از افادات : متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
اہل السنت والجماعت کا مذہب:
اہل السنۃ والجماعۃ احناف کا مؤقف یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اطمینان ہے کہ وہ سنتیں ادا کرنے کے بعد جماعت کی دوسری رکعت (بلکہ تشہد میں) مل جائے گا تو اسے چاہیے کہ کسی الگ جگہ مثلا مسجد سے باہر ، مسجد کے صحن میں، کسی ستون وغیرہ کی اوٹ میں،جماعت کی جگہ سے ہٹ کر پہلے سنتیں ادا کرے پھر جماعت میں شریک ہوجائے۔ ہاں اگر یہ خیال ہو کہ سنتیں پڑھنے کی صورت میں جماعت فوت ہوجائے گی تو سنتیں نہ پڑھے بلکہ جماعت میں شریک ہوجائے۔
[ رد المحتار مع الدر المختار : ج 2 ص56،57 وغیرہ]
غیر مقلدین کا مذہب:
نماز فجر کی اقامت ہوچکنے کے بعد اور اس کے لیے تکبیر تحریمہ کہی جانے سے پہلے جب کہ جماعت بالکل نماز فجر پڑھنے کے لیے تیار کھڑی ہو اس وقت بھی سنتِ فجر پڑھنے والے پر رسول اللہﷺنے شدید نکیر اور زجر و توبیخ کی اور اسے دو رکعت والی نماز کو چار رکعت بنادینے کا مجرم قرار دیا۔
(رسول اکرمﷺ کا صحیح طریقہ نماز : ص216،نزل الابرار 1/133،132، فتاوی ستاریہ3/40)
دلائل:
اس مسئلے میں دو جہتیں ہیں:
جہت نمبر 1: احادیث مبارکہ میں تمام سنتوں میں سب سے زیادہ تاکید فجر کی سنتوں کی وارد ہوئی ہے۔مثلا
1: عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت: لم یکن النبی ﷺ علی شیء من النوافل اشد تعاھدا منہ علی رکعتی الفجر۔
صحیح بخاری ج1 ص156 باب تعاھد رکعتی الفجر ۔صحیح مسلم ج1 ص251 باب استحباب رکعتی الفجر والحث علیھا
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی نفل ( جو فرضوں سے زائد ہوتی ہے،مراد سنن ہیں) کی اتنی زیادہ پابندی نہیں فرماتے تھےجتنی فجر کی دو رکعتوں کی کرتے تھے۔
2:عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ : لا تدعوھما وان طردتکم الخیل۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص186 باب فی تخفیفھما،شرح معانی الآثار ج1 ص209 باب القراۃ فی رکعتی الفجر)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فجر کی دو سنتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں۔
یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔(اعلاء السنن ج7ص 105)
جہت نمبر 2: آپﷺ نے باجماعت نماز کی بھی بہت تاکید فرمائی ہے۔ نیز حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب جماعت ہورہی ہو تو اس میں شرکت کی جائے۔
اب ایک شخص ایسے وقت میں آیا کہ فجر کی جماعت کھڑی ہے اور اس نے سنتیں بھی ادا نہیں کیں، تو احناف کا مذکورہ موقف ایسا مستقیم ہے کہ اس سے دونوں فضیلتیں جمع ہوجاتی ہیں یعنی فجر کی سنتوں کا جو تاکیدی حکم ہے اس پر بھی عمل ہوجاتا ہے اور جماعت میں شمولیت کے حکم کی بھی تعمیل ہوجاتی ہے۔یہ موقف حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمہم اللہ کے عمل سے ثابت ہے۔
دلائل پیش خدمت ہیں۔
دلیل نمبر 1: عن عبد اللہ ابن ابی موسی قال : جاء ابن مسعود والامام یصلی الصبح فصلی رکعتین الی ساریۃ ولم یکن صلی رکعتی الفجر۔
(المعجم الکبیر رقم الحدیث 9385)
ترجمہ: عبد اللہ بن ابی موسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ امام نماز پڑھارہا تھا ۔تو آپ نے ستون کی اوٹ میں دو رکعتیں پڑھیں،آپ نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ورجالہ موثقون ( اس کے راوی ثقہ و لائق اعتماد ہیں)
(مجمع الزوائد: رقم الحدیث 2392)
دلیل نمبر 2: مالک ابن مغول قال سمعت نافعا یقول : ایقظت ابن عمر رضی اللہ عنہما لصلوٰۃ الفجر وقد اقیمت الصلاۃ فقام فصلی رکعتین۔
(سنن الطحاوی : رقم الحدیث 2042)
ترجمہ: مالک بن مغول سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نافع سے سنا ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو نماز فجر کے لیے اس وقت بیدار کیا جبکہ نماز کھڑی ہوچکی تھی ،آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پہلے دو رکعت سنت ادا فرمائی۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص202)
تنبیہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما باوجود اقامت نماز ہوجانے کے سنتیں ادا فرمارہے ہیں۔
دلیل نمبر 3: عن ابی عثمان الانصاری قال: جاء عبد اللہ ابن عباس والامام فی صلوٰۃ الغداۃ ولم یکن صلی الرکعتین فصلی عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما الرکعتین خلف الامام ثم دخل معھم۔(سنن الطحاوی: رقم الحدیث 2040)
ترجمہ:ابو عثمان انصاری فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نما پڑھا رہا تھا ۔آپ نے فجر کی دو سنتیں نہیں پڑھیں تھیں۔ پس آپ نے اما م کے پیچھے (جماعت سے ہٹ کر) یہ دو رکعتیں ادا کیں، پھر ان کے ساتھ جماعت میں شریک ہوگئے۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص204،اعلاء السنن ج7 ص100)
دلیل نمبر 4: عن محمد ابن کعب قال:خرج عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما من بیتہ فاقیمت صلوٰۃ الصبح فرکع رکعتین قبل ان یدخل المسجد وھو فی طریق ثم دخل المسجد فصلی الصبح مع الناس۔(سنن الطحاوی: رقم 2041)
ترجمہ: محمد ابن کعب فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اپنے گھر سے نکلے،صبح کی نماز ادا ہورہی تھی۔ آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی راستے میں دو رکعت سنت ادا کی ۔ پھر مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔
امام محدث ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اسنادہ حسن (اعلاء السنن ج7ص102)
دلیل نمبر 5: عن زید ابن اسلم عن ابن عمر رضی اللہ عنھما : انہ جاء والامام یصلی الصبح ولم یکن صلی رکعتین قبل صلاۃ الصبح فصلاھما فی حجرۃ حفصۃ رضی اللہ عنھا ثم انہ صلی مع الامام (سنن الطحاوی: رقم الحدیث 2043)
ترجمہ: حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نما ز پڑھا رہا تھا ،آپ نے صبح کی دو سنتیں ادا نہیں کی تھیں ، تو آپ نے یہ دو رکعتیں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر ادا کیں پھر امام کے ساتھ جماعت میں آملے۔
تنبیہ: حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا گھر ان دنوں مسجد میں داخل تھا۔(اعلاء السنن ج7 ص 103،102)
اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔(اعلاء السنن ج7 ص 102)
دلیل نمبر 6: عن ابی الدرداء: انہ کان یدخل المسجد والناس صفوف فی صلوٰۃ الفجر فیصلی الرکعتین فی ناحیۃ المسجد ثم یدخل مع القوم فی الصلوٰۃ (سنن الطحاوی: رقم الحدیث 2044)
ترجمہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب وہ مسجد میں آتے اور لوگ نماز فجر کی جماعت کی صف میں ہوتے تو یہ مسجد کے کسی گوشے میں سنتِ فجر پڑھ کر لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجایا کرتے تھے۔
اسنادہ حسن (آثار السنن ص 203، اعلاء السنن ج7ص103)
مصنف عبد الرزاق میں یہ الفاظ ہیں : عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ انہ کان یقول : نعم، واللہ لئن دخلت والناس فی الصلوٰۃ لاعمدن الی ساریۃ من سواری المسجد ثم لارکعنھما ثم لاکملنھما ثم لا اعجل عن اکمالھما ثم امشی الی الناس فاصلی مع الناس الصبح (مصنف عبد الرزاق ج2 ص294،رقم 4033)
ترجمہ: حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں اللہ کی قسم ! اگر میں ایسے وقت میں( مسجد میں) داخل ہوں جبکہ لوگ جماعت میں ہوں تو میں مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے پیچھے جاکر فجر کی سنتوں کی دو رکعتیں ادا کروں گا، ان کو کامل طریقہ سے ادا کروں گا اور ان کو کامل کرنے میں جلدی نہ کروں گا ۔پھر جا کر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوجاؤں گا۔
دلیل نمبر 7:عن حارثۃ ابن مضرب؛ ان ابن مسعود وابا موسی خرجا من عند سعید ابن العاص ، فاقیمت الصلوٰۃ، فرکع ابن مسعود رکعتین،ثم دخل مع القوم فی الصلوٰۃ، واما ابو موسی فدخل فی الصف۔( مصنف ابن ابی شیبۃ: رقم 6476)
ترجمہ: حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنھما ، حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دو رکعتیں ادا کیں اور نماز میں لوگوں کے ساتھ آملے جبکہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ دو رکعتیں پڑھے بغیر آملے۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص203،اعلاء السنن ج7ص 104)
وفیہ ایضا فی طریق اخری : فجلس عبد اللہ الی اسطوانۃ من المسجد فصلی الرکعتین ثم دخل فی الصلاۃ۔(سنن الطحاوی:رقم الحدیث 2037،مصنف عبد الرزاق: رقم الحدیث 4034)
ایک طریق میں ہے : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کے ایک ستون کی اوٹ میں بیٹھ گئے، دو رکعتیں ادا کیں، پھر نماز میں شامل ہوگئے۔
دلیل نمبر 8: عن ابی عثمان النھدی قال: کنا ناتی عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ قبل ان نصلی رکعتین قبل الصبح وھو فی الصلاۃ فنصلی رکعتین فی آخر المسجد ثم ندخل مع القوم فی صلاتھم (سنن الطحاوی : رقم الحدیث 2046)
ترجمہ: ابو عثمان النھدی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے جبکہ آپ نماز پڑھا رہے ہوتے تھے اور ہم نے نماز فجر سے پہلے سنتیں ادا نہ کی ہوتی تھیں ، تو ہم پہلے مسجد کے کسی کونے میں سنتیں ادا کرتے تھے پھر لوگوں کے ساتھ نماز (کی جماعت) میں شریک ہوجاتے تھے۔
اسنادہ حسن (آثار السنن ص204،اعلاء السنن ج7 ص104)
تنبیہ: اس روایت میں “کنا ناتی” جمع کا صیغہ دلالت کرتا ہے کہ عہد فاروقی میں یہ صورت کثرت سے پیش آتی تھی اور بہت سے حضرات کا عمل اس کے مطابق تھا۔
(نماز مدلل از مولانا فیض احمد ملتانی ص208)
دلیل نمبر 9: عن الشعبی یقول : کان مسرو ق یجیء الی القوم وھم فی الصلاۃ ولم یکن رکع رکعتی الفجر فیصلی رکعتین فی المسجد ثم یدخل مع القوم فی صلاتھم (سنن الطحاوی: رقم الحدیث 2048)
ترجمہ: امام شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ امام مسروق ( مسجد میں) تشریف لاتے جبکہ لوگ نماز ادا کررہے ہوتے اور آپ نے صبح کی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں تو آپ پہلے دو رکعتیں مسجد میں ادا کرتے ، پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاتے۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص203،اعلاء السنن ج7ص105)
دلیل نمبر 10: عن یزید ابن ابراھیم عن الحسن : انہ کان یقول اذا دخلت المسجد ولم تصل رکعتی الفجر فصلھما وان کان الامام یصلی ثم ادخل مع الامام ( سنن الطحاوی: رقم الحدیث 2050)
ترجمہ: یزید ابن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم مسجد میں ایسے وقت میں داخل ہو کہ امام نماز میں ہو اور تم نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو پہلے سنتیں پڑھو،پھر امام کے ساتھ شریک ہوجاؤ۔
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص 204)
وفی لفظ لہ : عن یونس قال: کان الحسن یقول یصلیھما فی ناحیۃ المسجد ثم یدخل مع القوم فی صلاتھم (سنن الطحاوی: رقم الحدیث 2051)
اسنادہ صحیح (آثار السنن ص205،اعلاء السنن ج7 ص105)
ترجمہ: ایک روایت میں یوں ہے : حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہ شخص ( جس نے ابھی سنت فجر ادا نہیں کی ) ان دو رکعتوں کو مسجد کے کسی کونہ میں پڑھے ۔پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے۔
دلیل نمبر 11: عن الحارث عن علی قال: کان النبی ﷺ یصلی الرکعتین عند الاقامۃ (سنن ابن ماجۃ: رقم الحدیث 1147)
قال الامام المحدث العثمانی: وفیہ الحارث ضعفہ بعضھم ووثقہ آخرون وھو حسن الحدیث ( اعلاء السنن ج7 ص 105)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز کی اقامت کے وقت دو رکعتیں ادا فرماتے تھے۔
تنبیہ: اس میں جواز موجود ہے کہ اقامت کے وقت امام دو رکعتیں ادا کرسکتا ہے ، تو مندرجہ بالا آثارِ صحابہ و تابعین اور حدیث ” لا تدعوھما وان طردتکم الخیل” کی وجہ سے مقتدی کے لیے بھی ان دو رکعتوں کا جواز ثابت ہوتا ہے جبکہ صفوفِ جماعت میں مخالط نہ ہو۔(اعلاء السنن ج7 ص 105)
دلیل نمبر 12: عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال اذا اقیمت الصلاۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ الا رکعتی الصبح۔
(سنن الکبریٰ للبیہقی 2/483، باب کراھیۃ الاشتغال بھما بعد ما اقیمت الصلوٰۃ، اعلاء السنن 7/110 وقال الشیخ العثمانی وھذا الاسناد ایضا حسن)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز (کی جماعت) کھڑی ہوجائے تو اس وقت کوئی نماز نہ پڑھی جائے، ہاں صبح کی سنتیں پڑھ سکتے ہیں۔
خلاصہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنھم ، ابو عثمان النھدی،امام مسروق، امام حسن بصری رحمھم اللہ کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں آنے والے شخص نے اگر سنتیں ادا نہیں کیں تو مسجد سے باہر ، مسجد کے صحن میں ، کسی ستون وغیرہ کی اوٹ میں ، جماعت کی جگہ سے ہٹ کر پہلے سنتیں ادا کرے پھر جماعت میں شریک ہوجائے اور یہی احناف کا مؤقف ہے۔
غیر مقلدین کے شبہ کا جائزہ:
غیر مقلدین نے شبہ یہ ظاہر کیا کہ حدیث “اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ” کے آخر میں :الا رکعتی الفجر” کا جھوٹا اضافہ کرکے آپ لوگ فجر کی سنتوں کو مستثنیٰ قرار دیتے ہو۔
جواب نمبر 1: اہل سنت والجماعت احناف کثر اللہ سوادھم کا مؤقف اس روایت پر موقوف نہیں بلکہ ان کا مستدل حضرت ابنِ مسعود،حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنھم ،امام مسروق، امام حسن بصری، امام ابو عثمان نہدی وغیرہ کے آثار ہیں، جو سندا صحیح /حسن ہیں۔ ( ما قبل میں گزر چکے ہیں)
رہا حدیث ” اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ” کے آخر میں ” الا رکعتی الفجر” کو جھوٹا اضافہ کہنا سو یہ بات بلا دلیل ہونے کی وجہ سے باطل ہے ۔ ممکن ہے کہ غیر مقلدین یہ کہ دیں کہ اس حدیث کہ دو رواۃ حجاج بن نصیر اور عباد بن کثیر کے بارے میں امام بیہقی نے کلام کیا ہے۔
جواب یہ ہے کہ
پہلا راوی: حجاج بن نصیر
1: آپ سنن ترمذی کے راوی ہیں،
2:امام ابن معین ان کے بارے میں فرماتے ہیں: کان شیخا صدوق لکنھم اخذوا علیہ اشیاء فی احادیثہ شعبۃ۔(آپ سچے شیخ تھے، البتہ ائمہ نے آپ کی ان احادیث پر گرفت کی ہے جو آپ نے امام شعبہ سے روایت کی ہیں)
3: ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے۔
4: امام ابن عدی اپنی کتاب “الکامل” میں ان کی وہ روایات جو شعبہ سے ہیں لائے ہیں جن پر محدثین نے گرفت کی ہے۔ یہ تین احادیث ہیں اور ان کی سند پر گرفت کی ہے نہ کہ متن میں۔خود ابن عدی فرماتے ہیں : حجاج کی ان تین روایات کے علاوہ باقی احادیث صالح ہیں۔
امام عجلی فرماتے ہیں: کان معروفا بالحدیث (آپ علمِ حدیث کے حوالے سے معروف شخصیت ہیں)
تہذیب التہذیب لابن حجر ج1 ص672، 671 ملخصا، الکامل لابن عدی:ج2 ص534 رقم ا لترجمہ 409)
امام ابن عدی نے ” الا رکعتی الفجر” کی حدیث ان تین احادیث میں ذکر نہیں کی ۔نیز حجاج بن نصیر یہ روایت شعبہ سے روایت نہیں کررہے ہیں ۔ پس بقول ابن عدی یہ صالح الحدیث ہیں ( اعلاء السنن ج7 ص110)
دوسرا راوی: عباد بن کثیر
یہ راوی مختلف فیہ ہے۔
1: امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے۔ ایک مرتبہ فرمایا : لیس بہ باس ( اس راوی میں کوئی حرج نہیں)
2: ابو بکر بن ابی شیبہ: یہ ثقہ تھے۔ ( تہذیب التہذیب لابن حجر ج3 ص 372)
3: علی بن المدینی: عباد بن کثیر الرملی ثقہ تھے۔ ( المیزان للذہبی ج2 ص 336)
امام ابن عدی فرماتے ہیں ھذہ الاحادیث التی ذکرتھا ۔۔۔ ھذا غیر محفوظات وھو خیر من عباد البصری۔
(الکامل 5/544 رقم الترجمہ 1166)
ہماری دلیل میں عباد بن کثیر الرملی ہے ان کی بعض ائمہ نے توثیق بیان کی ہے اور عباد البصری پر اکثر نے جرح کی ہے ان کی جروحات کو غیر مقلدین نےاٹھا کر عباد الرملی پر فٹ کردی ہیں جو کہ سراسر غلط ہے، جھوٹ ہے، لہذا یہ روایت کم از کم حسن درجہ کی ہے۔ کما قال الشیخ العثمانی ( اعلاء السنن ج7 ص110)
خلاصہ یہ ہے کہ احناف کا مؤقف جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے عمل مبارکہ سے ثابت ہے جو یقینا آنحضرت ﷺ کی مراد کو زیادہ جانتے تھے۔ لہذا غیر مقلدین کا اپنے آپ کو حدیث پر عمل پیرا اور دوسروں کو مخالف حدیث کہنا جہالت کی دلیل ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں وساوس سے بچا کر صراطِ مستقیم پر قائم رکھے۔ آمین
دلائل غیر مقلدین:
دلیل نمبر 1:
اذا اقیمت الصلوۃ الا المکتوبۃ
( مسلم ، ابو داؤد، ترمذی وغیرہ)
جواب:
