ڈراپ شپنگ کے کاروبار کی شرعی حیثیت

فتویٰ نمبر:4085

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! ایک آن لائن کاروبار ہے ۔ جس میں لوگ مثلا زید آن لائن اسٹور تخلیق کرتاہے اور اسے مناسب طریقے سے سجاتا ہیں.اور اس پرمختلف اشیاء بیچنے کیلیے پیش کرتا ہے جو حقیقت میں ان کے پاس موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ دیگر آن لائن اسٹورز مثلا بکر کے اسٹور پر ایسی مصنوعات تلاش کرتا ہے جو اچھی طرح سے فروخت کرسکتا ہے اور ان کی اشیاء کو اپنے آن لائن سٹور پر قیمت تھوڑی بڑھا کر پیش کر دیتا ہے۔ اور اس سامان کو فروخت کر کے منافع کماتے ہیں اور جب کوئ شخص زید کو آرڈر دیتا ہے تو وہ اس سے معاملہ کرنے کے بعد خریدنے والے کے ایڈریس کو بکر کے آن لائن سٹور کو بھیج دیتاہے جہاں وہ چیز موجود ہوتی ہے تاکہ آرڈر وہ پورا کریں ۔بکر کواادائیگی بھی زید کرتا ہے. اور خریدار سے قیمت خود لیتا ہے ۔اس سارے عمل کے دوران مبیع زید کے پاس نہیں ہوتا لیکن اہم بات یہ ہے کہ زید ایک آن لائن اسٹور بناتا ہے اور عمدہ کسٹمر سروس کے ساتھ اچھی ساکھ بناتا ہے جسکی وجہ سے لوگ بکر وغیرہ کی بجائے زید کو آرڈر دینا پسند کرتے ہیں اور تھوڑا سا اضافی رقم کے ساتھ زید سے خریدنے کے لئے تیار ہیں. (اس کاروبار میں زید خریدار کے ساتھ قیمت پہلے سے ہی طے کرتا ہے، ترسیل کی تاریخ کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور مصنوعات کی معیار کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے. اور یہاں تک کہ گاہک کسی بھی وقت اشیاء واپس بھیج سکتے ہیں، اگر وہ ان کی ضرورت پوری نہیں کرتی یا انہیں پسند نہیں آتی۔ یا ڈیلیوری کے دوران نقصان پہنچ جائے ۔تو قیمت واپس کر دی جاتی ہے۔)بریکٹ میں ذکر کردہ تمام ذمہ داریاں زید کے سر ہوتی ہیں .وہ جو منافع کماتا ہے وہ اپنی ان ذمہ داریوں اور اچھی ساکھ کی وجہ سے کماتا ہے ۔ نیز زید کے اسٹور پر فروخت کی جانے والی اشیاء کا مختصر تعارف بھی کرایا جاتا ہے جس میں یہ بات واضح طور پر لکھ دی جاتی ہے کہ اپنے پاس سامان نہ ہونے کی صورت میں وہ دوسروں سے خرید کر بھی دے سکتے ہیں۔اس کاروبار کو اصطلاح میں ڈراپ شپنگ کہا جاتا ہے جسکی تمام تر تفصیلات انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور آن لائن کاروبار میں مصروف 60 سے 70 فیصد افراد اس میں ملوث ہیں۔

اب اس ساری تفصیل کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ کاروبار حلال ہے؟اگر نہیں تو شرائط اور طریقہ کار میں ایسی کیا تبدیلیاں کی جائیں کہ یہ کاروبار جواز کی حدود میں داخل ہو جائے؟

جواب سے ممنون فرمائین

والسلام

الجواب حامداًو مصلياً

شرعا خرید و فروخت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ بیچنے والا جس چیز کو بیچ رہا ہے وہ اس کی ملکیت اور حسی یا معنوی قبضے میں ہو۔اگر وہ کسی ایسی چیز کو بیچتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے تو بیع درست نہیں ہوتی، بلکہ باطل اور کالعدم شمار ہوتی ہے۔

(مستفاد :اسلامی بینکاری کی بنیادیں از مفتی تقی عثمانی ،ص:100)

مذکورہ صورت میں کیونکہ ڈراپ شِپنگ کا کاروبار کرنے والا ایسی چیز اپنے گاہک کو بیچتا ہے جو عقد کے وقت ادارے کی کی ملکیت میں نہیں ہوتی۔لہذا یہ بیع (خرید و فروخت) شرعاً جائز نہیں۔

اس کے جواز کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں :

(الف) ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ڈراپ شِپنگ کا کاروبار کرنے والا اپنے گاہک کو یہ نہ کہے کہ یہ چیز میں آپ کو بیچ رہا ہوں بلکہ یہ کہے کہ یہ چیز بیچنے کا معاہدہ کرتا ہوں۔اس طرح یہ بیع نہیں بلکہ بیع کا وعدہ ہو جاتا ہے۔پھر جب وہ دوسرے اسٹور سے وہ چیز خرید لے تب وہ ایجاب و قبول (آفر اینڈ ایکسیپٹینس) کر کے اور حقیقی یا معنوی قبضہ میں لینے کے بعد سودا طے کریں اور اپنے کسٹمر کو مبیع(جو چیز بیچ رہا ہے)بھیج دیں۔ 

(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی گاہک سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔اور یہ خدمات فراہم کرنے( وکالت/سروس پروائڈنگ) کا معاملہ کہلائے گا اور جائز ہو جائے گا۔

(مستفاد:دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن،فتوی نمبر : 143812200012)

جہاں تک سوال میں مذکور اس بات کا تعلق ہے کہ” اس اسٹور پر فروخت کی جانے والی اشیاء کا مختصر تعارف بھی کرایا جاتا ہے جس میں یہ بات واضح طور پر لکھ دی جاتی ہے کہ اپنے پاس سامان نہ ہونے کی صورت میں وہ دوسروں سے خرید کر بھی دے سکتے ہیں”اس میں ابہام ہونے کی وجہ سے غرر پر مشتمل ہونے کا اندیشہ ہے۔کیونکہ یہ بات کہ “اپنے پاس سامان موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ دوسروں سے خرید کر آگے گاہک کو فروخت کر سکتا ہے”غیر معین طور پر کہی جاتی ہے۔جس میں گاہک(کسٹمر) کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کو جو چیز بیچی جا رہی ہے وہ بیچنے والے کے پاس موجود ہے یا نہیں؟نیز سوال میں خود وضاحت کی گئی ہے کہ اس کی ملکیت میں کوئی چیز بھی موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسرے اسٹور کی چیزوں کی تصاویر دکھا کر بیچتا ہے،لہذا اس میں واضح طور پر دھوکے کا پہلو نکلتا ہے جو کہ جائز نہیں۔

===============================

◼”(وَمِنْهَا) وَهُوَ شَرْطُ انْعِقَادِ الْبَيْعِ لِلْبَائِعِ أَنْ يَكُونَ مَمْلُوكًا لِلْبَائِعِ عِنْدَ الْبَيْعِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَا يَنْعَقِدْ، وَإِنْ مَلَكَهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِوَجْهٍ مِنْ الْوُجُوهِ إلَّا السَّلَمَ خَاصَّةً، وَهَذَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ «، وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَنْ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَ الْإِنْسَانِ، وَرَخَّصَ فِي السَّلَمِ» ، وَلَوْ بَاعَ الْمَغْصُوبَ فَضَمَّنَهُ الْمَالِكُ قِيمَتَهُ نَفَذَ بَيْعُهُ؛ لِأَنَّ سَبَبَ الْمِلْكِ قَدْ تَقَدَّمَ فَتَبَيَّنَ أَنَّهُ بَاعَ مِلْكَ نَفْسِهِ، وَهَهُنَا تَأَخَّرَ سَبَبُ الْمِلْكِ فَيَكُونُ بَائِعًا مَا لَيْسَ عِنْدَهُ فَدَخَلَ تَحْتَ النَّهْيِ، وَالْمُرَادُ مِنْهُ بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ مِلْكًا؛ لِأَنَّ قِصَّةَ الْحَدِيثِ تَدُلُّ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ رُوِيَ أَنَّ «حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ كَانَ يَبِيعُ النَّاسَ أَشْيَاءَ لَا يَمْلِكُهَا، وَيَأْخُذُ الثَّمَنَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَدْخُلُ السُّوقَ فَيَشْتَرِي، وَيُسَلِّمَ إلَيْهِمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ» ، وَلِأَنَّ بَيْعَ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ بِطَرِيقِ الْأَصَالَةِ عَنْ نَفْسِهِ تَمْلِيكُ مَا لَا يَمْلِكُهُ بِطَرِيقِ الْأَصَالَةِ، وَأَنَّهُ مُحَالٌ.”

((البدائع والصنائع،کتاب البیوع،فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه:5/147،مکتبہ الشاملہ)

◼”وَمِنْهَا) أَنْ يَكُونَ الْمَبِيعُ مَعْلُومًا وَثَمَنُهُ مَعْلُومًا عِلْمًا يَمْنَعُ مِنْ الْمُنَازَعَةِ.

فَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمَا مَجْهُولًا جَهَالَةً مُفْضِيَةً إلَى الْمُنَازَعَةِ فَسَدَ الْبَيْعُ، وَإِنْ كَانَ مَجْهُولًا جَهَالَةً لَا تُفْضِي إلَى الْمُنَازَعَةِ لَا يَفْسُدْ؛ لِأَنَّ الْجَهَالَةَ إذَا كَانَتْ مُفْضِيَةً إلَى الْمُنَازَعَةِ كَانَتْ مَانِعَةً مِنْ التَّسْلِيمِ وَالتَّسَلُّمِ فَلَا يَحْصُلُ مَقْصُودُ الْبَيْعِ، وَإِذَا لَمْ تَكُنْ مُفْضِيَةً إلَى الْمُنَازَعَةِ لَا تَمْنَعُ مِنْ ذَلِكَ؛ فَيَحْصُلُ الْمَقْصُودُ”

(البدائع والصنائع،کتاب البیوع،فصل في شرائط الصحة في البيوع:5/156،مکتبہ الشاملہ)

◼”ذهب الحنفية إلى التفرقة بين العقد الباطل والعقد الفاسد، فقالوا: الباطل: هو ما لم يشرع لا بأصله ولا بوصفه، والفاسد هو الذي شرع بأصله دون وصفه، وأما الجمهور فقالوا بترادفهما، والجميع متفقون على أن العقد الباطل لا يترتب عليه أثر شرعي من آثار العقد – كقاعدة عامة – وأن الحنفية متفقون مع الجمهور في أن العقد الفاسد بمجرده لا يترتب عليه أثر شرعي، غير أن الحنفية قالوا: إذا تم القبض في العقد الفاسد فإنه يترتب عليه بعض الآثار منها انتقال الملكية في البيع، وقالوا: ومع إتمام القبض يظل الفسخ واجبًا في الشرع، لإزالة الفساد إلى أن يتعذر ذلك، وأما الإِثم فيبقى على العاقدين في كل الأحوال ما داما لم يفسخا. انظر في تفصيل هذه المسألة من حيث تحرير محل النزاع، ومنشأ الخلاف، وهل الخلاف لفظي أو معنوي: تيسير التحرير لأمير بادشاه: 2/234، والتوضيح على التلويح: 1/218، والمستصفى: 1/94، والمنثور في القواعد للزركشي 2/303، والتمهيد للأسنوي: ص 59، وتخريج الفروع: ص 76، ورسالتنا في مبدأ الرضا في العقود: 1/155.”

حاشیہ : مجلة مجمع الفقه الإسلامي:6/460،المتبہ الشاملہ)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:16 شعبان،1440ھ

عیسوی تاریخ:23 اپریل،2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں