فتویٰ نمبر:466
مضمون نگار : مفتی شعیب عالم
مکرم جناب ! میرا سوال یہ ہے کہ ماں کا دودھ اس کے بچے کے بہت ہی مناسب غذا اور ہر لحاظ سے مفید ہے جب کہ بعض بچے اس سے محروم رہتے ہیں تو کیوں نہ علماء ایک دودھ بینک کی تجویز دیں جس میں عورتوں کا دودھ دستیاب ہو اور جو بچے ماں کے دودھ سے محروم ہوں ان کو وہاں سے دودھ میسر ہوسکے،امید ہے کہ علماء کرام اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔عبدالباقی،کراچی
جواب:
دودھ بینکوں کا قیام بہت سی وجوہات کی بنا پر نامناسب ہے بلکہ صرف نامناسب ہی نہیں بلکہ ناجائز ہے ۔ناجائز ہونے کی وجوہات ذیل میں بیان کی جاتی ہیں ۔
1۔قرآن کریم نےماؤں کو رضاعت(دود ھ پلانے) کا حکم دیا ہے اور بازار میں دستیاب دودھ پلانا رضاعت نہیں کہلاتا، اگر چہ وہ کسی عورت ہی کا کیوں نہ ہو:
وإن أردتم أن تسترضعوا أولادکم فلا جناح علیکم إذا سلمتم ما آتیتم بالمعروف(البقرہ:٢٣٣)
ترجمہ: اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کہ دودھ پلواؤتو بھی تم پر کوئی مضائقہ نہیں جبکہ جو دینا مقرر ہوا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کرو۔
2۔رضاعت کے ازروئے دیانت واجب ہونے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور بعض کے نزدیک قضاء بھی ماں پر رضاعت واجب ہے ۔جب کہ دودھ بینکوں کے قیام سے ماں اس ذمہ داری کی ادائیگی سے پہلو تہی کرے گی۔
3۔رضاعت کا قانون بچہ کےمفاد اور فلاح وبہبود کے لیے قائم کیا گیا ہے اور اس پر سب عقلاء اور اہل طب اور اصحاب تجربہ کا اتفاق ہے کہ ماں کا دودھ تمام ضروری غذائی مواد پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں مختلف بیماریوں سے تحفظ کے لیے مدافعتی قوت موجود ہوتی ہے اور جو بچے اس سے محروم رہتے ہیں وہ زندگی بھر اس کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
بچے کو صرف دودھ کی نہیں بلکہ ماں کے دودھ کی ضرورت ہے کیونکہ وہی ہر پہلو سے اس کے لیے مفید ہے لیکن جب مارکیٹ میں عورتوں کا دستیاب ہوگا تو جو مائیں اپنا دود ھ ہونے کے باوجود بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں بلکہ مصنوعی دودھ پلاتی ہیں تو جب بازار میں عورتوں کا دود ھ دستیاب ہوگا تو کیا وہ اپنا دودھ چھوڑ کر بچے کو بینک کا دودھ نہیں پلائے گی؟
4۔رضاعت سے مقصود مجرد غذا کی فراہمی نہیں بلکہ بچےکو مسلسل ماں کی چھاتی سے لگائے رکھنا بھی مقصود ہے تاکہ ماں اور بچے کا تعلق مضبوط ہو اور بچہ ہر وقت اس کے آغوش شفقت میں رہے اورلمس محسوس کرے،ظاہر ہےکہ جواپنائیت اپنےخون کے قطرے پلانے سے پیدا ہوتی ہے وہ کسی اور شی سے پید انہیں ہوسکتی۔
5۔دودھ بینک کے قیام سے ماں اور بچے کا تعلق مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہوسکے گا اور بچہ مامتا سے محروم رہے گا اور موجودہ ماحول میں چونکہ تین سال کے بچے پر تعلیمی بار لاد دیا جاتا ہے اس لیے بچہ ہمیشہ کے لیے ماں کے مامتا سے محروم رہے گا اور زندگی بھر اس کی کسک محسوس کرے گا۔
5۔اس سے یہ قرآنی حکم بھی متاثر ہوگا کہ عورتیں گھروں میں جم کر رہیں اور قرار پکڑیں کیونکہ اب ماں بچےکو دودھ پلانے کے واسطے گھر میں ٹھہرنے کی پابند نہ رہے گی۔
6۔اگر ماں کا دودھ نہ ہو یا کافی نہ ہو یا ہو مگر مضر ہو تو قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ بچے کو کسی انا کا دودھ پلادیاجائے اس میں معاشی فائدہ بھی ہے کہ ضرورت مند عورتوں کو روزگار مل جائے گا اور بچے کی ضرورت بھی احسن طریقے سے پوری ہوجائے گی ،رشتوں کے معاملات بھی خلط نہیں ہوں گے اور بچے کو انسانی لمس بھی میسر آئے گا ۔چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
وإن تعاسرتم فسترضع لہ أخری (الطلاق:٦)
ترجمہ:
اور اگر تم دونوں دشواری محسوس کرو تو کوئی دوسری عورت دودھ پلادے گی۔
7۔اگر انا کا بندوبست مشکل ہو بایں وجہ کہ دستیاب نہ ہو یا دستیاب ہو مگر اجرت طلب کرتی ہو اوربچہ اور اس کا باپ اجرت کا تحمل نہ کرسکتےہیں تو بچے کو گھریلو غذائی اشیاء یا مصنوعی دودھ پلایا جاسکتا ہے۔
8۔ان وجوہات کے علی الرغم اگر دودھ بینک قائم کیا جائے تو آج کی ماں نے جس طرح پکائی ،سلائی ،دھلائی اورکڑہائی چھوڑدی ہے وہ اپنی سہولت پسندی کی وجہ سے دودھ پلائی بھی چھوڑدی گی ،نتیجہ یہ نکلے گا کہ عام گھریلو خواتین بھی بچوں کو دودھ پلانے سے گریز کرنے لگیں گی،جس سے اخراجات اور گھریلوبجٹ میں اضافہ ہوگا ہی ،مگر زیادہ مضر پہلو یہ ہوگاجو خواتین فیشن کے طور پر دودھ نہیں پلاتیں یا دودھ پلانے کو نسوانی حسن کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہیں وہ تو دودھ پلانا تودرکنار بچوں کو گود میں لینا اور سینے سے لگانا ہی چھوڑ دیں گی۔اس کا نقصان خود ماں کو یہ ہوگا کہ وہ بریسٹ کینسر کی طرح دیگر موذی امراض میں مبتلا ہوجائے گی۔
9۔ماں کا لہو جب اس طرح بازار میں دستیاب ہوگا تو مامتا کی وہ قدر بھی نہیں رہے گی جو مذہب کا تقاضا اور ہماری روایات کا حصہ ہے۔
10۔منڈیوں میں جس طرح لوگ جاکر اجناس فروخت کرتے ہیں، اس طرح ماں اپنا لہو بیچ آیا کرے گی اور خود بینکوں میں مسابقت شروع ہوجائے گی اور وہ دودھ فروخت کرنے والی خواہش مند ماؤں سے قبل از وقت رابطہ کریں گے اور دودھ پیشگی بک کرلیا کریں گے،اس طرح بڑے پیمانے پر دودھ کی تجارت شروع ہوجائے گی ،حالانکہ انسانی عضو ہونے کی وجہ سے دودھ کی خرید وفروخت حرام ہے ،مگر معاشرے کو اس سے باز رکھنا ممکن نہ ہوگا جیساکہ بلڈ بینکوں میں خون فروخت ہوتا ہے ،اسی طرح دودھ بینکوں میں دودھ فروخت ہونا شروع ہوجائے گااور جو مالدار ہوں گے وہ دودھ خرید لیا کریں گے اور جو حقیقی ضرورت مند بچے ہوں گے وہ پھر بھی محروم رہیں گے۔
غربت کی ماری مائیں انسانی ہمدردی کی بنا پر نہیں بلکہ مال کے حصول کے لیے اس کا دھندہ شروع کردیں گی۔ایسا کچھ بعید بھی نہیں کیونکہ جو لوگ چند کوڑیوں کے بدلےاپنے لخت جگر فروخت کرسکتے ہیں کیا وہ اپنا دودھ کو فروخت نہیں کریں گے؟برازیل اور ہندوستان میں دودھ کی فروخت باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے ۔الغرض دودھ بینکوں کے قیام سے اس کاروبار کو خوب فروغ بلکہ عروج حاصل ہوگا اور پھرسخت سے سخت قانون کے ذریعے بھی اس کا انسداد ممکن نہ ہوسکے گا۔
ہدایہ میں ہے:
ولا بیع لبن امرأۃ فی قدح
ترجمہ: پیالہ میں عورت کے دودھ کی بیع”جائز نہیں۔
(ہدایہ ،کتاب البیوع، باب البیع الفاسد ص:٣٩،مطبوعہ : ضیأ القرآن پبلی کیشنز)
اس جزئیہ میں صراحت ہےکہ دودھ کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔
11۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ بچہ نیک اور شریف عورت کا دودھ پیے تاکہ اچھے اخلاق سے مزین ہو مگر بینک میں ہر قسم کے پست کردار اور برے قماش کی عورتیں بھی دودھ جمع کرالیاکریں گی جس سے بچوں کے اخلاق وکردار متاثر ہوں گے اور دودھ کے اثرات لازمی طور پر ان میں ظاہر ہوکر رہیں گے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق – (3 / 238)
وفي المحيط ولا ينبغي للرجل أن يدخل ولده إلى الحمقاء لترضعه لأن النبي نهى عن لبن الحمقاء وقال اللبن يعدي وإنما نهى لأن الدفع إلى الحمقاء يعرض ولده للهلاك بسبب قلة حفظها له وتعهدها أو لسوء الأدب فإنها لا تحسن تأديبه فينشأ الولد سيء ( ( ( سيئ ) ) ) الأدب وقوله اللبن يعدي يحتمل أن الحمقاء لا تحتمي من الأشياء الضارة للولد فيؤثر في لبنها فيضر بالصبي وهذا موافق لما تقوله الأطباء فإنهم يأمرون المرضعة بالاحتماء عن أشياء تورث بالصبي علة ويحتمل أنه إنما نهى عن ذلك حتى إذا اتفق اتفاق لا يضاف إلى العدوى كما روي عن علي رضي الله عنه لا تسافروا والقمر في العقرب فهذا إن صح عنه فإنما نهى عنه لئلا يتفق اتفاق فينسب إلى كون القمر في العقرب فيكون إيمانا بالنجوم وتكذيبا للأخبار المروية في النهي في هذا الباب ا هـ
المغني (8/155).
