مفتی طارق مسعود کے بیان سے اقتباس
دینی کام کے پیسے لینا اخلاص کے منافی نہیں۔
بلکہ علماء کرام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس زمانے میں دینی خدمت پیسے لے کر کرنی چاہیے۔
کیوں؟
اس لئے کہ جب پیسے لے کر کرو گے تو کام ذمہ داری سے کروگے۔
پیسے لئے بغیر کروگے تو پیسوں کی فکر میں حیران سرگرداں رہوگے اس کام کو وقت نہیں دو گے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا جو اصل مذہب ہے وہ یہ کہ امام کے لئے تنخواہ لینا جائز نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ امام بھی تنخواہ لے سکتا ہے مؤذن بھی لے سکتا ہے مدرسے میں پڑھانے والا استاد بھی لے سکتا ہے۔
ساتویں صدی ہجری میں یعنی آج سے سات سو سال قبل حنفی مفتیوں نے بھی امام شافعی کے قول پر فتوی دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ فی سبیل اللہ طرز کا نظام چلتا رہا تو مسجدوں میں نماز پڑھانے والا کوئی بھی نظر نہیں آئے گا نہ اذان دینے والا نظر آئے گا۔
پہلے لوگوں میں اتنا جذبہ تھا کہ پہلے ہر کوئی یہ کہتا تھا کہ میں امام بنوں گا۔
پھر اتنا انحطاط آ گیا کہ اس وقت یہ فتوی دیا گیا کہ اگر کوئی آدمی اپنے آپ کو امامت کے لئے فارغ کرتا ہے تو اس کو تنخواہ دو۔
کیونکہ اگر نہیں دو گے تو وہ ڈنڈی مارے گا کیونکہ اس کو کاروبار کرنا ہوگا اور دوسرے مادی وسائل اختیار کرنے ہونگے ان کے بھی بیوی بچے گھر بار سب ہوتے ہیں ان کو بھی پالنا ہے۔
اگر امام صاحب خود توکل کرلیں تو بیوی بچی تھوڑی توکل کریں گے، امام صاحب آئے بیوی نے کہا کچھ بھی نہیں ہے کھانے کو تو کہا کوئی بات نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بھی چولہا نہیں جلا کرتا تھا تو بیوی مان جائے گی؟
امہات المؤمنین جو تھیں وہ مان گئیں تھیں کہ یا رسول اللہ ہم بھی آپ کے ساتھ فقر و فاقہ میں شریک ہیں جب کبھی کسی نے ہدیہ دیا دیا تو کھا لیا یا میدان جہاد سے جو مال غنیمت مل گیا اس کے علاوہ تو کوئی گزارہ ہی نہیں تھا۔
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا دن کام کیا تھا؟ دین کی دعوت اور تبلیغ ۔۔ تو توکل اتنا کہ کئی کئی دن فاقے ہو رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی گزارہ کرتی تھیں۔
تو آج کوئی مولوی صاحب نہ خود گزارہ کر سکتے ہیں نہ ہی گھر والے، وہ گزارہ کیا کریں گے بلکہ کہیں گے کہ میں کیوں پڑھاؤں؟ میں کوئی کاروبار کیوں نہ کروں؟ پھر وہ مختلف کام کریں گے اور دینی کام پھر کوئی نہیں کرے گا۔
تو اس لئے فقہاء نے کہا ہے کہ جو علماء مدارس میں تدریس کرتے ہیں ان کو چاہیئے کہ تنخواہ لیں، جو امامت کرتے ہیں ان کو بھی چاہیئے کہ تنخواہ لیں۔
پہلے تو یہ کہا تھا کہ گنجائش ہے بعد میں یہ فتوی دیا کہ ہر حال میں لیں کیونکہ گنجائش سے یہ نتیجہ نکل رہا تھا کہ بہت سے لوگ کہہ رہے تھے تنخواہ لینے سے ہمارا ثواب کم ہو رہا ہے ہم فی سبیل اللہ پڑھائیں گے، چار دن فی سبیل اللہ پڑھایا اس کے بعد غائب تو انہوں نے کہا کہ لیں اور ہر صورت لیں۔
اب میں بھی لوگوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ کسی کی بھی دینی خدمت کرو تو پیسے لے لیا کرو کیونکہ پیسے لینے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ اس کے پابند ہو جاتے ہو وہ آپ کو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ پیسے لے رہے ہو تو ٹائم تو پورا دو۔
کیونکہ فقہاء کہتے ہیں کہ اس زمانے میں پیسے لے کر کام کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اگر آپ کی دنیوی منفعت بھی اس سے وابستہ ہو جائے تو آپ پھر زیادہ شوق سے کام کرو گے۔
اس پر ایک اشکال ہوتا ہے کہ اگر پیسے مل رہے ہیں ہیں پھر ثواب تو نہیں ملے گا؟؟ ملے گا ۔۔ ثواب کا دارومدار نیت پر ہے آپ یہ نیت کرو کہ اے اللہ میں اس لئے پیسے لے کر کام کر رہا ہوں تاکہ میں زیادہ ذوق و شوق سے کام کروں اور ثواب تو ملے گا ہی پر جب پیسے بھی ملیں گے تو میری توجہ دوسرے کاموں کی طرف کم ہو جائے گی،جب میری ضرورتیں اسی کام سے پوری ہو جائیں گی تو مجھے دوسرا کام نہیں کرنا پڑے گا پھر میں دین کیلئے پورا وقف ہو جاؤں گا اس سے اسلام کو فائدہ ہوگا تو اے اللہ میں اس فائدے کیلئے پیسے لے رہا ہوں تو اس سے ثواب بھی ملے گا اور پیسے بھی۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جہاد کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو شخص صرف اللہ کی رضا کے لئے لڑے گا تو ہی ثواب ملے گا اور کوئی مقصد ہوگا تو ثواب نہیں ملے گا اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جہاد میں ترغیب دیا کرتے تھے کہ جس نے فلاں اسلام کے دشمن کو قتل کیا اس کی جیب سے جتنے پیسے نکلیں گے نیز اس کا سارا سامان قاتل کو دے دیا جائے گا۔
یعنی میدان جہاد میں فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہوں اب ایک بہت بڑا ٹارزن ہے سب کو پتہ ہے اس کو قتل کرنا آسان نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرما سکتے تھے جو اس کو قتل کرے گا وہ جنت میں جائے گا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟؟ الفاظ یہ ہیں مَن قَتَل قَتِىلاً فله سَلبُه جس نے میدان جنگ میں کسی کافر کو قتل کیا تو اس کے پاس جو کچھ مال نکلے گا وہ مال غنیمت میں تقسیم نہیں ہوگا، وہ سارا کا سارا مال اس کا ہے جس نے قتل کیا۔
تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس لالچ میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ترغیب دے رہے ہیں تو یہ تو بڑا پاکیزہ مال ہے اللہ کی بہت بڑی رحمت ہے کہ ثواب بھی ملے گا اور پیسے بھی ملیں گے تو دگنے جوش میں لڑا کرتے تھے کوشش کرتے تھے کہ کافروں میں کسی خاندانی کو قتل کریں کیونکہ جتنا بڑا ہوگا اس کی جیب سے اتنی چیزیں نکلیں گی۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ترغیب دیا کرتے تھے اس میں مال کی لالچ بھی دیا کرتے تھے، لیکن اصل مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے اصل مقصد اللہ کی رضا ہو یہ تو ضمناً ہونا چاہیے۔
تبھی اللہ تعالٰی نے بہت سی نیکیوں کے بارے میں دنیا میں بھی خوشخبری دی کہ یہ نیکی کرنے سے تمہیں دنیا میں بھی فائدہ ہوگا، نیکی جب انسان کرتا ہے تو اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ معاشرے میں اس کی عزت بڑھ جاتی ہے،آپ غریبوں کی مدد کریں گے تو وہ آپ کی تعریف بھی کریں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نیک کام کرتا ہوں تو لوگ میری تعریف کرتے ہیں تو یہ تو مجھے دنیا میں ہی اس کا اجر مل گیا آخرت میں کچھ ملے گا کہ نہیں؟ پریشان ہو گئے کہ کہیں میرا اجر ضائع تو نہیں ہو جائے گا اس سے تو معاشرے میں مجھے عزت مل رہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے یہ دنیا کا اجر ہے آخرت میں اس کے علاوہ ہے۔
اللہ اپنے نیک بندوں کو دنیا میں بھی اجر دیتے ہیں اور آخرت میں تو دیتے ہی دیتے ہیں تو دنیا کا اجر کیا ہے؟ اللہ اس کی عزت معاشرے میں بڑھا دیتے ہیں ، لوگ عزت کیلئے کیا کیا کرتے ہیں،تو اللہ اس کو عزت بھی دیتے ہیں اور بعض اوقات پیسہ بھی مل جاتا ہے اس سے نیکی کی طرف اور رغبت بڑھتی ہے لیکن اصل مقصد عزت یا پیسہ نہیں ہونا چاہیئے۔
اصل مقصد کیا ہے؟ اللہ کی رضا ! یعنی آپ دین کا کام کریں تو بولیں اے اللہ پیسے نہ بھی ملتے تو کرتا لیکن پیسے لے کر اس لئے کر رہا ہوں کیونکہ مجھے اپنی طبیعت کا پتہ ہے کہ میرا نفس بڑا شرارتی ہے اس کا اتنا توکل نہیں ہے تو میرا گھر بھی چلتا رہے گا اور میری آمدن بھی بڑھتی رہے گی اور میرے اندر جوش و جذبہ بھی پیدا ہوتا رہے گا اور میں کام زیادہ دل جمعی سے کروں گا۔
اگر آپ کسی کو ٹیوشن پڑھا رہے ہیں قرآن پڑھا رہے ہیں تو اگر فیس لے کر پڑھائیں گے تو آپ ذمہ داری سے پڑھائیں گے کیونکہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ نے یہ ٹائم کسی کو دیا ہوا ہے۔
انتخاب:عائشہ عبدالکریم