی ہے”۔( صحيح ابن خزيمة (٤/٣٤٤ رقم ٢٧٩١)

6- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” بوڑھے،بچے ، کمزور اور عورت کا جہاد حج و عمرہ ہے”۔( سنن النسائي ٦/١١٤)

7- حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جہاد کو سب سے افضل سمجھتے ہیں پس کیا ہم جہاد نہ کریں؟ ارشاد فرمایا: نہیں! تمہارے لیے افضل جہاد حج مبرور ہے۔(بخاری)

8- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک صاحب عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اچانک وہ اپنی سواری سے گر پڑے اور اسی وقت انتقال کر گئے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان کو پانی سے اور بیری کے پتوں سے غسل دے دو اور ان کو دو کپڑوں میں کفن دے دو اور ان کو خوش بو نہ لگانا اور ان کا سر بھی نہ ڈھکنا کیوں کہ قیامت کے دن ان کو اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ یہ تلبیہ پڑھ رہے ہوں گے۔ (بخاری)

9-حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: حج میں خرچ کرنے کا ثواب اللہ کے راستہ (یعنی جہاد) میں خرچ کرنے کے مانند ہے، ایک کا بدلہ سات سو کے برابر ہے۔(مسند أحمد ٥/٣٥٤)

10-حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حاجی کبھی امعار نہیں ہو سکتا، حضرت جابر سے کسی نے امعار کا معنی پوچھا تو فرمایا کہ ”تنگ دست“، یعنی حاجی تنگ دست نہیں ہو گا۔(مجمع الزوائد)

11- نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:

’’ حج کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو اللہ تعالی ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر مغفرت طلب کریں تو ان کو بخش دے۔‘‘( رواہ ابن ماجہ )

مذکورہ فضائل کی شرط:

یہ تمام فضائل اس وقت حاصل ہوں گے جب حلال مال سے حج و عمرہ ادا کیا جائے، حرام سے نہیں اور اخلاص کے ساتھ ہو، ریا کاری اور نام ونمود کے لیے نہ ہو ،نیز یہ بھی ضروری ہے کہ حج وعمرہ آداب کی مکمل رعایت کے ساتھ اورصحیح طریقے سے ادا کیا جائے، تبھی وہ حج یا عمرہ “مبرور” یعنی عنداللہ مقبول بنتا ہے جس کی علامت یہ ہےکہ دینی حالت میں پہلے کی بنسبت بہتری آجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں