کیا فرماتے ہیں علمائے دین اورمفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عید کی نماز کے بعدو ہیں عیدگاہ یا مسجد میں لوگ آپس میں ملتے ہیں مصافحہ کرتے ہیں اور معانقہ بھی کرتے ہیں اور اس کام کو بڑے اہتمام کے ساتھ انجام دیتے ہیں ، اور اکثر لوگوں کا نظریہ اور خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ ثواب کا کام ہے حالانکہ مصافحہ اتو پہلی ملاقات کے وقت سنت ہے ، جبکہ یہ لوگ نماز سے پہلے ایک ہی جگہ اکھٹے بیٹھے ہوتے ہیں اور آپس میں محو گفتگو ہوتے ہیں۔ اور معانقہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری زندگی میں ایک یا دو دفعہ ثابت ہے اور پھر اس کے بعد یہ لوگ جب اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں تو اپنے رشتے داروں کے گھروں میں بڑے اہتمام سے جاتے ہیں جو عید مبارکی سے تعبیر کرتے ہیں اور مصافحہ اور معانقہ کرتے ہیں اور اس کام کو ثواب کا کام گردانتے ہیں اور اگر نہ کرے تو باعث گناہ سمجھتے ہیں۔
اور ہمارے علاقے کے علماء حضرات عیدگاہ یا مسجد میں نماز عید کے فورا بعد ملنا اور مصافحہ اور معانقہ کرنا بدعت قرار دیتے ہیں اور بعض علماء تو اس عمل کوروافض کا شعار قرار دیتے ہیں اور پھر اس پر “من تشبہ بقوم۔۔۔۔” کا حکم لگاتے ہیں۔
اور جہاں تک عید کی نماز سے واپس آکر اپنے رشتہ داروں کے گھر جانا اور عید مبارکی کے لیے مصافحہ اور معانقہ کرنا ہے تو بعض علماء اس کو بھی بدعت قرار دیتے اور روافض کا عمل بتاتے ہیں ،جبکہ بعض دوسرے علماء اس عمل کو جائز بلکہ ثابت “من زمن صحابہ”بتاتے ہیں۔
اب جواب طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ دونوں طرح کے عمل کا احادیث یا صحابہ اور تابعین کی زندگی میں سے ثبوت ملتا ہے یا نہیں اور کیا یہ ثواب کاکام ہے اور کرنا چاہیے یا نہیں؟ یا واقعی یا عمل بدعت اورروافض کا شعار ہے اور اسے چھوڑنا چاہیے ؟ اگر یہ کام بدعت ہو تو کیا اس کی وجہ عوام پر سختی کر کے چھڑوانا چاہیے یا کہ عوام کو اپنے حال پر چھوڑ کر یہ کام کرنے دیا جائے ؟کیونکہ بعض جگہوں میں اس عمل کو بند کرنے سے بہت بڑے انتشار اور فساد پیدا کا خطرہ ہے۔
نیز جو ایک جملہ سلف صالحین سے منقول ہے کہ “تقبل اللہ منا ومنکم صالح الاعمال “کیا یہ جملہ مصافحہ یا معانقہ کو مستلزم ہے یا نہیں؟
مدلل بیان کریں۔
بینو اتوجروا
المستفتی ذبیح اللہ
پشاور
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصليا
(١ و ٢) ۔۔۔ جن مواقع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ ثابت اور منقول ہے مثل ملاقات کے وقت بالاتفاق یا وداع کے وقت على الاختلاف، ان مواقع میں تو مصافحہ و معانقہ سنت ہے، اور جن مواقع میں مصافحہ و معانقہ ثابت نہیں ان مواقع میں مصافحہ و معانقہ کر نافی نفسہ نہ سنت ہے اورنہ ناجائز بلکہ مباح ہے۔
اور عیدین کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ و معانقہ و مبارکبادی کسی صحیح اور مستند حدیث سے ثابت نہیں، لہذا جن علاقوں میں اس کونماز عید کی سنت سمجھا جاتا ہو، اور اسی وجہ سے اس کا اہتمام و التزام کیا جاتا ہو یا اتنا ضروری سمجھا جاتا ہو کہ نہ کرنے والے کو ملامت کی جاتی ہو تو ایسی صورت میں یہ بدعت اور ناجائز ہو گا جو کہ واجب الترک ہے۔
لیکن مسلمانوں کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جومحض عید کی خوشی اور مسرت کی وجہ سے آپس میں معانقہ و مصافحہ کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں وہ اس کو عید کی سنت نہیں سمجھتے، بلکہ محض محبت اور تعلق کا اظہار مقصود ہوتا ہے، لہذا ایسی صورت میں مصافحہ و معانقہ اور عید مبارک کہنا مباح اور جائز ہے۔ (مأخذه التبويبه: ۲۲۰/ ۳۳)
چونکہ سوال میں ذکر کر دہ امور اپنی ذات کے اعتبار سے مباح ہیں لہذا ان پر بغیر کسی تفصیل کے علی الاطلاق بدعت ہونے کا حکم لگانا درست نہیں، بلکہ ان امور پر سنت یا بدعت ہونے کا حکم لگانے کے لئے مذکورہ بالا تفصیل کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
تاہم جن علاقوں میں اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یہ امور بدعت کے زمرہ میں داخل ہوتے ہوں وہاں بھی لوگوں کو ان امور سے روکنے کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے انتشار اور اضطراب پیدا ہو درست نہیں، بلکہ وہاں کے مقامی علماء کو چاہئے کہ عوامی اجتماعات میں اور عیدین کے اجتماعات میں مناسب انداز میں عوام پر ان امور کی شرعی حیثیت واضح کریں اور عوام کو یہ بتائیں کہ ان امور کو عید کی سنت سمجھ کر کرنا درست نہیں ہے، اور عید کی سنت سمجھے بغیرمحض خوشی اور مسرت کی وجہ سے مصافحہ و معانقہ کرنا اور عید مبارک کہنا مباح اور جائز ہے۔