وقد يكون الرضاع مكروهاً، كالارتضاع بلبن المشركة ولبن الفجور، قال ابن قدامة: (كره الإمام أحمد الارتضاع بلبن الفجور والمشركات، وقال عمر بن الخطاب وعمر بن عبد العزيز: اللبن يشتبه فلا تستق من يهودية ولا نصرانية ولا زانية، لأنه ربما أفضى إلى شبه أمه المرضعة في الفجور، ولأنه يخشى أن يميل إلى مرضعته في الدين. ويكره الارتضاع بلبن الحمقاء كيلا يشبهها الولد في الحمق، فإنه يقال: إن الرضاع يغيّر الطباع)
وقد يكون للرضاع أحكام أخرى بحسب الحال، فقد يكون واجباً وذلك في حق من لها لبن ووجدت طفلاً ليس له مرضعة، فيتعيّن عليها إرضاعه من باب إنقاذ نفس من الموت والهلاك، والله أعلم.
12۔ان وجوہات کے علاوہ دودھ بینک قائم کرنے میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں دودھ کے رشتوں کی بڑی اہمیت ہے دودھ کے رشتوں کی حرمت کو قرآن وسنت میں نسب کے رشتوں کے برابرگردانا گیا ہے قرآنِ مجید میں نسبی رشتوں کی حرمت کے ساتھ ساتھ اسی پیرائے میں رضاعت کے رشتوں کی حرمت بیان فرمائی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہے:
وأمہاتکم اللاتی أرضعنکم وأخواتکم من الرضاعۃ (النسائ:٢٢)
ترجمہ:۔ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری رضاعی بہنیں ‘حرام ‘ہیں۔
اور حدیث شریف میں ہے:
یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ،رواہ البخاری (مشکوۃ شریف ،ص ٢٧٣،قدیمی کتب خانہ کراچی)
ترجمہ:۔ جو رشتے ولادت سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہوتے ہیں۔
حدیث شریف میں بیان کردہ اس ضابطہ کی بنا پر رضیع مرضعہ کا بیٹا اور وہ اس کی ماں، اور مرضعہ کا شوہر رضیع کا باپ اور مرضعہ کی اولاد رضیع کے بھائی بہن کہلاتے ہیں ،ان کا آپس میں نکاح حرام اور ان کا ایک دوسرے سے شرعی پردہ نہیں ۔
الغرض : شیر خوار بچے کا کسی عورت کا دودھ پینا اسکی صرف جسمانی نشو ونما کا باعث نہیں بلکہ رضاعی رشتوں کا بھی سبب ہے۔
شریعت جیسے نسب کے اختلاط والتباس کو پسند نہیں کرتی،اسی طرح رضاعت کے رشتوں کے اشتباہ واختلاط کو بھی پسند نہیں کرتی۔اسی لیے فقہاء ِ اسلام نے لکھتےہیں کہ عورت ہر بچے کو دودھ نہ پلائے نہ ہی شوہر کی اجازت کے بغیر کسی اور کےبچے کو دودھ پلائے اور اگر دودھ پلانا ضروری ہو تو اسے یاد رکھے اورلکھ رکھے اور خاندان کے لوگوں کو بتائے تاکہ کل کلاں کودودھ کے رشتے کی حرمت پامال نہ ہو۔
یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر دود ھ بینک قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ اگرہم وطن عزیز میں ا س قسم کا کوئی تجربہ کرتے ہیں تو وہ یورپ کی نقالی میں ہوگا مگر اس سے پہلے سے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بہت چوٹیں کھانے اور نقصان اٹھانے کے بعد یورپ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ماں کا دود ھ ہی سب سے بہتر اورمناسب غذا ہے اس وجہ سے وہ ماؤں کو خود دودھ پلانے کی ترغیب دیتےہیں،ایسی مائیں جو اپنا دودھ پلاتی ہیں ان کو کام کے درمیان باقاعدہ وقفہ دیا جاتا ہے،وہاں کے ماحول کے مطابق پبلک مقامات پر دودھ پلانا بھی خلاف قانون نہیں اور برطانیہ میں ایسی ماؤں کو باقاعدہ انعام دیا جاتا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے لیے ایسی منزل کا انتخاب کریں جس سے یورپ واپس لوٹ آیاہے۔