1: فجر کی سنتیں اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے اگر ہر نماز کے بارے میں یہ روایت ہوتی تو صحابہ اور تابعین فجر کی سنتیں جماعت کھڑی ہونے کے بعد ادا فرماتے۔
2۔ یہ ممانعت اگر فجر کے متعلق مان بھی لی جائے تو یہ اس صورت میں ہے جب صف کے اندر کھڑے ہوکر ادا کی جائیں اگر صف سے الگ یا باہر ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں پڑھ لینے میں جس پر مذکورہ آثارِ صحابہ دلائل موجود ہیں۔
دلیل 2:
وہ روایات جن میں ہے کہ صحابہ نے فجر کی سنتیں ادا کرنا چاہیں تو آپ علیہ السلام نے منع کرتے ہوئےفرمایا لا تصلی الصبح اربعا۔
(ابن خزیمۃ)
جواب:
یہ بھی اس وقت ممنوع ہے جب صف کے اندر ہو اور اس پر قرینہ حدیث انس ہے جس کے آخر میں ہے:
فنھی ان نصلی فی المسجد اذا اقیمت الصلوۃ
غیر مقلد البانی نے کہا ہے : اسنادہ صحیح۔
(صحیح ابن خزیمہ 1/558 رقم الحدیث 1126)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الحدیث اذا لم تجمع طرقہ لم تفھفہ لان الحدیث یفسر بعضہ بعضا
( الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع للخطیب البغدادی: ج2 ص212 کتب الطرق المختلفۃ)
اگر آپ علیہ السلام نے منع فرما دیا تھا تو صحابہ کرام کیوں پڑھتے تھے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام کا منع کرنا ایک خاص وجہ سے تھا وہ یہ کہ صف میں نہ پڑھیں۔
دلیل 3:
عن ابی ھریرۃ مرفوعا اذا اقیمت الصلوۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ قیل یا رسول اللہ ولا رکعتی الفجر قال لا رکعتی الفجر۔
( السنن الکبری للبیہقی : 2/ 483)
جواب 1:
امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ عمر بن دینار سے اس روایت کو ایک جماعت نے کیا لیکن مسلم بن خالد کے علاوہ کسی ایک نے بھی ولا رکعتی الفجر کی زیادتی نقل نہیں کی۔( الکامل للعدی 9/ 112 رقم الترجمہ 2146 ،ترجمہ یحیی بن نصر)
اسی طرح امام بیہقی نے بھی اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔( السنن الکبری للبیہقی: 2/483)
جواب 2:
صحابی رسول کا ” ولا رکعتی الفجر” کہنا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے یعنی اگر فجر کی سنتیں اس کی نفی فلا صلوٰۃ سے ہوگئی تھی تو صحابہ کرام نے ولا رکعتی الفجر کے بارے میں کیوں پوچھا؟یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فجر کی سنتیں اس میں داخل نہیں ہیں۔
جواب 3:
یہ دو روایات ہیں، ولا رکعتی الفجر، الا رکعتی الفجر۔ تعدد واقعہ پر محمول ہیں ۔ہوسکتا ہے آپ علیہ السلام نے ایک آدمی کو دیکھا ہو جو فرض نماز کھڑی ہونے کے بعد صفوں کے متصل فجر کی سنتیں پڑھ رہا ہو تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ہو ولا رکعتی الفجر یعنی صفوں میں کھڑے ہوکر فجر کی سنتیں بھی نہیں پڑھ سکتے ۔ دوسری مرتبہ کسی کو دیکھا ہو جو کونے میں پڑھ رہا ہو تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ہو الا رکعتی الفجر۔
(اعلاء السنن 7/111)
دلیل4: حضرت عمر اس آدمی کو مارتے تھے جو فرض نماز کھڑی ہوجانے کے بعد پڑھتا اس طرح ابن عمر بھی مارا کرتے تھے
(اعلاء السنن 2/483)
جواب 1: حضرت عمر کے اثر کی سند مذکور نہیں اور بقول علی زئی صاحب کے کہ بے سند بات حجت نہیں ہوسکتی۔
(الحدیث شمارہ 59/ص:33)
جواب 2:
ان آثار میں صحابہ کا عمل مذکور ہے وھو لیس حجۃ عندہ
(عرف الجاوی 101، فتاوی نذیریہ 1/240)
جواب 3:
حضرت عمر کی موجودگی میں دوسرے لوگ صبح کی سنتیں پڑھ لیتے تھے کما مر اور ابن عمر خود سنتیں پڑھ لیتے تھے کما مر۔
جواب 4:
دیگر آثار کی وجہ سے اور خود ان حضرات کے عمل کی وجہ سے یہ اس بندے کے عمل کے متعلق ہیں جو صف میں کھڑے ہوکر سنتیں پڑھتے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سنتِ فجر کی قضا کا وقت
از افادات متکلم اسلام مولونا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
مذہب اہلِ سنت والجماعت:
اگر کسی کی فجر کی سنتیں رہ جائیں فرض کے بعد طلوع شمس سے پہلے نہ پڑھے ، سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھے۔
چنانچہ صاحبِ ہدایہ علامہ علی بن ابی بکر المرغینانی فرماتے ہیں: واذا فاتتہ رکعتا الفجر لا یقضیھما قبل طلوع الشمس
(الہدایۃ: ج1ص 159 باب ادراک الفریضۃ)
مذہب غیر مقلدین:
فرض فجر کے بعد نصوص صریحہ اور اصول شرعیہ سے سنتِ فجر کی قضا کا شرعی ثبوت موجود ہے۔ خواہ طلوع آفتاب سے پہلے قضا کرے خواہ بعد۔ البتہ طلوع آفتاب سے پہلے موقع ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے سنتِ فجر کی قضا زیادہ بہتر اور اہم ہے۔۔۔۔۔ بلکہ یہی وقت اس کا اصل وقت ہے۔
( رسول اکرم ﷺ کا صحیح طریقہ نماز ص192)
دلائل اہل سنت والجماعت:
دلیل نمبر 1:
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ نھی عن بیعتین وعن لبستین وعن صلاتین نھی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس۔( صحیح البخاری : ج1 ص 82 باب الصلاۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے دو قسم کی خرید و فروخت سے اور دوقسم کے کپڑوں سے اور دو نمازوں سے منع فرمایا ہے آپ علیہ السلام نے فجر کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
دلیل نمبر 2:
عن ابن عباس قال سمعت غیر واحد من اصحاب رسول اللہ ﷺ منھم عمر ابن الخطاب وکان احبھم الی ان رسول اللہﷺ نھی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس
(صحیح مسلم : ج1 ص275 باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کئی صحابہ سے سنا ان میں سے ایک حضرت عمر ابن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے صحابہ میں سب سے زیادہ محبوب تھے رسول اکرم ﷺ نے فجر کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
دلیل نمبر 3:
عن ابی سعید الخدری یقول سمعت رسول اللہ ﷺ یقول لا صلوٰۃ بعد الصبح حتیٰ ترتفع الشمس ولا صلوٰۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس
(صحیح البخاری : ج1 ص82،83 باب لا تتحری الصلوۃ قبل غروب الشمس)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ صبح کی نماز کے بعد سورج کے بلند ہونے تک اور عصر کی نما زکے بعد سورج کے غروب ہونے تک کوئی نماز جائز نہیں۔
دلیل نمبر 4:
عن ابی امامۃ قال قال عمرو ابن عبسۃ السلمی ۔۔۔ فقلت یا نبی اللہ اخبرنی ما علمک اللہ واجھلہ ۔اخبرنی عن الصلوٰۃ قال صل صلوٰۃ الصبح ثم اقصر عن الصلوٰۃ حتی تطلع الشمس حتی ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطان
(صحیح مسلم : ج1 ص276 باب الاوقات التی نھٰی عن الصلوٰۃ فیھا)
ترجمہ: حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی مجھے ان چیزوں کے بارے میں بتلائیے جن کی اللہ نے آپ کو تعلیم دی ہے اور میں ان سے بے خبر ہوں آپ مجھے نماز کے متعلق بھی بتلائیے آپ علیہ السلام نے فرمایا صبح کی نماز پڑھ پھر سورج کے طلوع ہونے کے بعد سے سورج کے بلند ہونے تک رکا رہ، کیونکہ سورج اس وقت شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔
فائدہ:
حدیث ” لا صلوٰۃ بعد الصبح حتی تطلع الشمس والا صلوۃ بعد العصر حتی تغرب الشمس” متواتر ہے۔
( نظم المتناثر من الحدیث المتواتر : ص111، ص112 رقم الحدیث 83)
دلیل نمبر 5:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال کان النبی علیہ السلام اذا فاتتۃ رکعتا الفجر صلاھما اذا طلعت الشمس
( شرح مشکل الآثار للطحاوی : ج10 ص328 رقم الحدیث 4142)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی علیہ السلام سے جب فجر کی دو رکعتیں فوت ہوجاتیں تو آپ علیہ السلام انہیں سورج کے طلوع ہونے کے بعد پڑھتے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ (م321ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
فھذا الحدیث احسن اسنادا واولی بالاستعمال مما قد رویناہ قبلہ فی ھذا الباب
ایضا
دلیل نمبر 6:
عن ابی ھریرۃ قال : قال رسول اللہ ﷺمن لم یصل رکعتی الفجر فلیصلھما بعد ما تطلع الشمس
(جامع الترمذی : ج1 ص96 باب فی اعادتھما ای رکعتی الفجر)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا جس آدمی نے فجر کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں اس کو چاہیے کہ سورج کے طلوع ہونے کے بعد ان کو پڑھے۔
دلیل نمبر 7:
عن ابی ھریرۃ عن النبی ﷺقال : (من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلیھما اذا طلعت الشمس)
(صحیح ابن حبان :ص723 رقم الحدیث 2472)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے فجر کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں اس کو چاہیے کہ سورج کے طلوع ہونے کے بعد ان کو پڑھے۔
قال شعیب الارنووط : اسنادہ صحیح علی شرط البخاری
(صحیح ابن حبان:ص723 رقم الحدیث 2472)
دلیل نمبر 8:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: من نسی رکعتی الفجر فلیصلھما اذا طلعت الشمس
(المستدرک للحاکم : ج1ص112 رقم الحدیث 1194 باب فضیلۃ رکعتی سنۃ الفجر)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص فجر کی دو رکعتیں بھول جائے اس کو چاہیے کہ سورج کے طلوع ہونے کے بعد ان کو پڑھ لے۔
قال الحاکم: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ
قال الذھبی فی التلخیص : علی شرطھما
دلیل نمبر 9:
عن الحسن وعن زرارۃ ابن اوفی ان المغیرۃ ابن شعبۃ قال تخلف رسول اللہﷺ ۔فذکر ھذہ القصۃ۔قال فاتینا الناس وعبد الرحمن ابن عوف یصلی بہم الصبح فلما رای النبی ﷺ اراد ان یتاخر فاوما الیہ ان یمضی۔قال: فصلیت انا والنبیﷺ خلفہ رکعۃ فلما سلم قام النبی ﷺ فصلی الرکعۃ التی سبق بھا ولم یزد علیھا شیئا۔ ( سنن ابی داؤد:ج1ص23 باب المسح علی الخفین)
ترجمہ: حضرت حسن اور زرارہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (نماز سے) پیچھے رہ گئے پھر اس قصہ کو بیان فرمایا کہ ہم چند لوگ آئے دیکھا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ لوگوں کو صبح کی نماز پڑھارہے تھے جب انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا آپ علیہ السلام نے اشارے سے انہیں نماز جاری رکھنے کا حکم فرمایا حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے اور نبی اکرمﷺ نے ان کے پیچھے ایک رکعت پڑھی جب انہوں نے سلام پھیرا تو نبی کریمﷺ کھڑے ہوئے چنانچہ آپ نے وہ رکعت ادا کی جو فوت ہوچکی تھی اور اس پر کسی چیز کا اضافہ نہیں فرمایا۔
نوٹ:
معارف السنن میں ہے کہ اس حدیث سے استدلال حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی جودتِ فکر کا نتیجہ ہے۔
(معارف السنن ج4ص97)
دلیل نمبر 10:
عن ابی مجلز قال: دخلت المسجد فی صلوٰۃ الغداۃ مع ابن عمر وابن عباس رضی اللہ عنھم والامام یصلی فاما ابن عمر رضی اللہ عنھما فدخل فی الصف واما ابن عباس رضی اللہ عنھما فصلی رکعتین ثم دخل مع الامام فلما سلم الامام قعد ابن عمر مکانہ حتی طلعت الشمس فقام فرکع رکعتین فھذا ابن عباس صلی رکعتین فی المسجد والامام فی صلوٰۃ الصبح
(شرح معانی الآثار :ج1ص255،256 باب الرجل یدخل المسجد والامام فی صلوٰۃ الفجر)
ترجمہ: حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صف میں داخل ہوگئے اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے دو رکعت اد ا کی پھر امام کے ساتھ شامل ہوگئے جب امام نے سلام پھیرا تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سورج کے طلوع ہونے تک اپنی جگہ پر بیٹھے رہے پھر دو رکعت ادا کی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس وقت مسجد میں ادا کرلی تھی جب امام صبح کی نماز پڑھا رہا تھا۔
دلیل نمبر 11:
عن ابن عمر ؛ انہ جاء الی القوم وھم فی الصلوٰۃ ،ولم یکن صلی الرکعتین فدخل معھم ،ثم جلس فی مصلاہ، فلما اضحی قام فقضاھما۔(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج2ص404 رقم الحدیث 6506 باب فی رکعتی الفجر اذا فاتتہ)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ لوگوں کے پاس اس حال میں آئے کہ لوگ نماز میں تھے اور آپ نے دو رکعتیں ادا نہیں کی تھیں چنانچہ آپ لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوگئے پھر اپنی جائے نماز پر بیٹھے رہے جب سورج بلند ہوا تو کھڑے ہوئے اور فجر کی دو رکعتوں کی قضا کی۔
دلیل نمبر 12:
عن مالک انہ بلغہ ان عبد اللہ ابن عمر فاتتہ رکعتا الفجر فقضاھما بعد ان طلعت الشمس
(مؤطا مالک: ص112 باب ما جاء فی رکعتی الفجر)