[النحل : ۱۲۵]
ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتي هي أحسن إن بك هو أعلم بمن ضل عن سبيله وهو أعلم بالمهتدين
رد المحتار – (٦/ ۳۸۱)
(قوله كما أفاده النووي في أذكاره) حيث قال اعلم أن المصافحة مستحبة عند كل لقاء، وأما ما اعتاده الناس من المصافحة بعد صلاة الصبح والعصر، فلا أصل له في الشرع على هذا الوجه ولكن لا بأس به فإن أصل المصافحة سنة وكونهم حافظوا عليها في بعض الأحوال، وفرطوا في كثير من الأحوال أو أكثرها لا يخرج ذلك البعض عن كونه من المصافحة التي ورد الشرع بأصلها اه قال الشيخ أبو الحسن البكري: وتقييده ما بعد الصبح والعصر على عادة كانت في زمنه، وإلا فعقب الصلوات كلها كذلك كذا في رسالة الشرنبلالي في المصافحة، ونقل مثله عن الشمس الحانوتي، وأنه أفتى به مستدلا بعموم النصوص الواردة في مشروعيتها وهو الموافق لما ذكره الشارح من إطلاق المتون، لكن قد يقال إن المواظبة عليها بعد الصلوات خاصة قد يؤدي الجهلة إلى اعتقاد سنيتها في خصوص هذه المواضع وأن لها خصوصية زائدة على غيرها مع أن ظاهر كلامهم أنه لم يفعلها أحد من السلف في هذه المواضع، ۔۔۔ ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال، لأن الصحابة – رضي الله تعالى عنهم – ما صافحوا بعد أداءالصلاة، ولأنهما من سنن الروافض اہ
اعلاء السنن (باب جواز التهنئة بالعيد) (۱۱۹ / ۸ ، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)
عن جبير بن نفير قال: «كان أصحاب رسول الله و إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك»
وعن محمد بن زياد: (كنت مع أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه وغيره من أصحاب النبي ال فكانوا إذا رجعوا يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك)
قال المؤلف: دلالة الأحاديث علي الباب ظاهرة۔
الدر المختار – (٢/١٦٩)
والتهنئة بتقبل الله منا ومنكم لا تنكر۔
رد المحتار – ( ٢/١٦٩)
(قوله لا تنكر) خبر قوله والتهنئة وإنما قال كذلك لأنه لم يحفظ فيها شيء عن أبي حنيفة وأصحابه، وذكر في القنية أنه لم ينقل عن أصحابنا كراهة وعن مالك أنه کرهها، وعن الأوزاعي أنها بدعة، وقال المحقق ابن أمير حاج: بل الأشبه أما جائزة مستحبة في الجملة ثم ساق آثارا بأسانيد صحيحة عن الصحابة في فعل ذلك ثم قال : والمتعامل في البلاد الشامية والمصرية عيد مبارك عليك ونحوه وقال يمكن أن يلحق بذلك في المشروعية والاستحباب لما بينهما من التلازم فإن من قبلت طاعته في زمان كان ذلك الزمان علیه مبار کا على أنه قد ورد الدعاء بالبركة في أمور شت فيؤخذمنه استحباب الدعاء بما هنا أيضا۔ اه۔۔ ۔
(۳)۔۔۔ مختلف روایات میں حضرات صحابہ سے عید کے دن ایک دوسرے کو” تقبل الله منا ۔۔الخ” کہنا ثابت ہے، لیکن ان روایات میں مصافحہ و معانقہ کا ذکر نہیں ہے، اور صرف یہ جملہ کہنا عقلا مصافحہ و معانقہ کو مستلزم بھی نہیں۔ اور نہ ہی اس سے مصافحہ و معانقہ ثابت ہوتا ہے۔
اعلاء السنن (باب جواز التهنئة بالعيد) (۹۹۹ / ۸ ، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)
عن جبير بن نفير قال: كان أصحاب رسول الله و إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك»
وعن محمد بن زياد: «كنت مع أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه وغيره من أصحاب النبي : فكانوا إذا رجعوا يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك»
قال المؤلف: دلالة الأحاديث على الباب ظاهرة۔ – فتح الباري – ابن حجر – (باب سنة العيدين لأهل الإسلام)
وقد روى بن عدي من حديث واثلة أنه لقي رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم عيد فقال تقبل الله منا ومنك فقال نعم تقبل الله منا ومنك وفي إسناده محمد بن إبراهيم الشامي وهو ضعيف وقد تفرد به مرفوعا وخولف فيه فروى البيهقي من حديث عبادة بن الصامت أنه سأل رسول الله صلى الله عليه و سلم عن ذلك فقال ذلك فعل أهل الكتابين وإسناده ضعيف أيضا وكأنه أراد أنه لم يصح فيه شيء وروينا في المحامليات بإسناد حسن عن جبير بن نفير قال كان أصحاب رسول الله صلی الله عليه و سلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض تقبل الله منا ومنك۔
زبیر احمد کر اچوی
دار الافتاء جامعہ دار العلوم کراچی
١/١/١٤٣٦ ھ
۲٦/اکتوبر/ ۲۰۱۴ء
پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پرکلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/597322893970293/