محترم جناب مفتی صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزارش ہے کہ “بچوں کا اسلام ” میں ایک مضمون “دعائے ابو درداء”کے بارے میں شائع ہوا ہے جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے مذکورہ دعا محدثین کے اصول پر ثابت نہیں ہے حالانکہ یہ دعا بہت مشہور ہے ۔
براہ کرام آپ اس بارے میں اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں کہ یہ دعا ثابت ہے کہ نہیں اور اس دعا کا پڑھنا اور پڑھنے کا معمول بنانا درست ہے یا نہیں ؟ (اخبار کے تراشہ کی کاپی منسلک ہے)۔
جزاکم اللہ تعالی خیراً
والسلام
مولوی محمد حسین
امام و خطیب جامع مسجد
ختم الرسل کھارادار کراچی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض ہے کہ چند ماہ بیشتر “بچوں کا اسلام “شمارہ 757 میں “دعا کی برکت “کے عنوان سے ایک مضمون میں ایک واقعہ نکل کیا گیا۔
جس میں ایک دعا کی بابت لکھا گیا :
“مشہور صحابی حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لگاتار تین شخصوں نے آکر اطلاع دی کہ آپ کا گھر جل گیا ہےلیکن آپ نے سب کو یہی جواب دیا کہ “نہیں جلا”۔پھر ایک اور شخص نے آکر بتایا کہ” واقعی آگ کے شعلے بہت بلند ہو گئے تھے لیک آپ کے گھر تک پہنچتے ہی آگ بجھ گئی “۔ اس پر حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد سنایا کہ جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات پڑھ لے شام تک اس کو کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی ۔ میں نے بھی صبح یہ کلمات پڑھ لیے تھے ۔ کلمات یہ ہیں : “اللہم انت ربی لا الہ الا انت علیک توکلت و انت رب العرش الکریم ما شاء اللہ کان و ما لم یشاْ لم یکن و لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اعلم ان اللہ کل شیئ قدیر و ان اللہ قد احاط بکل شیئ علما۔ اللہم انی اعوذبک من شر نفسی و من شر کل دابۃ انت اخذ بناصیتہا ان ربی علی صراط مستقیم”۔
یہ واقعہ مشہور ہے لیکن محدثین کے اصول پر ثابت نہیں ہے۔ عدم ثبوت کے دلائل درج ذیل ہیں :
1: امام ابو الفرج عبد الرحمن بن علی ابن الجوزیرحمۃ اللہ علیہپہ پوری روایت سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں “ھذا حدیث لا یثبت و آفتہ من الاغلاب، قال یحی بن معین لیس بشیء۔ و قال البخاری منکر الحدیث۔۔۔۔۔۔
(العلل المتناھیۃ فی الاحدیث الواھیۃ2/836)
2: راوی حدیث اغلب بن تمیم(جس کے سبب امام بن جوزی رحمۃ اللہ علیہنے حدیث کو غیر ثابت قرار دیا ہے)کا ذکر امام بخاریرحمۃ اللہ علیہ نے التاریخ الکبیر2/70 میں کیا ہے اور فرمایا: اغلب بن تیمیم منکر الحدیث 15
امام جلال الدین سیوطیرحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں: امام بخاریرحمۃ اللہ علیہمنکر الحدیث کی اصطلاح اس راوی کے متعلق استعمال کرتے ہیں جو متروک الحدیث ہو اور جس سے روایت کرنا وہ جائز نہیں سمجھتے تھے(ملاحظہ ہو تدریب الراوی 1/349)۔
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہاس کےمتعلق لکھتے ہیں کہ : اغلب بن تمیم منکر الحدیث یروی عن الثقات ما لیس من حدیثہم حتی خرج عن حد الاحتجاج بہ لکژرۃ خطئہ(المجرد حین 7/175)۔
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہنے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ امام بخاری اور ابن حبان رحمہما اللہ کے مذکورہ بالا اقوال نقل کرنے کے بعد یحی بن معین رحمۃ اللہ علیہنےالضعفاء الکبیر 1/171 میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن معین رحمۃ اللہ علیہکا قول نقل کیا ہے: لیس بشیء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(میزان الاعتدال1/273)۔
علامہ عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے الضعفاء الکبیر 1/171 میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن معین رحمۃ اللہ علیہکاقول نقل کیا ہے: لیس بشیء ثم قال و لیس یتابع۔۔۔۔۔(ملخص من تحذیر الداعیۃ من القصص الواھیۃ للشیخ علی بن ابراہیم ص468)
بعض دیگر محدثین نے یہ بھی قصہ نقل کیا ہے،مثلاً اما م ابن السنی رحمۃ اللہ علیہنے عمل الیوم و اللیلۃص25 میں ۔۔۔۔۔۔
طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے الدعاء 2/954 میں ،علامہ خرائطی رحمۃ اللہ علیہ نے مکارم الاخلاق 1/401 میں اور علامہ بیہقی رحمۃاللہ علیہ نے کتاب الاسماء ؎
و الصفات 1/207میں۔۔۔۔۔۔۔لیکن سب حضرا ت نے اسی سند کے ساتھ اور اسی راوی سے نقل کیا ہے۔
3: عدم صحت اور عدم ثبوت کے سبب محدثین نے اپنی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ صحاح ستہ اور دیگر کتابوں میں اس کا تذکرہ نہیں ۔
اسی طرح اذکار و ادعیہ کی اکثر کتابوں میں یہ روایت مذکور نہیں ۔ اس وقت اس موضوع کی بہت سی قدیم و جدید کتابیں ہمارے سامنے ہیں مثلاً عمل الیوم و اللیلۃ(للنسائی) ،الحصن و الحصین(للجزری)،سلاح المؤمن(لابی الفتح محمد بن علی)، تحفۃ الذاکرین(لمحمد بن علی الشوکانی)
،الذکر و الدعاء و العلاج بالرقی من الکتاب و السنۃ (4جلد سعید بن علی)،الجامع فی الدعاءالنافع(صالح بن طہ)،فقہ الادعیۃو الاذکار من الکتاب و السنۃ
(عبد المحسن اعباد البدر)،الجامع فی شرح الادعیۃ النبویۃ (مہر مقدم)۔
یہ سب اپنے موضوع کی جامع اور مستند کتب ہیں ۔ ان میں کہیں اس دعا کا تذکرہ نہیں ۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہ دعا حضرات محدثین اور ان محققین کی نظر میں ثابت نہیں ورنہ ضرور اسے ذکر کرتے ۔خلاصہ یہ کہ یہ واقعہ حدیث سے ثابت نہیں۔۔۔۔۔۔۔”بچوں کا اسلام ” میں اس کی وضاحت کر دیجیے۔
الجواب حامداً و مصلیاً
سوال کے ساتھ منسلکہ”بچوں کا اسلام” کے تراشہ میں دعائے ابو درداءرضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکورہ تفصی کا بغور مطالعہ کیا گیا جس میں چند دلائل کے ساتھ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ مشہور ہونے کے باوجود حضرات محدثین کے اصول کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ تراشے میں جو دلائل ذکر کئے گئے ہیں وہ درات ہیں اور مذکورہ حدیث کے راوی اغلب بن تمیم پر کحدثین نے کافی کلام کیا ہے اور اس بناء پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے لیکن ان دلائل کی بنائ پر اس کو بالکل ساقط الاعتبار قرار دے کر یہ کہنا کہ”یہ واقعہ حدیث سے ثابت نہیں ہے”یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی اس لیے کہ حدیث تو فی نفسہ ثابت ہے اگر چہ یہ ضعیف ہے لیکن محدثین ِکرام نے اغلب بن تمیم کے علاوہ دیگر طرق سے بھی اس کو نقل کیا ہے جس کی وجہ سے زیرِ بحث رواتے کو تقویت ملتی ہےلہذا اس کو حدیث سے خرج کر کے بالکل ساقط الاعتبار قرار دینا مشکل ہے۔
مکمل فتوی عربی عبارات کے ساتھ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کےلیے لنک پر کلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/547974192238497/