ترجمہ: امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پنہچی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب فجر کی دو رکعتیں فوت ہوجاتیں تو آپ ان کی قضا سورج کے طلوع ہونے کے بعد فرماتے تھے۔
دلیل نمبر 13:
عن یحیی ابن سعید قال: سمعت القاسم یقول : لو لم اصلھما حتی اصلی الفجر ،صلیتھما بعد طلوع الشمس۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ :ج 2 ص 156 باب فی رکعتی الفجر اذا فاتتہ رقم الحدیث 6505)
ترجمہ: حضرت یحیی بن سعید فرماتے ہیں میں نے قاسم کو فرماتے ہوئے سنا اگرمیں نے دو سنتیں نہ پڑھی ہوں اور فجر کی نماز پڑھ لی ہو تو میں ان کو سورج نکلنے کے بعد پڑھتا ہوں۔
فائدہ:
اب وہ روایات پیش خدمت ہیں جن میں فجر کے بعد طلوع شمس سے پہلے سنتیں پڑھنے کی ممانعت ہے۔
1: عن ابن عمر قال: صلیت مع النبی ﷺ ومع ابی بکر وعمر وعثمان فلا صلوٰۃ بعد الغداۃ حتی تطلع الشمس
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص 116 باب من قال لا صلوٰۃ بعد الفجر رقم الحدیث 7416)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور حضرت ابو بکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی تو صبح کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک کوئی نماز نہیں ہوتی تھی۔
2: عن علی قال : کان النبی ﷺ یصلی علی اثر کل صلوٰۃ مکتوبۃ رکعتین الا الفجر والعصر۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص116باب من قال لا صلوٰۃ بعد الفجر رقم الحدیث 7417)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے سوائے فجر اور عصر کے۔
3:عن ابی العالیۃ قال: لا تصلح الصلوٰۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس وبعد الصبح حتی تطلع الشمس قال وکان عمر یضرب علی ذلک (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص114باب من قال لا صلوٰۃ بعد الفجر رقم الحدیث 7409)
ترجمہ: حضرت عالیہ فرماتے ہیں عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے تک اور صبح کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک کوئی نماز درست نہیں نیز فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پر مارا کرتے تھے۔
غیر مقلدین کی دلیل اور اس کے جوابات:
عن محمد ابن ابراہیم عن جدہ قیس قال: خرج رسول اللہﷺ فاقیمت الصوٰۃ فصلیت معہ الصبح ثم انصرف النبیﷺ اصلین فقال مھلا یا قیس ! اصلاتان معا ؟ قلت یا رسول اللہ انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذا
(ترمذی جلد 1 ص96)
جواب نمبر 1:
حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”انما یروی ھذا الحدیث مرسلا” یہ حدیث مرسل ہے ۔واسناد ھذا الحدیث لیس بمتصل۔
٭ زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتا ہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک تابعی کی مرسل روایت ہر لحاظ سے مردود ہے۔
(فتاوی علمیہ ج2 ص290)
نیز نہی والی روایات متواتر ہیں اور یہ مرسل ہے۔ متواتر کے مقابلے میں مرسل کا کوئی مقام نہیں ہے۔
٭ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وھو حدیث ضعیف۔۔۔۔۔۔۔ واتفقوا علی ضعف حدیثہ المذکور فی الرکعتین بعد الصبح۔
رواہ ابو داؤد والترمذی وغیرھما وضعفوہ
(تہذیب الاسماء واللغات للنووی ج1 ص 450،451 رقم الترجمہ 517)
جواب نمبر 2:
اس روایت میں صراحتا مذکور نہیں کہ حضور ﷺ نے ان کو دو رکعت پڑھنے کی اجازت دی “فلا اذا” اس کا معنی صرف اجازت نہیں بلکہ انکار بھی ہوتا ہے۔جیسا کہ صحیح مسلم (ج2ص37) میں “باب کراھیۃ تفضیل بعض الا اولاد فی الھبۃ” کے تحت حدیث مذکور ہے۔حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے مال زیادہ دینا چاہا حضور ﷺ نے پوچھا کہ آپ نے تمام بیٹوں کو اسی طرح مال دیا ہے؟میرے والد نے کہا نہیں ۔حضورﷺ نے فرمایا “ایسرک” ( کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے) ان یکونوا الیک فی البر سواء قال بلی قال فلا اذا” فلا اذا” کا معنی غیر مقلد عالم وحید الزمان نے یہ کیا ہے “تو پھر ایسا مت کر” یعنی ایک کو دے ایک کو نہ دے۔
(ترجمہ صحیح مسلم از وحید الزمان غیر مقلد ج4 ص232)