سوال:ڈی ایس پی فنڈ: پاکستان نیوی کے ملازمین کی تنخواہ سے ہر مہینے کچھ رقم DSP فنڈ کے نام سے کٹتی ہے، اس کٹوتی پر ملازمین کا کوئی اختیار نہیں کوئی چاہے یا نہ چاہے یہ رقم ہر صورت میں کٹتی ہے اور اس رقم پر سالانہ مختلف تناسب سے منافع یا سود لگتا ہے مثلاً کبھی 11.5% تو کبھی 13% کے حساب سے یعنی ہر سال تناسب کا فرق ہوتا ہے۔
ملازمین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس رقم میں اضافہ کرسکیں البتہ یہ اختیار ہرگز نہیں کہ یہ کٹوتی مکمل طور پر ختم کرسکیں اور حال ہی میں یہ اختیار ملازمین کو ملا کہ وہ اس رقم پہ ملنے والا منافع یا سود لیں یانہ لیں۔
اس جمع شدہ رقم پر ملازمین کا مکمل اختیار نہیں۔ یہ جمع شدہ رقم حاصل کرنے کی بھی چند شرائط ہیں:
1. یہ رقم 80% سے زائد نہیں نکلوائی جاسکتی۔
2. اگر ملازم کی نوکری 5 سال سے زیادہ رہتی ہو تو نکلوائی ہوئی رقم اقساط میں واپس کرنا ضروری ہے
3. اگر ملازم کی نوکری 5 سال سے کم رہتی ہو تو پھر نکلوائی ہوئی رقم لوٹانا ضروری نہیں۔
4. نوکری مکمل ہونے یعنی ریٹائرمنٹ پر یہ رقم ملازم کو دے دی جاتی ہے۔
ہم نے اپنے طور پر معلومات کی بھر پور کوشش کی کہ یہ DSP فنڈ کے نام سے کٹنے والی رقم کہاں جاتی ہے اور کس کاروبار میں استعمال ہوتی ہے تو ہمیں کہیں سے بھی تصدیق شدہ جواب نہیں ملا، البتہ چند باتیں جو سننے آئیں وہ یہ ہیں کہ یہ رقم ہاؤسنگ اسکیم ، لائف انشورنس اور مختلف بینکوں کو کاروبار کے لیے دی جاتی ہے۔
سوال نمبر1:DSP فنڈ پر ملنے والی اضافی رقم جائز ہے یا ناجائز۔
سوال نمبر2:DSP فنڈ میں ملازمین کی ہر صورت پر کٹنے والی رقم پر ملنے والی زائد رقم لیناجائز ہے یا نہیں۔
سوال نمبر3: اگر ملازم اپنی مرضی سے اس کٹوٹی میں اضافہ کرواتا ہے تو ملنے والی زائد رقم جائز ہے یا نہیں ( مثلاً 75 روپے ہر صورت میں کٹتے تھے، اب ملازم نےیہ کٹوتی بڑھاکر 500 روپے کردی تو ملنے والی زائد رقم جائز ہے یا ناجائز۔
سوال نمبر4: اس DSP فنڈ پر ملازم کا مکمل اختیار نہیں لیکن اگر کسی کے DSP اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم اس حد تک پہنچ جائے جس پر زکوۃ لاگو ہوتی ہے تو اس پر زکوۃ دینا فرض ہے یا نہیں اور اسی طرح قربانی کا اور حج کا کیا حکم داخل ہے۔
جواب
جواب سے پہلے بطور تمہیدچند امور ملاحظہ ہو۔
DSPفنڈ میں انتہاء ملازمت پر ملازم کو جو رقم ملتی ہے اس کے تین حصے ہوتے ہیں۔
1. ایک حصہ وہ ہے جو اس کی تنخواہ سے کاٹا گیا۔ ملازم کے لیے اس رقم کو وصول کرنے میں تو کوئی اشکال نہیں، کیونکہ رقم کا یہ حصہ تو اس کاحق ہے۔
2. دوسرا حصہ وہ ہے جو حکومت یا محکمہ اپنی طرف سے اضافی طور پرجمع کرتا ہے۔ یہ اضافہ بھی اگرچہ محکمے کی طرف سے بنام سود کیاجاتا ہے، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ رقم کا یہ حصہ محکمے کی طرف سے اصل تنخواہ میں اضافہ ہے،جووہ تبرعا کرتا ہے، لہذا اس کو لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
3. تیسرا حصہ وہ ہے جو محکمے نے اس فنڈ کی رقم کو کسی نفع بخش کاروبار میں لگاکر حاصل کیا ہو، عموما اس فنڈ کی رقم کو سودی کاروبار میں لگایا جا تا ہے۔
اس رقم کے بارے میں بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ ملازم کے لیےیہ رقم لینا جائز نہ ہونا چاہیے،کیونکہ یہ رقم سودی کاروبار سے حاصل شدہ سودہوتاہے، اور حکومت یا محکمے کی طرف سےملازم کو یہ اضافہ بھی بنام سود دیا جاتا ہے۔
مگر اہل علم نے اس رقم کو بھی اس بنیاد پرملازم کے لیےلینا جائز قرار دیاہے کہ فقہی اعتبار سے اس رقم پرربا کی تعریف صادق نہیں آتی، کیونکہ تنخواہ کا جو حصہ ملازم کو موصول نہیں ہوا وہ ابھی اس کی ملکیت میں نہیں آیا،بلکہ بدستور محکمہ ہی کی ملکیت میں ہے، اسی طرح محکمہ نےاپنی طرف سے جو اس میں زیادتی کی ہے وہ بھی اسی کی ملکیت میں ہے،اس لیے محکمہ تیسرے ادارے سے جو سود حاصل کرتا ہے گویا وہ سود وہ اپنی مملوک رقم لگاکر حاصل کرتا ہے، اور پھر اسے محکمے کی عام رقم میں ملا بھی دیتا ہے، لہذا اس کے بعد وہ اپنے مجموعی خزانے سے ملازم کو جو حصہ دیتا ہےوہ بھی ملازم کی اجرت میں محکمے کی طرف سے اضافہ شمار ہوگا، اس لیے ملازم کے لیے اس کو وصول کرنا جائز ہے۔
مذکورہ بالا امور کی روشنی میں صورت مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ DSPفنڈ میں جورقم بنام سود دی جاتی ہے، وہ شرعا سود نہیں،بلکہ محکمہ کی طرف سے ملازم کی تنخواہ میں تبرعا کیا جانے والا اضافہ ہے، اس لیے اس کو لینا جائز ہے۔
اسی طرح اگر ملازم اپنی مرضی سے اس کٹوتی میں اضافہ کرواتا ہے تو ملنے والی زائد رقم جائز ہے کیونکہ اس صورت میں رقم پر ملازم کی ملکیت نہیں آتی ہے بلکہ یہ رقم ادارے کی ملکیت میں ہوتی ہے، ملازم کی ملکیت میں رقم تب آتی ہے جب وہ باقاعدہ اس کو وصول کرے۔
اسی طرح جب یہ DSP فنڈ ادارے کی ملکیت میں ہےتو یہ رقم اگرچہ DSP اکاؤنٹ میں نصاب کی حد تک پہنچ جائے، اس کی وجہ سے ملازم پر نہ زکوۃ لازم ہوگی، نہ ہی قربانی و حج۔
حوالہ جات
“قال – رحمه الله – (والأجرة لا تملك بالعقد بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه)”
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي5/106ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
”أي لا تملك الأجرة بنفس العقد سواء كانت الأجرة عينا أو دينا، وإنما تملك بالتعجيل أو بشرط التعجيل أو باستيفاء المعقود عليه وهي المنفعة أو بالتمكن من استيفائه بتسليم العين المستأجرة في المدة،”
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي5/106ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
“: (والأجرة لا تجب بالعقد) أي لا يجب أداؤها؛ لأن العقد ينعقد شيئا فشيئا على حسب حدوث المنافع، والعقد معاوضة، ومن قضية المعاوضة المساواة، وإذا استوفى المنفعة ثبت الملك في الأجرة لتحقق التسوية وكذا إذا شرط التعجيل، أو عجل من غير شرط ولو استأجر دارا سنة بعبد معين ولم يقبضه المؤجر فأعتقه المستأجر قبل مضي المدة صح عتقه وعليه قيمته ولو أعتقه المؤجر لا يصح؛ لأنه لا يملكه بمجرد العقد ولو قبضه المؤجر فأعتقه نفذ عتقه”
(الجوهرة النيرة على مختصر القدوري1/266 ط:المطبعۃ الخیریۃ)
” (قوله: ويستحق بأحد معان ثلاثة إما أن يشترط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه)”
(الجوهرة النيرة على مختصر القدوري1/266 ط:المطبعۃ الخیریۃ)
“(المادة 466) لا تلزم الأجرة بالعقد المطلق. يعني لا يلزم تسليم بدل الإجارة بمجرد انعقادها حالا.”
(مجلة الأحكام العدلية (ص: 89)ط:نور محمد)
مجيب
محمد کامران
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب