سوال : کیا فاسق شخص اذان کہہ دے تو اعادہ ضروری ہوگا؟
جواب : واضح رہے کہ اذان شعائر اسلام میں سے ایک اہم شعار ہے۔اور اذان کے ذریعے آدمی دوسروں کو نماز کی دعوت دیتا ہے، اس لیے اذان کے لیے ایسا شخص مقرر ہونا چاہیے کہ جس کی ظاہری وضع قطع شریعت کے مطابق ہو،البتہ اگر کوئی فاسق شخص اذان دے دے تو اس کا اذان دینا مکروہ ہوگا، تاہم اعادہ مستحب ہے، ضروری نہیں-
=====================================
حوالہ جات :
1 : وینبغی ان یکون المؤذن رجلا عاقلا صالحا تقیا عالما بالسنۃ کذا ھی النھایۃ ۰
( فتاویٰ ہندیہ : 1/53 )
وفیہ ایضا
2: ویکرہ اذان الفاسق ولا یعاد ھکذا فی الذخیرۃ ۰
( فتاویٰ ہندیہ : 1/54 )
3 : وینبغی ان لا یصح اذان الفاسق بالنسبۃ الی قبول خبرہ، والاعتماد علیہ، ای لانہ لا یقبل قولہ فی الامور الدینیۃ، فلم یوجد الاعلام کما ذکرہ الزیلعی وحاصلہ انہ یصح اذان الفاسق وان لم یحصل بہ الاعلام ای : الاعتماد علی قولہ فی دخول الوقت ۰
( رد المحتار : 1/62 ، مکتبۃ زکریا دیوبند )
4 : اگر کوئی شخص داڑھی منڈاتا ہو یا کتروا کر ایک مشت سے کم کرتا ہو، وہ فاسق اور گنہ گار ہے اور فاسق کا اذان واقامت کہنا مکروہ تحریمی ہے- اور لوگوں کا ایسے شخص کو اذان سے منع کرنا شرعا بالکل درست ہے، البتہ منع کرنے میں اور حکمت کا برتاؤ اختیار کرنا چاہیے۔ مثلا اذان کی فضیلت واہمیت اور عبادت کے آداب وشرائط اور داڑھی رکھنے کا وجوب واہمیت وغیرہ بتا کر اسے قائل کیا جاسکے تاکہ وہ داڑھی منڈانے کے گناہ سے توبہ تائب ہوجایے-
نیز داڑھی والوں کی موجودگی میں فاسق شخص کو اذان واقامت نہیں کہنا چاہیے ، البتہ اگر داڑھی منڈے نے اذان یا اقامت دے دی تو اس کو دوبارہ لوٹانا واجب نہیں-
فتویٰ نمبر:144206201305
دار الافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
والله اعلم بالصواب
قمری 17 /5 /1443
شمسی 23 /12 /21